|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2017

کوئٹہ: صوبائی وزیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے 52ارب روپے کے خسارے کابجٹ پیش کردیا، جس میں آمدنی کا تخمینہ 276ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 328ارب روپے ہے۔

صوبائی اسمبلی میں بلوچستان کا بجٹ پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ نے ایوان کو یہ نہیں بتایا کہ 52ارب روپے کا خسارہ کیسے پورا ہوگا، جبکہ حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، بجٹ میں سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بلوچستان بنک کے قیام کیلئے صوبائی بجٹ میں 10ارب روپے رکھے گئے ہیں، وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں اس کی تفصیلات نہیں بتائیں ۔

گمان ہے کہ اگلے مالی سال سے بلوچستان بنک کام کرنا شروع کر دے گا، یہ بنک سندھ بنک اور پنجاب بنک کے طرز پر تجارتی بنک ہوگااور بلوچستان حکومت کے خزانے کاکام بھی سر انجام دے گا، ایوان میں اراکین کی حاضری پوری تھی، وزیراعلیٰ تمام اہم وزراء اور اپوزیشن کے اراکین موجود تھے، جب وزیر خزانہ نے بلوچستان کا بجٹ پیش کیا۔

بجٹ تقریر سے پہلے انہوں نے ضمنی میزانیہ پیش کیا جس میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ حکومت بجٹ کے ٹارگٹ پورے نہ کر سکی، موجودہ مالی سال میں بجٹ کاتخمینہ 289.356ارب روپے لگایاگیاتھا ، مگر اس سال کے آخر میں یہ گھٹ کر 281.437ارب روپے رہ گیا، اسی طرح اخراجات کا تخمینہ 216.173ارب روپے لگایا گیا تھا، اور سال کے آخر میں 213ارب پر پہنچی ،اسی طرح صوبائی ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 71ارب روپے تھا۔

سال کے آخر میں یہ صرف 68ارب روپے رہ گیا ، وفاقی حکومت نے بعض صوبائی محکموں کے تعاون سے 16ارب روپے ترقیاتی پروگرام پر خرچ کئے اسی سال کے ترقیاتی پروگرام پر صوبائی حکومت 80ارب روپے خرچ کرے گی، جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترقیاتی اخراجات پر 16ارب روپے خرچ ہونگے،بلوچستان کا آئندہ مالی سال2017-18کیلئے 328ارب روپے 85کروڑ روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا ۔

جس میں 52 ارب 13 کروڑ روپے کا خطیر خسارہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ بجٹ میں غیر ترقیاتی اور جاری اخراجات کیلئے242ارب جبکہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے86ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے ۔40ارب روپے 1549نئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے ۔

بجٹ میں امن وامان ، صحت، تعلیم، مواصلات اور آب نوشی کے منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ جبکہ مزدور کی کم سے کم اجرت 14ہزار روپے سے بڑھا کر15ہزارروپے کردی گئی ہے ۔

بجٹ میں 7ہزار سے زائد نئی سرکاری آسامیوں پیدا کرنے، بلوچستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ چھ ارب روپے سے بڑھا کر 8ارب روپے کرکے14ہزار طلباء و طالبات کو14وظائف دینے ،12سوکلومیٹر نئی سڑکیں بچھانے اور 10ارب روپے کی لاگت سے بلوچستان بینک قائم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت کا پانچواں اور آخری بجٹ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے خزانہ سردار محمد اسلم بزنجو نے جمعرات کو اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا۔

3کھرب28ارب روپے کے ٹیکس فری بجٹ میں کل آمدن کا تخمینہ 2 کھرب 76 کروڑ37لاکھ روپے لگایا گیا ہے اس طرح آئندہ بجٹ میں52ارب13کروڑ روپے کا خطیر خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جو بلوچستان کے کسی بھی بجٹ میں اب تک کی خسارے کی سب سے بڑی رقم ہے۔

86ارب ایک کروڑ روپے کے ترقیاتی بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) میں80ارب روپے جبکہ بیرونی تعاون کی مدد سے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں6ارب ایک کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

صوبائی مشیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم پول سے بلوچستان کو226کروڑ جبکہ براہ راست منتقلی کی مد میں 17ارب28کروڑ اور گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کے بقایا جات کی مد میں وفاق سے10ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔

صوبائی حکومت کو اپنے ذرائع سے12ارب40کروڑ روپے آمدن کی توقع ہے جس میں صوبائی ٹیکسز کی مد میں7ارب34کروڑ اورنان ٹیکسز وصولیوں کی مد میں5ارب روپے ملیں گے۔ اسی طرح کیپٹل محصولات کی مد میں بلوچستان حکومت کو30ارب61کروڑ روپے ملیں گے۔

سردار اسلم بزنجو نے بتایا کہ 2کھرب76ارب روپے کے غیر ترقیاتی بجٹ میں جاری مالی اخراجات کا تخمینہ2کھرب30کروڑ روپے لگایا گیا ہے جس میں تعلیم کیلئے45ارب 79کروڑ ،جنرل پبلک سروس کی مد میں43ارب98کروڑ، امن وامان کیلئے34ارب82کروڑ مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اقتصادی امور کیلئے44ارب78ارب روپے ، ماحولیاتی تحفظ کیلئے42کروڑ ،صحت کیلئے 18ارب30کروڑ،ہاؤسنگ اینڈ کمیونٹی سہولیات کیلئے 6ارب28کروڑ روپے ،ثقافت، تفریح اور مذہبی امور کیلئے1ارب94کروڑ اور سماجی تحفظ کیلئے3ارب95کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ سبسڈیز اور قرضہ جات کی ادائیگیوں کیلئے 36ارب جبکہ سرمایہ کاری کے شعبے میں15ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

15ارب روپے میں سے10ارب کی سرمایہ کاری بلوچستان بینک لمیٹڈ قائم کرکے کی جائے گی جبکہ بلوچستان پنشن فنڈ کی مد میں3ارب اور بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کی مد میں2ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ علاوہ ازیں اسٹیٹ ٹریڈنگ فوڈ کی مد میں6ارب17کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بلوچستان اِنویسٹمنٹ بورڈ تشکیل دِیا گیا ہے۔سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ امن وا مان قائم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔

