قطر کے خلاف بائیکاٹ کرنے والی چار عرب ریاستوں کا کہنا ہے کہ دوحا اور واشنگٹن کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مالی تعاون کے معاہدے کے باوجود وہ قطر سے قطع تعلقی جاری رکھیں گے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کا کہنا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹِلرسن کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ معاہدہ کافی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے معاہدوں کو دیکھتے ہوئے ’قطر کی حکومت قابلِ بھروسہ نہیں ہے‘۔
چاروں ریاستوں کا الزام ہے کہ قطر خطے میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ قطر ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
دو ہفتے قبل قطر کو چند مطالبات کی فہرست دی گئی تھی جن میں الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کی بندش، ترک فوجی اڈے کا خاتمہ، اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق ختم کرنا اور ایران کے ساتھ روابط میں کمی شامل تھا۔
لیکن ان کے بقول گذشتہ ہفتے منفی ردِ عمل کے بعد انھوں نے قطر کے خلاف مزید سیاسی، اقتصادی اور قانونی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق امریکہ اور قطر کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہفتوں کی بات چیت کے بعد طے پایا ہے اور آئندہ چند ماہ میں کئی ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے دہشت گردی کی مالی امداد روکنے اور عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے گا۔ ‘
قطر اس سے پہلے اسلامی گروہوں کی امداد کا اعتراف کر چکا ہے جنھیں بعد میں دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ ان میں اخوان المسلمون اور حماس شامل ہیں۔ لیکن وہ القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسی تنظیموں کی امداد سے انکار کرتا ہے۔
منگل کو ایک مشترکہ بیان میں چاروں عرب ریاستوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوششوں کے معترف ہیں لیکن اس حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’قطری حکام کو راہِ راست پر آنے کے لیے مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مطالبات پر جامع انداز میں عمل کرنا ہوگا۔‘