|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2017

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے 8جون لاپتہ افراد کی مناسبت سے منایا گیا۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سوشل میڈیا میں مہم چلانے کے ساتھ ساتھ تنظیم نے اپنے مغوی اور گمشدگی کے بعد قتل کیے جانے والے کارکنوں اور رہنماؤں کی رپورٹ میڈیا نمائندوں کو بھی پیش کی۔

ان رپورٹس کے مطابق بی ایس او آزاد کے 100کے قریب کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں مختلف علاقوں سے برآمد ہوگئی ہیں اور دو درجن سے زائد کارکن لاپتہ ہیں۔ جن میں تنظیم کے مرکزی رہنماء زاکر مجید بلوچ، زاہد بلوچ اور شبیر بلوچ بھی شامل ہیں۔ بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ کو اداروں نے مستونگ سے اغواء کیا تھا، وہ ابھی تک گمشدہ ہیں۔

8جون کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر سے تمام بلوچ یکساں طور پر متاثر ہیں۔ ریاست نے بلوچستان میں سیاسی جدوجہد پر مکمل روک لگارکھی ہے تاکہ اس جبر کے خلاف کوئی بولنے والا موجود نہ رہے ، لیکن بلوچ نوجوانوں کی مسلسل جدوجہد سے بلوچستان کا مسئلہ عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہواہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ مسئلہ کے حل کے لئے عالمی توجہ کا حصول حوصلہ افزاء ضرور ہے لیکن فیصلہ کن قوت کے طور پر بلوچ عوام کو ہی ابھرنا ہوگا، بلوچ عوام کا درد دل میں رکھنے والے سینکڑوں روشن خیال رہنماء ریاست کی خفیہ زندانوں میں بند ہیں، اُن کی رہائی کے لیے جس طرح 8جون کو بلوچ عوام نے کسی تنظیم و سیاسی فکر کے وابستگی سے بالاتر ہوکر کردار ادا کیا اس رجحان کو آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔

کیوں کہ بلوچ عوام یکجا ہوکر ناقابلِ شکست قوت بن سکیں گے۔اس مہم کے تحت آج لندن میں بھی بی ایس او آزاد کے کارکن لاپتہ بلوچوں کے حوالے سے آگاہی مہم چلائیں گے۔ جب کہ کینیڈا اور جرمنی میں بھی اس مہم کے حوالے پروگرامز کیے جائیں گے۔

لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے چلائی جانے والی مہم کے تحت 11جون کو آسٹریلیا میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ ان مظاہروں اور پروگراموں کا مقصد عالمی ممالک اور سول سوسائٹیز کو بلوچ مسئلہ کی جانب متوجہ کرنا ہے۔