موجودہ مخلوط حکومت نے جب اقتدار سنبھالااْ س وقت امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی اور دہشت گردی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا تھا۔ ایسے موقع پر ہماری صوبائی مخلوط حکومت نے اپنے قانون نافذ کرنے اداروں کی بھر پور حوصلہ افزائی و معاونت کی اور آ ج ہم فخر محسو س کرتے ہیں کہ اب 2013سے پہلے والی صورتحال نہیں رہی۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ڈی پی کے تعاون سے پانچ سالہ منصوبہ پر کام جاری ہے جن میں عدلیہ ، انتظامیہ ،پولیس ،لیویز ،پروسیکویشن اور محکمہ جیل خانہ جات کی تما م شعبوں میں بہتری لانے کیلئے ایک مربوط پانچ سالہ نظام بنایا جارہاہے جس کی سفارشات اکتوبر 2017 تک مکمل کرکے کابینہ کی منظوری کی بعد صوبائی اسمبلی سے پاس کرالیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ شہداء کے خاندانوں کی مناسب دیکھ بھال کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی کے تحت پس ماندگان کو نقد مالی معاونت، پوری تنخواہ، صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں بھی مہیا کی جاری ہیں۔جسٹس کریمنل سسٹم کو مزید بہتر کرنے اور جرائم پر قانونی طریقے سے قابو پانے کیلئے خاطر خواہ قانون سازی کی گئی ہے۔

جن میں بلوچستان میں ہوٹلوں اور کرایے کے مکانات پر سیکیورٹی ایکٹ2015،گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے بلوچستان گواہوں کے تحفظ کا بِل 2015،بلوچستان آرمز ترمیمی بل 2015اوربلوچستان ساؤنڈ سسٹم ترمیمی بل 2015 کا نفاذ شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ شر پسند عناصر کی سر گرمیاں ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی ہیں جس کی وجہ سے اِکا دکا ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو حکومت کی کوششوں کو ناکام کرنے کی سازش کا حصہ ہیں تاہم حکومتی سطح پر ان پر قابو پانے کیلئے بھر پور اقدامات کئے جاہے ہیں۔

ہم لاقانونیت اور بدامنی کو عوام کے تعاون سے 90فیصد سے زائد شکست دے چکے ہیں۔ آنے والے مالی سال 2017۔18میں اَمن و اَمان کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں 14فیصد اضافہ کرکے 30ارب60کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

آئندہ مالی سال میں سکیورٹی اہلکاروں کی ٹریننگ میں مزید بہتری، تفتیشی کورسز کا آغاز، کوئٹہ میں تھانوں اور چوکیوں کی تعداد میں اضافہ، جوانوں کی ویلفیئر، ضروری قوانین کی منظوری وغیرہ جیسی اصلاحات کی جائینگی۔پولیس اور لیویز فورس کو موجودہ حالات اور چیلنجِز سے نمٹنے کے لئے جدید خطوط پر منظم کیا جارہا ہے۔

اِس سلسلے میں32کروڑ روپے کی رقم سے جدید اور معیاری اسلحہ فراہم کرنے کابندوبست کیاجارہا ہے اور دیگر ضروری آلات فراہم کرنے کی غرض سے ایک ارب74کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں محکمہ اسکولز کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں18فیصد اضافہ کرکے35ارب روپے جبکہ محکمہ کالجز کالجز کے لئے غیر ترقیاتی مد میں تقریباً 8بلین رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان نے اپناپانچ سالہ بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان مرتب کیا ہے۔ جسکے تحت نئے اسکولوں کاقیام ، موجودہ اسکولوں کی اپ گریڈیشن ، ارلی چائلڈ ہوڈ کلاسز کا اجراء کیا جائے گا۔ تعلیمی میدان میں اپنے نوجوانوں کی محنت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے بلوچستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کو6ارب روپے سے بڑھا کر8ارب روپے کردیا گیا ہے جس سے آئندہ مالی سال بلوچستان کے تمام اضلاع کے مڈل سے لے کر کالج و یونیورسٹی تک کے14ہزار باصلاحیت ، ہونہار اور پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات کو مْلکی و غیر مْلکی مْستند تعلیمی اِداروں کے لیے وظائف دیئے جائینگے۔

این ٹی ایس کے ذڑیعے اب تک پانچ ہزار ملازمتیں محکمہ تعلیم میں دی جا چکی ہیں۔صوبے کے تمام اِسکْولوں میں فرنیچر، لکھائی پڑھائی کا سامان، سائنسی آلات،ٹاٹ اور کھیلوں کے سامان کی کمی دْور کرنے کے لیے35کروڑ25لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔500پرائمری اسکولوں کو مڈل جبکہ500مڈل اسکولوں کوہائی کا دورہ دیا جائے جائیگا۔

ورلڈ بینک کے شراکت سے تین سالہ منصوبے کے تحت 725نئے پرائمری اسکولوں کا قیام ، موجودہ اسکولوں کو بلڈنگ کی فراہمی اور خواتین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائیگی ۔ڈسٹرکٹ آفیسرز کوسپروائزری اسٹاف کے لیے چار سو موٹر سائیکلیں اور پچاس سے زائد گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ تاکہ اسکولو ں کی نگرانی کی نظام کو بہتر بنا کر اسکولوں کی بندش اور اساتذہ کی غیر حاضری جیسے مسائل کو روکا جا سکے۔

خضدار میں بلوچستان یونیورسٹی کیمپس کو ایک الگ یونیورسٹی شہیدسِکندر زہری یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے جس پر اگلے مالی سال میں ترقیاتی کام کا آغاز کردیا جائے گا اور اس یونیورسٹی کے لیے پہلے ہی سے دو ارب84کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کردی گئی ہے۔ مفت کتب کی فراہمی کیلئے تیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

