|

وقتِ اشاعت :   July 12 – 2017

جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جس میں وزیراعظم اور اسکے خاندان کے خلاف ’’ فرد جرم ‘‘ عائد کرتے ہوئے یہ سفارش کی گئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنس دائر کیاجائے کیونکہ ان کے اثاثے ان کے ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

جے آئی ٹی نے دستاویزات میں بعض کو جعلی قرار دیااور بعض سوالات جیسے اتنی بڑی دولت کیسے حاصل کی گئی اور ذرائع آمدن کیا ہے جو کہ شریف خاندان بتانے سے قاصر رہی ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد یہ قیاس اب یقین میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کہ نواز شریف کی بادشاہت کا دور عنقریب ختم ہونے والا ہے ۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف کے اقتدار میں رہتے ہوئے ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنس داخل نہیں کرے گی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدہی ریفرنس داخل کرے گی بلکہ سپریم کورٹ نے ضروری سمجھا تو اس سلسلے میں حکم جاری کرے گی۔ 

سب سے پہلے تو وزیراعظم کی نا اہلی کا معاملہ آئے گا ملکی سیاسی تاریخ کی بڑی تفتیش کے بعد جو حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس پر عمل درآمد جلدشروع ہو سکتا ہے ۔ دونوں اطراف سے دلائل کے بعد سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آسکتا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔ 

ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ان کو نا اہل قرار دے تاہم اس کا حتمی امکان ہے کہ سپریم کورٹ دونوں طرف سے پہلے دلائل سنے گی اگر حکومت کی جانب سے اضافی دستاویزات داخل کی گئیں اور منی ٹریل کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے لائی گئیں تو سپریم کورٹ فیصلے سے قبل اس پر ضرور غور کرے گی۔ 

معلوم ہوتا ہے کہ حکومت، اس کے وزراء اور رہنماؤں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اوران کی اکثریت اپنے اپنے حلقوں میں پہنچ گئی ہے جہاں وہ اپنے حامیوں کے درمیان موجود ہیں ۔

یہ اس بات کی طرف اشار ہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہار مان لی ہے اب وہ فیصلے کا انتظار کررہے ہیں کہ سیاسی منظر نامے میں کیا تبدیلی آتی ہے ۔ اب اس بات میں دو رائے نہیں کہ نواز شریف کی تیس سالہ بادشاہت خاتمے کے قریب ہے اور اگر نا اہلی کا فیصلہ آیا تو نواز شریف اپنے خاندان کے ساتھ ملک چھوڑ سکتے ہیں ۔ 

نا قدین ہمیشہ نواز شریف پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ ان کو سیاست سے زیادہ دولت سے دلچسپی رہی ہے اور وہ ہر بیرونی ملک کے دورے کے دوران اپنی دولت بڑھانے کی کوششوں میں لگے رہے ہیں۔

گزشتہ سالوں سری لنکا کے دورے میں اس کے صدر کو یہ پیش کش کی کہ وہ سری لنکا میں چینی کا کارخانہ لگاناچاہتے ہیں جبکہ نواز شریف ریاست پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے سری لنکا سارک کانفرنس کے سلسلے میں گئے تھے، ذاتی حیثیت میں نہیں کہ اپنے لیے وہ چینی کا کارخانہ لگانے کی بات کرتے ۔

ادھرگزشتہ سالوں سندھ کی اہم شخصیات نے پی پی پی کی مخالفت میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی ، ان میں سندھ کے تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے لیکن سالوں تک ان شخصیات کو شرف ملاقات تک نہیں بخشا گیا بلکہ ان کے فون تک بھی سننے کی زحمت گوارانہیں کی گئی ۔

اس کے بعد تینوں سابق وزرائے اعلیٰ نے استعفیٰ دے دیا اور یہ الزام لگایا کہ چھوٹے موٹے تاجروں کو زیادہ اہمیت دی گئی بہ نسبت سیاسی رہنماؤں کے جو لاکھوں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال ملک کے لئے صدر کا انتخاب تھا ، یہ عہدہ ایک معمولی تاجر کو دیا گیا ، نا می گرامی سیاستدانوں کو نظر انداز کیا گیا ۔

نواز شریف اور ان کے حمایتیوں کو یہ شکایت ہے کہ نواز شریف اور اس کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا ۔ مریم نواز مظلوم عورت نہیں تھی جس کو جے آئی ٹی کے سامنے بلایا گیا ، وہ ریاست کی شہزادی ہے ان سے صرف اور صرف یہ پوچھا جارہا تھا کہ اتنی بڑی دولت کہاں سے آئی؟ 

بیس کروڑ پاکستانی عوام کا یہ حق ہے کہ وزیراعظم اور انکے بچوں سے پوچھا جائے اتنی بڑی دولت کہاں سے آئی او وہ یہ ثابت کریں کہ جائز آمدنی سے اتنی بڑی دولت کمائی گئی ہے ۔

اگر وہ ملک کے وزیراعظم نہ ہوتے اور ایک عام تاجر اور صنعت کار ہوتے تو کوئی شخص ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا لیکن وہ سیاست کرتے ہیں ، ملک کا وزیراعظم بنتے ہیں اور سرکاری اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ 

بنیادی طورپر وہ تاجر اور صنعت کار ہیں سیاست میں آنے کا ان کا مقصد اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنی دولت میں دن دگنی اور رات چوگنی اضافہ کریں اور اس کے لئے سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کریں ۔ ایک سریا کی فیکٹری کو 28ملوں اور کارخانوں میں تبدیل کریں اور اپنی دولت بیرون ملک منتقل کریں ۔ 

بہر حال ان کا کھیل ختم ہوگیا ہے آثار دکھائی دیتے ہیں کہ جلد یا بدیر ان کو وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں اور اپنے کسی ساتھی کو وزیراعظم بنائیں چونکہ وہ لالچی شخص معلوم ہوتے ہیں شاید ایسا نہ کریں۔ 

دوسری صورت میں شاید ملک میں ایک قومی حکومت قائم کی جائے جو بہتر صورت حال میں ملک میں نئے انتخابات کرائے۔ اگر نواز شریف اپنے کسی ساتھی کو وزیراعظم بنانے کو تیار نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ ملک کو زیادہ بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسی صورت میں نواز شریف اکیلے ہوں گے اور اس کے ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