خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے ہر ضلع / تحصیل میں پیٹرولیم سوشل ڈیو یلپمنٹ کمیٹیاں قائم کرے۔
یہ کمیٹیاں ، تلاش کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے قابل ادائیگی آئل اینڈ گیس رائیلٹی اور پیداواری بونس کے بارے میں فیصلہ کریں گی۔
یہ خیال سب سے پہلے میں نے مارچ 2005 میں این ڈبلیو ایف پی(اب خیبر پختونخوا) انویسٹمنٹ کانفرنس میں پیش کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ تیل، گیس اور معدنیات پر رائیلٹیز کا ایک خاطر خواہ حصہ اُن اضلاع کو دیا جانا چاہیئے،جو اس قدرتی دولت کو پیدا کرتے ہیں۔
میں نے اس کانفرنس کا اہتمام بورڈ آف انویسٹمنٹ اور صوبائی حکومت کے تعاون سے کیا تھا۔ میں نے کانفرنس کے شروع ہی میں اپنا یہ خیال پیش کر دیا تھا کہ رائیلٹیز میں سے ان اضلاع کو حصہ ملنا چاہیئے،جہاں سے یہ قدرتی وسائل حاصل کیے جاتے ہیں۔
اگلے روز ایک انگریزی اخبار نے علیحدہ آئٹم کے طور پر اس خبر کو شائع کیا۔شوکت عزیز (اُس وقت کے وزیر اعظم)نے،جنھوں نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا تھا۔
اس خیال کی تعریف کی مگر بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ اس بارے میں صوبائی حکومتوں کو فیصلہ کرنا چاہیئے کیونکہ کوئی کسی صوبے کی جتنی بھی رائیلٹی ہوتی ہے ،وفاقی حکومت وہ ساری اسے ادا کر دیتی ہے۔
جس اہم عنصر کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے،وہ یہ ہے کہ کانکنی، تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار،بندر گاہوں وغیرہ جیسے قدرتی وسائل سے جو ٹیکس اور رائیلٹیز وصول کی جاتی ہیں ،وہ اس دولت کے اصل مالکان تک نہیں پہنچ پاتیں۔
مرکز، تیل اور گیس کی پیداوار پر رائیلٹی میں سے حصہ ادا کرتا ہے مگر صوبے اس میں سے ان اضلاع کو کچھ نہیں دیتے جہاں سے اس دولت کو نکالا جاتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اتفاق سے ایسے زیادہ تر وسائل ملک کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
ان معدنیات اور تیل و گیس کے وسائل کے منافع میں سے متعلقہ اضلاع کو اداراتی بنیادوں پر حصہ دینے کی بجائے وفاقی حکومت اور تلاش و پیداوار کی ذمہ دار کمپنیاں علاقے کے با اثر افراد کوحفاظت کے نام پر رقم ادا کرتی ہیں۔
رائیلٹیز اور بونس سے کمائی جانے والی رقم صوبائی حکومت کو چلی جاتی ہے جبکہ اُس ضلع/ تحصیل کوجہاں سے ان وسائل کو نکالا جاتا ہے،کوئی زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
اگر اس رقم میں سے کچھ حصہ اُس علاقے کی مقامی حکومت کو بھی دیا جائے تو وہاں کے عوام تلاش اور پیداوار کا کام کرنے والی کمپنیوں کا خوش دلی سے ساتھ دیں گے۔چنانچہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک بہتر آغاز ہے اور دوسرے صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیئے۔
مقامی حکومتوں کے اختیارات غصب کرنے والوں کی طرف سے مخالفت میںیہ دلیل دی جاتی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر محاصلات کو بلدیاتی حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، کیونکہ ضلعی اور تحصیل سطح کی قیادت اس رقم کو خورد برد کر سکتی ہے۔یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل ہے۔
اس دلیل کو اسی صورت میں مانا جا سکتا ہے جب صوبائی حکومتیں خود بھی انتہائی شفاف اور لائق ہوں۔
میں نے احتیاطی تدبیر کے طور پر ایک بار یہ تجویز دی تھی کہ مقامی یا صوبائی حکومتوں کی طرف سے جب مختلف منصوبوں پر کا م شروع کیا جائے تو ان تمام پراجیکٹس کے بنیادی حقائق پراجیکٹ کی سائیٹ پر آویزاں کیے جانے چاہئیں۔
جن میں منصوبے کی لاگت اور مکمل ہونے کی تاریخ شامل ہو ،تاکہ لوگ کسی تاخیر یا لاگت بڑھ جانے پرمتعلقہ حکام کو ذمہ دار ٹھہرا سکیں۔بد قسمتی سے میڈیا بھی جو ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت پر گہری نظر نہیں رکھتا، نگران کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