ایک ہزار سے زائد اسکولو ں کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی تجویز کی گئی ہے۔کیڈٹ کالج قلعہ عبداللہ اورخاران پر تعمیراتی کام کا آغاز کر دیاگیا ہے۔ ریذیڈنشیل کالجز سبی ، خاران اور قلات کے قیام کیلئے تعمیراتی کام جاری ہیں جو انشاء اللہ جلد مکمل کر لیے جائیں گے۔ اس وقت صوبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے (119)اِنٹرو ڈگری اور پانچ ٹیکنیکل کالجز اپنی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

جس میں تقریباً (78ہزار)طلباء4 و طالبات زِیر تعلیم ہیں۔ کالجز سائیڈ کی کل(40)نئی اور) (55جاری اِسکیموں پر ترقیاتی کام جاری ہے۔ یہ ترقیاتی اِسکیمات صوبے میں کالجوں ،تکنیکی اداروں، ریذیڈنشل کالجوں، کیڈٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جال بچھانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔

آئندہ مالی سال ضلع کوئٹہ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کیمپس کے قیام کیلئے ترقیاتی کام کا آغاز کردیا جائیگا۔ NUSTکے کیمپس کے قیام کیلئے زمین خریدنے کی غرض سے ایک ارب21کروڑمختص کئے گئے ہیں۔ اس طرح جاری مالی سال کے دوران صوبے کے کالجوں کو فرنیچر کی فراہمی کیلئے دس کروڑ فراہم کئے گئے ہیں ۔

14کروڑ روپے کی رقم سے دْور دراز اضلاع کے کالجوں کیلئے تیرہ کوسٹرز اور چار بسیں خریدی گئیں ہیں۔اس مقصد کیلئے نئے مالی سال میں بھی 5کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔آنے والے مالی سا ل میں ایجوکیشن انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے۔

جس سے نہ صرف کالجز کے اسٹاف کی حاضری کا آسانی سے پتہ چلایا جا سکے گا بلکہ جن کالجوں کو اسٹاف کی ضرورت ہو گی اس سسٹم کے تحت ان کی کمی پوری کی جا سکے گی۔ شعبہ صحت کے لیے غیرترقیاتی بجٹ کی مد میں 17ارب60کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں ، جو پچھلے سال کے مْقابِلے میں (5فیصد) زیادہ ہیں۔

رواں مالی سال وزیراعظم قومی صحت پروگرام کا آغاز صوبہ بلوچستان سے کردیا گیا ہے۔اس پروگرام کے تحت غریب اور حقدار شہریوں کو مْفت علاج فراہم کیا جائے گا۔یہ اسکیم آئندہ مالی سال کے دوران تمام اضلاع میں شروع کی جائیگی۔

صوبے میں غذائیت کے پروگرام کے تحت نیوٹریشن پالیسی کی منظْوری دے دی گئی ہے۔ اِس مقصد کے لیے ایک پی سی ون بھی منظور کیا جا چْکا ہے جِس کی ما لیت تقریباً 1ارب49کروڑ روپے ہے ۔

حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام EPIکے تحت کوریج کو بہتر بنانے کے لیے ہر یونین کونسل میں نئے سینٹرز کھولے جائیں گے۔ اس کیلئے نیا پی سی ون جس کی مالیت تقریباً7ارب روپے ہے منظوری کیلئے زیر غور ہے۔ آنے والے مالی سال میں صحت کے شعبہ میں ایک بلین کی لاگت سے جدید مشینری خریدی جائیگی۔جبکہ ایک ارب84کروڑ روپے کی لاگت سے مْفت ادوِیات دی جائیں گی۔

طِب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے، اسی سلسلے میں کوئٹہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ادارہ قائم کیا گیا ہے۔بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کے طلباء وطالبات کے اسکالر شپ کو 3ہزارروپے سے بڑھا کر 6ہزار روپے ماہانہ کر دیاگیا ہے۔دارہ برائےِ نفسیات کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو صوبے میں نفسیات کی شعبے میں جدید ترین سہولیات فراہم کرے گا۔

بلوچستان میں موجود واحِد ٹراما سینٹر جو کہ سوِل ہسپتال کوئٹہ میں قائم ہے اِس کو جدید آلات اوردیگر ضروری سہْولیات کی فراہمی سے فعال کردیا گیاہے اِس کے علاوہ صوبے میں پانچ مزید ٹراما سینٹرزکے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔ بلوچستان ادارہ برائے نیفرو یورولوجی کوئٹہ کے لیے 50کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹروں کی رہائش کے مسائل کو دور کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں آٹھDHQsمیں Bachalorہاسٹل بنائے جارہے ہیں اور دوسرے مرحلے میں مزید آٹھDHQsمیں ہاسٹل بنائے جائینگے۔نئے مالی سال میں میں بلڈ کینسر کے مریضوں کے علاج کیلئے 4کروڑ80لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

ایکسرے اور بیڈنگ کے بجٹ میں 100فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی مرمت ،ضروری مشینری اور دوسرے آلات مہیا کرنے کیلئے ہر ضلع کو (50 ملین روپے ) فراہم کیے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ زراعت کے لیے 8ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مْقابِلے میں 12فیصد زیادہ ہیں ۔

200بلڈورزوں کی خریداری ، زرعی یونیورسٹی کا قیام اور کچھی کینال کمانڈ ایریا ڈیویلپمنٹ کے پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ کچھی کنال پر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے تعاون سے سوئی کے علاقے میں ستاون ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت لائی جائے گی۔

جو ہماری مخلوط حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ انشاء اللہ، آئندہ مالی سال میں اس میں پانی کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔قلعہ سیف اللہ اور اْوتھل میں مارکیٹ اسکوائرز کو (13.5ملین روپے) کی لاگت سے جلد ہی مکمل کرلیاجائے گا۔اٹھارہ مختلف اضلاع میں تقریباً (288ملین روپے) کی لاگت سے سرکاری زرعی فارمزکو مکمل طور پر فعال بنایا جارہا ہے۔

