|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2017

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تصویر لیک کےمعاملے پر حسین نواز کی درخواست مسترد کردی ہے۔

سپریم کورٹ نے تصویر لیک سے متعلق حسین نواز کی درخواست پر فریقین کا موقف سننے کے بعد 14 جون کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا تاہم اب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ سنادیا ہے۔

سپریم کورٹ نے تصویر لیک کےمعاملے پر حسین نواز کی درخواست مسترد کردی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ بیان کے متن کی درستگی کے لئے آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے، اسے  ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تصویر لیک کرنے والے کی نشاندہی ہو چکی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی کارروائی سب کے سامنے آنی چاہیے، صرف میڈیا کو الزام نہیں دیا جا سکتا، حکومتی ادارے عدالت کو جواب دہ ہونے کی بجائے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں،

خود ساختہ حکومتی ترجمانوں سے کہیں ناپ تول کر بولیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اپنے حق میں آرٹیکل چھپوا رہی ہے، ہم نابالغ نہیں جو معاملے کو سمجھ نہ سکیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے کو اپنا دفا ع کرنا نہیں کہا جا سکتا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کابوجھ اور ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے، بہتر دلائل اور قانونی حوالوں سے ہی عدالت کی معاونت کی جا سکتی ہے، عدالت کو ڈی ریل کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے،

آرٹیکلز یا سیاستدانوں کے بیانات ہمارے ذہنوں کو تبدیل نہیں کر سکتے، چاہتے ہیں عدالتی کارروائی ہی عوام تک پہنچے، اٹارنی جنرل اپنے جواب میں معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ذمہ داری کا احساس ہے، عدالت کے اعتماد کو ذمہ داری سے نبھاؤں گا۔ بطور عدالتی افسر روسٹر پر موجود ہوں، تصویر لیکس کے معاملے پر جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ،

عدالت کی اٹارنی جنرل کو آئی بی کے معاملے پر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔ جسٹس عظمت سعید کی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی انہیں اپنا جواب جواب میڈیا پر نہیں عدالت میں دائر کرنا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کی پاناما جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کے دوران کی ایک تصویر لیک ہوئی تھی، جس پر حسین نواز نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی کے اراکین اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں، تصویر لیک ہونے کے ذمہ دار جے آئی ٹی سربراہ اور اراکین ہیں،

ان کی تصویر لیک ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، تصویر کو منظر عام پر لانے کا مقصد ان کی تضحیک کرنا تھا، تصویر لیک کر کے آئندہ طلب کیے جانے والوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

حسین نواز نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ تصویر لیک ہونے کے معاملے پر ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے، جوپتہ چلائے کہ جے آئی ٹی سے تصویر لیک کیسے ہوئی۔