کے پی کی حکومت کو چھوڑ کر باقی صوبے پراونشل فنانس کمیشنز کو اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔قومی اور صوبائی سطح کے سیاست دان اپنے اپنے حلقے کی ترقی کے لیے صوابدیدی اختیار کے تحت رقوم کی تخصیص کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس سے نہ صرف بد عنوانی کا دروازہ کھلتا ہے بلکہ انھیں اپنے حلقوں میں طاقت بھی ملتی ہے۔صوابدیدی فنڈز سے یہ لوگ جو اسکیمیں شروع کرتے ہیں بنیادی طور پر وہ مقامی حکومتوں کا کام ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے کمزور رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کی بنیاد مضبوط کیے بغیر یہ ہوا میں معلق ہے۔
حکمران سیاسی جماعتیں نہ صرف بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کرتی رہی ہیں بلکہ جب انھیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے دباؤ کی وجہ سے مجبوراً ایسا کرنا پڑا تو انھوں نے ان اداروں کے انتظامی اور ریونیو پیدا کرنے کے اختیارات میں کمی کر دی۔
مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم پر زندہ رہنا ہوتا ہے اور ان کے پاس اپنے طور پر محاصل پیدا کرنے کی بہت کم لچک ہے۔
کراچی کے مےئر مسلسل مزید وسائل کے لیے کہتے رہے ہیں کیونکہ وہ نئے ٹیکس نہیں لگا سکتے اور نہ پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
صوبائی حکومت کی طرف سے وصول کیے جانے والے وہیکلز ٹیکس کی مثال لیجئے،جو آگے مقامی حکومت کے حوالے کیا جانا چاہیئے جو ان گاڑیوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے سڑکوں کے ڈھانچے کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔
1990 کی دہائی میں ایک ممتاز اکاؤنٹینٹ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی جسے اس وقت کے وزیر خزانہ سندھ، حفیظ شیخ نے قبول کر لیا تھا،تجویز یہ تھی کہ وہیکلز ٹیکس کی بجائے پٹرولیم سیلز کی سطح پر یوزر چارج وصول کیا جائے۔
اس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ آئل مارکیٹ کمپنیاں شہروں کی مقامی حکومتوں کی طرف سے یہ یوزر چارج وصول کریں اور ماہانہ بنیاد پر براہ راست انھیں منتقل کریں۔
بد قسمتی سے سندھ حکومت نے اس معقول تجویز کو جس کا تعلق گاڑیوں کی طرف سے سڑکوں کے استعمال سے تھا، بالائے طاق رکھ دیا ۔
عموماً بلوچستان اور خصوصاً گوادر کے عوام جب اپنے علاقے میں ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں تو بھی یہی بات صادق آتی ہے۔صوبائی اور قومی حکومت ان کی مدد کر رہی ہے ۔
مقامی آبادی کو جب بھی کھل کر بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں میں ان کے مفاد کو شامل کر کے اس غم غصے کے جائز اسباب کو دور کرنا چاہیئے۔
مثال کے طور پر صوبوں کی بندر گاہوں سے تمام اشیاء اور خدمات پر5 فیصد میونسپل ٹیکس عائد کرنا چاہیئے۔
اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں بہتر تبدیلی آئے گی،سخت رویہ رکھنے والے مقامی لوگ خوش دلی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کے لیے اضلاع کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
یہ کوئی بہت مشکل بات نہیں ہے ہم بہت سے ترقی پذیر جمہوری ممالک میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ مقامی حکومتیں اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ انھیں بہتر آمدنی حاصل ہو اور روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں۔
مضبوط بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد کو مستحکم کریں گے کیونکہ اس طرح نظام میں بنیادی سطح پر لوگوں کا اسٹیک ہو گا۔فوجی حکومتیں صرف اپنی بندوق کی طاقت پر زندہ نہیں رہیں، بلکہ انھوں نے عوام تک رسائی کے لیے بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے۔
تمام جمہوریت پسند وفاقی اکائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں۔مگر وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ فوجی حکومت صوبائی ڈھانچے کو چھوڑ کربراہ راست مقامی حکومتوں تک پہنچے۔
ayazbabar@gmail.com