زرعی تحقیقی شعبہ کی بحالی اور فعالی پر (ایک بلین روپے)کی لاگت سے چار مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔زرعی ٹریننگ ادارے کی تعمیر پر (500ملین روپے) کی لا گت سے عمل میں لایا جارہا ہے۔(110ملین روپے) کی لا گت سے تین زرعی ورک شاپس بمقامِ پشین ، سبی اور دالبندین اشاد کی تجویز زیر غور ہے۔

رواں مالی سال وفاقی حکومت کی تعاون سے کسانوں کو( ایک ملین روپے)کی لاگت سے رعایتی نرخ پر کھاد فراہم کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کو آنے والے مالی سال میں بھی جاری رکھا جائے گا۔معیاری پودوں کی فراہمی کی غرض سے ٹِشو کلچر (Tissue Culture) کی ٹیکنالوجی کو متعارِف کرانے کے لیے زرعی شعْبہ کے تحت تقریباً (50ملین روپے)کی لاگت سے ایک اہم منصوبے پر کام جاری ہے۔

واٹر مینجمنٹ کے شعبہ میں رواں مالی سال کے دوران تقریبا700نئے تالاب اورہزاروں نالیوں کی پختگی پر کام ہورہا ہے۔مکران ڈویژن میں 2لاکھ ٹن کے قریب کھجور پیدا ہوتی ہے۔ کھجور کی پیکنگ و مارکیٹنگ کے لیے تْربت شہر میں ایک جدِیدمارکیٹ اِسکوائربنانے پر کام جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

اگلے مالی سال کے پچاس ہزاربلڈوزر گھنٹے ضرورت مند زمینداروں میں تقسیم کیئے جائینگے، تاکہ مزید رقبہ زیر کاشت لایا جا سکے۔آنے والے مالی سال کے دوران ٹنل فارمنگ کی ترویج پر کام کیا جائے گا تاکہ زمین پر کم پانی سے ضرورت کے مطابق زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔

اس پر لاگت کا تخمینہ (200ملین روپے) ہے۔انہوں نے کہ اکہ آئندہ مالی سال 2017-18میں محکمہ لائیواِسٹاک کیلئے 2ارب81کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مْقابلے میں تقریباً(20فیصد) زیادہ ہے۔نئے مالی سال کے دوران جانوروں کی مْختلف بیماریوں کے علاج کیلئے (78.500ملین روپے) مْختص کئے گئے ہیں۔

حکومت بلوچستان نے مالداروں تک صحیح منافع پہنچانے کیلئے خضدار ، دْکی ، ڑوب ، سبی ، موسیٰ خیل ، لورالائی اور نو شکی میں مال منڈیاں قائم کرنے کیلئے خطیر رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ماہی گیری کیلئے رواں مالی سال کی نسبت نئے مالی سال میں5فیصد اضافے کے ساتھ 88کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آنے والے مالی سال میں حقدار ماہی گیروں کو ایک ارب روپے کے بلا سْود قرضے دیئے جائنیگے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ہم سب کاشہرہے اوربلوچستان کے گلدستہ کاہرپْھول یہاں اپنی بہار دِکھارہاہے۔ اِس شہر میں بلوچ، پشتون، ہزارہ اور آباد کار سب موجود ہیں۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں ٹریفک کا نظام نا قص ہے۔

نِکاسی آب کا کوئی موثراِنتظام نہیں، صفائی کی صورت حال اور سڑکوں کی حالت اِنتہائی خستہ ہے۔ماضی کے لِٹل پیرس کے روایتی حْسن کی بحالی اور صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کو بْنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مسئلے پر سب کو توجہ دینی چاہیے۔ ہماری حکومت کوئٹہ کی روایتی خْوبصورتی کو بحال کرنے اور شہریوں کو بْنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

محکمہ بلدیات کیلئے غیر ترقیاتی مدمیں تقریباً چھ ارب جبکہ ترقیاتی مد میں 5ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ تمام اِضلاع میں صوبائی سینی ٹیشن پالیسی کے تحت صحت و صفائی کے جامع پروگرام شْروع کئے جا ئینگے۔

صوبے کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹرکیلئے آگ بْجھانے والی گاڑی فراہم کی جارہی ہے۔مرحلہ وار سب اضلاع میں لوکل گورنمنٹ اور چیرمینِ ضلع کونسل کے دفاتر تعمیر کئے جارہے ہیں۔

مرحلہ وار سب اضلاع ، مونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنوں کے چیئرمینوں کو گاڑیا ں دی جائینگی۔تمام چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010کے تحت اعزازیہ دیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران بین الاقوامی معیار کے مطابق تقریباً 1200 کلومیٹر بلیک ٹاپ سٹرکیں بنائی گئیں۔ آئندہ مالی سال کے دوران مزید اتنی ہی بلیک ٹاپ سٹرکوں کا ہد ف رکھا گیاہے۔

سردار اسلم بزنجو نے کہاکہ نئے مالی سال کے دوران مواصلات کے شعبے کی کل (355)اِ سکیمات، یعنی (125)نئی اور(230)جاری اِسکیمات کیلئے مجموعی طور پرتقریباً سات بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔کوئٹہ جناح روڈ پر میوزیم اور صوبائی لائبریری کی تعمیر کی غرض سے (90ملین روپیرکھے گئے ہیں جس پر جلد کام مکمل کرلیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں معدِنیات کا شعْبہ ہمیشہ سے صْوبائی اور وفاقی حکومت کی دلچسپی کامحور رہا ہے کیونکہ اِس شعْبے کی ترقی سے بلوچستان کی ترقی کا مْستقبِل وابستہ ہے۔ مْلک میں اب تک نکالی گئی پچاس معدِنیات میں سے چالیس بلوچستان سے حاصل کی جا رہی ہیں۔

ہمارے کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ 217مِلین ٹن ہے۔ کوئلے سے بِجلی پیدا کرنے کے ایک بڑے منصْوبے پر غور ہورہا ہے جِس سے بلوچستان کے تین ڈویژن کوئٹہ، ژوب اورسبی میں چوبیس گھنٹے بِجلی کی فراہمی مْمکن ہو سکے گی۔

آنے والے مالی سال 2017-18میں محکمہ معدِنیات کیلئے 6فیصد اضافے کے ساتھ دو ارب مختص کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کی معدِنی دولت پر قبضے کی غیر قانونی لیزمنسْوخ کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے۔مائیننگ اِنڈسٹری کی ترقی پر خاص توجہ دی جائیگی اس کی ترقی و توسیع میں جدید آلات ومشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

مائیننگ کے ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور دیگر قانونی مراعات کا حقدار بنایا جارہاہے۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈِک کا بحران جِس کی وجہ سے ترقیاتی کام تاخیر کا شِکار ہے کو شفاف انداز میں حل کر لیا جائے گا۔ریکوڈِک کیس کے لیے65کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔جوکہ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں (150ملین روپے) زیادہ ہے۔

پندرہ سو ملازمین کے مفاد اور سیندک منصوبے سے آنے والی آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پراجیکٹ کی لیز کو مزید3سے 5سال بڑھانے کی تجویززیر غور ہے۔انہوں نے کہ اکہ آنے والے مالی سال میں محکمہ آب پاشی کے لیے 2ارب53کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ھطجی وفاقی حکومت کے تعاون سے آبپاشی کے دس بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔

جن پر تقریباً 42ارب روپے خرچ آئیگا۔ اِن منصْوبوں پر عمل درآمد سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری آئے گی اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر کاشت لائی جاسکے گی۔

علاوہ ازیں مْختلف اِضلاع میں آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی مْیّسر ہوگا۔جبکہ آبپاشی کے پانچ نئے بڑے منصوبے بھی وفاقی حکومت کے مالی تعاون سے مالی سال 2017-18کے ترقیاتی پروگرام شامل ہونگے جنکی لاگت کا تخمینہ 19ارب روپے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے بجٹ میں30فیصد اضافہ کرکے15ارب روپے کردیا گیا ہے۔

صوبائی واٹر سپلائی کی پالیسی اور ایکشن پلان پر کام مکمل کرلیا گیا ہے۔اور اسے صوبائی کابینہ سے 21اپریل 2017 کو منظور کرالیاگیا ہے۔ واٹر سپلائی اسکیم کچھی فیز ٹو ، مختلف اضلاع میں چھ سٹوریج ڈیموں کی تعمیراور مزیدپچاس مزید واٹر فلٹریشن پلانٹوں کی تنصیب پر کام تیزی سے جاری ہے۔پانچ سو واٹر سپلائی ٹیو ب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائیگا،جس پر تقریباً ایک ارب73کروڑخرچہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی لیبر پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔اور اِس ضمن میں تیرہ لیبر قوانین کو صوبائی سطح پر نافذ کرنے کا کام آخری مراحل میں ہے۔ صوبائی مشیر خزانہ نے کہا کہ امسال بھی وفاقی وزارتِ تحفظ خوراک اسلام آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبہ بلوچستان کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہد ف مقرر کیاگیاہے اور گندم کی امدادی قیمت کوبھی گزشتہ سال کے مقرر کردہ نرخ یعنی تیرہ سو روپے فی چالیس کلو گرام پر بر قرار رکھا گیاہے۔

اللہ کے کرم سے صوبہ بلوچستان گندم کی پیداوار میں تقریباً خودکفیل ہوگیا ہے۔ محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق اس سال بلوچستان میں تقریباً نوے لاکھ بوری سے زیادہ گندم کی پیداوار ہوئی ہے۔

لہٰذا وزیراعلیٰ بلوچستان نے موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم کے ہد ف کو بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری کا حکم صادر کیا ہے تاکہ مقامی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔

اور اس عمل سے نہ صرف صوبہ گندم کی پیداوارمیں مزید خودکفیل ہوگابلکہ زمینداروں میں بھی خوشحالی آئے انہوں نے کہا کہ ملک میں صوبہ پنجاب کے بعد صوبہ بلوچستان دوسراصوبہ ہے جس نے فوڈ اتھارٹی ایکٹ اس معززایوان سے منظور کروا کرنافذکر دیاہے۔

یادرہے کہ صوبائی کابینہ نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو فوڈاتھارٹی کاچیئرمین نامزد کیا ہے۔انشا اللہ بلوچستان فوڈاتھارٹی آنیوالے مالی سال کے دوران مکمل طور پر کام شروع کردے گی۔انہوں نے کہا کہ جنگلات کو محفوظ بنانے اور اْنکی ترقی کے لیے روا ں مالی سال کے دوران شجرکاری مْہم کے تحت ایک کروڑ پندرہ لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔

محکمے کے کام میں بہتری کے لیے غیر ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اِضافہ کرکے کا حْجم 1ارب11کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔رواں مالی سال میں 13 جاری اور6نئے منصوبوں کے لیے 12کروڑ کے ضروری فنڈ مْہّیا کیے جائیں گے تا کہ صنوبر، تمر، شینہ، زیتون و چلغوزہ کے قدرتی جنگلات کے فروغ، چراگاہوں کے بہتر بندوبست، واٹر شیڈ کے تحفظ، جنگلی حیات کی حفاظت اور شاہراہوں کے کِناروں پر شجر کاری جیسے اِقدامات کیئے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ تونائی کے بحران کے خاتمے کیلئے بلوچستان حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ بوستان ضلع پشین میں کویت انوسٹمنٹ اتھارٹی کی شراکت سے 100میگاواٹ کا شمسی توانائی کا پلانٹ لگایا جائے گا۔بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں کوبتدریج شمسی توانائی کے نظام پرلایاجائیگاجس پرتیس کروڑ روپے لاگت آئے گی ۔

دیگر سرکاری عمارتوں کو بھی بتدریج شمسی توانائی کے نظام پر لایا جائیگا جس پرتقریباً پچاس کروڑ روپے لاگت آئیگی۔ اِسی طرح حکومت کے زیر انتظام چلنے والی واٹر سپلائی اِسکیموں کوبھی شمسی توانائی پرلایا جائے گا۔جس کے لیے ( 2.00بلین روپے) تجویز کیے گئے ہیں۔

صوبہ بلوچستان کے دْور دراز پچا س بنیادی صحت کے مراکز جو بجلی کی سہولت سے محروم ہیں کو بھی شمسی توانائی فراہم کرنے کی تجویز ہے جس پر (200.00ملین روپے) لاگت کا تخمینہ ہے۔سولر انرجی کے آلات کو چانجنے کیلئے ایک ٹیکنکل لیبارٹری کی تجویز ہے جس پر لاگت کا تخمینہ (50.00ملین روپے)ہے۔

نجی شعبے نے توانائی کے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے اورکنیڈا کی سرکاری کمپنی کینیڈین کمرشل کارپوریشن 50میگاواٹ کا شمسی توانائی کا پلانٹ انجیرہ ضلع خضدار میں لگائے گی۔

جسکے لئے لیٹر آف انٹرسٹ جاری کردیا گیا ہے۔بلوچستان انرجی کمپنی انٹر نیشنل اور نیشنل آئل اینڈ گیس کمپنیوں کے ساتھ ورکنگ انٹرسٹ کی بنیادپر آئل اور گیس سیکٹر میں 50 کروڑ مالیت کی شراکت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے مالی سال 2017۔18میں محکمہ صنعت و تجارت کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسلم بزنجو نے کہا کہ جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ کو200ملین فراہم کردیئے گئے ہیں اس رقم سے حاصل شدہ منافع صحافیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائیگا۔

آنے والے مالی سال 2017۔18کے دوران پریس کلب کوئٹہ کی سالانہ گرانٹ کو(ایک ملین روپے) سے بڑھا کر (دوملین روپے)کرنے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ترقی نسواں کیلئے 11کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ایک جامع ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

ماتحت دفاتِر خْضدار،کوئٹہ اور سبی میں قائم کردئیے گئے ہیں اور مزید تین دفاتر ڈویژنل سطح پر کیچ، ڈیرہ مراد جمالی اور لورالائی میں آنے والے مالی سال میں کھولے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہ اکہ موجودہ حکومت ما حولیات کے تحفْظ کے لیے بھر پْور کام کر رہی ہے اورصوبائی ماحولیاتی پالیسی مرتب کرنے کیلئے کاوشیں جاری ہیں۔

رواں مالی سال2016۔17 میں محکمہ ماحولیات قائم کردیا گیاہے۔ کوئٹہ شہرکی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے 195ملین لاگ کا منصوبہ منظور کرلیا گیاہے۔ انوائرونمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے (200ملین روپے)کی لاگت کا منصوبہ تجویز کیا گیاہے۔

ریجنل دفاتر بمقام گڈانی اور گودار بمعہ لیبارٹیکے قیام کیلئے (300ملین روپے) کی لاگت سے منصوبے تجویز کئے گئے ہیں۔ خضدار ، لورلائی اور پنجگور میں ضلعی دفاتر قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

جس کیلئے (300ملین روپے) مختص کئے گئے ہیں۔ گوادر میں ماحولیات سے متعلق ماسٹر پلان بنانے کیلئے (20ملین روپے)کی لاگت سے منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

جس کیلئے (20ملین روپے)کی تجویز ہے۔ ماحولیات کے متعلق بین الاقوامی تجربات سے مکمل فائد ہ اٹھانے کیلئے خصوصی Cell کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے۔جس کیلئے ابتدائی طور پر (10ملین روپے)کی منظوری دی گئی ہے۔ ماحولیات سے متعلق تحقیق کوفروغ دینے اور تین مختلف موضوعات پر رپورٹ مرتب کرنے کیلئے (50ملین روپے)مختص کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے مالی سال میں محکمہ کھیل کے لیے گرانٹ 10کروڑ روپے سے بڑھا کر40کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ پورے صوبے میں جشن ازادی 2016کے حوالے سے تقریبات پر22کروڑ68لاکھ روپے خرچ آیا۔ اسکے علاوہ صوبے میں وِنٹر سپورٹس گالا منعقد کیا گیا جس پر ساٹھ لاکھ روپے لاگت آئے۔

بلوچستان اِسپورٹس فیسٹِول پر3کروڑ60لاکھ روپے خرچ آیا ۔آئندہ بھی ایسے صحت مند مْقابلوں کے تقریبات کا اِنعقاد جاری رکھا جائے گا۔سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ حکومتی اعداد و شْمارکے مطابق بلوچستان میں قابلِ روزگار آبادی کل آبادی کا 40% ہے۔ جبکہ موجودہ اعداوشْمار کے مطابق تقریباًسات سے آٹھ لاکھ افراد بے روز گار ہیں۔

بیروزگاری کی شرح دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ہمارے اس کم آبادی والے صوبے میں قابل روزگار آبادی میں اتنی بڑی تعدادکابے روزگار ہونا لمحہ فکریہ ہے۔اگلے مالی سال کے لئے 7971 نئی اسامیاں پیدا کی جائیں گی جس سے براہ راست روزگار کے مواقع میسر ہونگے۔

صوبائی حکومت کے مختلف اداروں میں موجود تربیتی اداروں مثلاََ ٹی ٹی سی ، وی ٹی سی اور سمال اِنڈسٹریز کے تحت کام کرنے والے اداروں میں نوجوانوں کو تربیت دی جائیگی تاکہ وہ اپنے لئے خود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے قابل بن جائیں۔مزید یہ کہ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کیلئے اِنٹرن شِپ کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

آنے والے مالی سال 2017۔18میں بلوچستان ایجوکیشن انیبلرپروگرام شروع کیا جارہا ہے جس پر (200ملین روپے)لاگت کا تخمینہ ہے۔اس پروگرام کے تحت ہمارے صوبے کے غریب اور باصلاحیت طلباء4 و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک ایم۔ایس،ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کرنے کیلئے بھیجا جائے گا۔

اس مختص کر دہ رقم سے پاک آرمی کے زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں کی بھی معاونت کی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ8اگست 2016سول ہسپتال کوئٹہ کے دہشت گردی کے المناک واقعہ جس میں ہمارے صوبے کے صفحہ اول کے وکلا شہید ہوئے کو تاریخ ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔

صوبے کے خواہشمند اور اہل وکلا کو بیرونی ملک خصوصا برطانیہ بار ایٹ لاء4 کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لئے بھیجا جائیگا۔ جس پر لاگت کا تخمینہ 250ملین روپے ہیں۔ صوبائی مشیر خزانہ نے کہا کہ صْوبے کی اِنتِظامی مشینری کو چلانے ، منصْوبہ سازِی اور منصْوبوں کو عملی جامعہ پہنانے میں سرکاری مْلازمین ہمارے دست و بازْو ہیں۔

اْنکی مالی مْشکِلات کو مدّنظر رکھتے ہْوئے مسائل حل کرنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامِل ہے۔ حکومت بلوچستان نے اپنے سرکاری ملازمین ، پنشنرز اور ورکرز کے لیے مندرجہ ذیل ریلیف اقدامات کئے ہیں۔محکمہ صحت کے ڈاکٹروں کے تین سروس کیڈرز کے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس میں خاطر خواہ اضافہ کردیاگیا ہے۔

صوبے میں خطیب کی آسامیوں کوگریڈ 14سے گریڈ16، پیش امام کوگریڈ12سے 14میں ، موذن کو گریڈ 4سے 6میں اور خطیب کوگریڈ2سے 4میں اپ گریڈیشن دی گئی ہے۔آغازحقوق بلوچستان پیکیج کے تحت بھرتی ہونے والے ایس ایس ٹی ٹیچرز جوگریڈ 16میں بھرتی ہوئے تھے کوگریڈ17میں اپ گریڈکردیا گیا ہے۔

تمام انجینئرنگ محکموں کے سب ڈویڑنل کلرکس کوگریڈ 9سے گریڈ 14میں اپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح اکاؤنٹس کلرکس کوبھی گریڈ9سے گریڈ11میں اپ گریڈ کردیا ہے۔باقی صوبوں کی طرزپر ہمارے صوبے کے ضلعی اسپورٹس آفیسران کی آسامیوں کوگریڈ16سے 17میں اپ گریڈ کیا جارہا ہے جسکے کھیلوں کی سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

آئندہ مالی سال 2017۔18 میں تنخواؤں اور پینشن کے حوالے سے ہماری صوبائی حکومت اپنے ملازمین اور پینشنرز کے لیے وفاقی حکومت کے اعلان کر دہ طرز پر اضافے کا اعلان کرتی ہے۔مزدور طبقے کی بہبودکے لیے کم از کم اجرات کی شرح کو 14ہزار روپے سے بڑھ اکر15ہزار روپے ماہانہ کردیا گیا۔

اس سے کم تنخواہ پر ملازم رکھنا قابل سزاجرم تصور ہو گا۔اقلیتوں کے بْنیادی و آئینی حقوق کو تحفْظ فراہم کیا جارہا ہے۔سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے پانچ فیصد کوٹہ پر سختی سے عمل درآمد کیلئے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔خلاف ورزی پر سخت تادیبی کاروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ معذوروں کے بْنیادی و آئینی حقوق کو بھی تحفْظ فراہم کیا جارہا ہے۔آنے والے مالی سال 2017۔18 میں اسپیشل لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے ایک انٹر کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔آنے والے مالی سال کے دوران بے گھر اور بے سہارا بچوں کے لیے سنٹر کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔

سردار اسلم بزنجو نے بتایا کہ رواں مالی سال مالی سال کے دوران دہشتگردی کے متاثرین میں ایک ارب روپے تقسیم کئے گئے ۔اِس کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے سرکاری مْلازمین کے لواحقین کی تعلیم، صحت ،گھر، تنخواہ اور پنشن کے اخراجات بھی حکومتِ بلوچستان اداکررہی ہے۔عام شہری جو دہشت گردی میں زخمی یا شہیدہوں اْن کے لیے بھی خاطِر خواہ رقم فراہم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2017۔18کی پی ایس ڈی پی میں تعلیم ، صحت ، امن وامان، آب نوشی، مواصلات اور پانی و توانائی کے شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔بے جا اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کو ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے اِستعمال کیا جارہا ہے۔حکومت بلوچستان مالی مشکلات کو مدِّ نظر رکھتے ہْوئے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے سختی سے سادگی وبچت کیلئے اْٹھائے گئے اقدامات پرعمل پیراہے۔

حکومت بلوچستان نے مالی سال 2016۔17کے دوران نہ صرف ٹیکس اصلاحات کیں بلکہ مالی معاملات میں بہتری کی بھر پور کوششیں بھی کیں ، جن میں سے چند اہم کاوشوں کا ذکر کرنا چاہونگا۔تمام محکموں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ سختی کے ساتھ اپنے محکموں میں مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنائیں۔

اِس اَمر کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ خزانہ بلوچستان مْسلسل محکموں کے اخراجات پر ایک جامع کمپیوٹرائزڈِسِسٹم کے تحت نظر رکھے ہْوئے ہے۔مالی نظم و ضبطِ کی غرض سے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (P.P.R.A) قائم کر دی گئی ہے تا کہ غیر ضروری مالی معمولات کی جانچ پڑتال ہو سکے۔

حکومت بلوچستان نے رواں مالی سال کے دوران ٹیکس اصلاحات کی مد میں خاطر خواہ بہتری کی ہے۔ اس سلسلے میں نمایا ں کاوش بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا قیام عمل میں لاناہے۔جس نے قلیل عرصہ کے دوران تین ارب روپے سے زائد ٹیکس وصول کی ہے جو کہ پچھلے سالوں کے دوران کی گئی وصولیوں کی نسبت نمایاں بہتری ہے۔

اس کے علاوہ صوبے کے اپنے وسائل میں رواں مالی سال کے دوران تقریباً دو ا رب روپیکا اضافہ ہورہا ہے جوکہ انتہائی خوش آئند ہے۔انہوں نے کہا کہ لگڑری گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی رہے گی۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اوراِس کی کاروائیوں اور فعالیت کے تسلسْل کو قائم رکھا جائے گا۔

ترقیاتی منصوبوں پر مروجہّ قوانین کے تحت عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا اور اِن کی باقاعدہ نِگرانی کی جائے گی۔حکومتی خرچے پر بیرونِ مْلک علاج و معالجے ، سمیناروں ، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں شرکت پر عائدپابندی پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔

حکومتی خرچے پر ہوٹلوں میں میٹنگ و تقریبات کے اِنعقاد پر مکمل پابندی ہوگی۔اِس کے علاوہ حکومتیِ خرچے پر ظہرانے و دیگر طعام پربھی پابندی ہوگی۔ (سوائے اِستثنائی صورت کی حالت میں)۔سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ مالی سال 2016۔17کے دوران نئے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی مینول پنشن سسٹم ختم کرکے کمپیوٹرائزڈ نظا م کے ذریعے پنشن کا اجراء صوبے کے تمام اضلاع میں شروع کردیا گیاہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پْرانے پنشنرز کو بھی کمپیوٹرازڈ نظام کے ذریعے ادائیگی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جس سے نہ صرف پنشنر ز کیلئے آسانیا ں پید ا ہونگی بلکہ گھوسٹ پینشنرزکا خاتمہ ممکن ہو سکے گا، جس سے حکومت کو کر وڑوں روپے کی بچت ہوگی۔حکومت بلوچستان سالا نہ تقریباً15ارب روپیپینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ آنے والے وقتوں میں پنشن کے اخراجات میں متوقع اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت بلوچستان نئے مالی سال کے دوران اپنے پنشن فنڈ میں تین ارب روپے کی انوسٹمنٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اور ہر سال بتدریج اس میں اضافہ کیا جائیگا تاکہ پینشن کے اخراجات اس فنڈسے حاصل ہونے والے آمدنی سے پورے کئے جاسکیں۔ اس کے علاوہ حکومت بلوچستان نے مالی سال-17 2016کے دوران اپنے ملازمین کی بہبودکے لئے بنو ولنٹ فنڈ اور گروپ انشورِنس سکیم کے تحت 50,000 ہزار سے زائد ملازمین کو مختلف مراعات میں تقریباً دو ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں مالی معاملات اورنظم و نسق کی بہتری کے لئے بین الاقومی اداروں کی مدد سے اصلاحات کا پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بنیا دی رپورٹ مرتب کی جاچکی ہے جوکہ جلد ہی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سامنے پیش کی جائیگی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں مالی نظم و نسق کی بہتر ی کے حوالے سے اصلاحات کا ایجنڈ ا ترتیب دیا جائیگا۔

آنے والے مالی سال میں ایک جدید مالی نظم و نسق کا پر وگرام شروع کیا جائیگا۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ صوبائی حکومت سی پیک منصوبوں سے پیدا ہونیوالے ترقی کے مواقعوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہیں ۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں کوئٹہ کو پٹ فیڈر سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ شامل کیاگیا ہے یہ منصوبہ اب سی پیک میں شامل کرلیا گیا ہے ۔

منصوبے کے فزیبیلٹی اور پی سی ون کی تیاری کیلئے بین الاقوامی فرموں سے ٹینڈر طلب کرلئے گئے ہیں۔ ماس ٹرانزٹ ٹرین اور گرین بس سروس کے منسوبوں پر بھی عملدرآمد کا آگاز کردیاگ یا ہے۔

پی سی ون اور فزیبیلٹی رپورٹ تکمیل کے مرحل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹڑز کی تعمیر و ترقی کیلئے خطیر رقم جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر کیلئے بیس بیس کروڑ روپے فراہم کئے گئے جن کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ چال سال پہلے جب ہم حکومت میں آئے تو اس قابل نہ تھے کہ پی ایس ڈی پی او میں عوام کی توقعات کو پورا کرتے ہوئے نئے منصوبے شامل کرسکیں کیونکہ پچھلی حکومتوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قلیل رقم کے ساتھ نہ ختم ہونیوالے منصوبے شروع کر رکھے تھے ۔

اس ایوان کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ انشاء اللہ آئندہ مالی سال کے اختتام پر موجودہ حکومت کے شروع کئے گئے2760منصوبے مکمل ہوجائے گی اور پانچ سال مکمل ہونے کے بعد نئی آنے والی حکومت کیلئے ایک اچھی روایت قائم کرتے ہوئے کم سے کم بوجھ چھوڑ کر جائیں گے تاکہ نئی حکومت اپنی مرضی سے عوام کی امنگوں کے مطابق منصوبے شروع کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ درحقیقت صوبہ بلوچستان تبدیلی کے ایک بڑے دَور سے گْزر رہا ہے۔ ہم سب کا خواب ایک خوداِنحصار، ترقی یافتہ اور خْوشحال بلوچستان ہے۔ سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ موجودہ بجٹ اِن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جن سے عام آدمی کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

آئندہ بجٹ کی خاص بات صوبے کے وسائل کو ترقی دے کر مجموعی ترقیاتی اہداف کا حصول ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جِس کو پیش نظر رکھ کر یہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری ون روڈ ون بیلٹ کے چینی وژن کا اہم ترین حصہ ہے جس کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی رابطوں کو فروغ دیکر وسط ایشیا تک بڑھایا جانا ہے۔

ہم اس کلیدی منصوبے پر فخر محسوس کرتے ہیں جونہ صرف پاکستانی معیشت کو استحکام دینے کا باعث بنے گا بلکہ ہمار ے صوبے کی بھی تقدیر بدل دے گا۔سی پیک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو منصوبے کے حوالے سے اعتما د میں لے رہے ہیں۔

ہم اس منصوبے کے مخالفین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اس قومی اتفاق کے منصوبے پر نہ بے جا اعتراض اٹھائیں اور نہ ہی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں کیونکہ ہم انشاء اللہ اس طرح کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