|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2017

اسلام آباد :  وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے عملدرآمد پر تاخیر نہیں کی جائے گی، یہ تاثر غلط ہے کہ فوج فاٹا اصلاحات کے خلاف ہے، فوج نے تجویز دی تھی کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے قبل فاٹا میں ترقیاتی کام کئے جائیں اور امن و امان بحال کیا جائیتمام سیاسی جماعتیں فاٹا اصلاحات کے حق میں ہیں۔

جمعرات کو انہوں نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ایوان بالا میں ارکان سینیٹ کی جانب سے پیش کی گئی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہی۔

عبدالقادربلوچ نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے فوج کے کردار پر غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں، یہ تاثر دیا گیا کہ فوج نے فاٹا اصلاحات کی مخالفت کی ہے، قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران فاٹا کے رکن شاہ جی گل آفریدی اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، مولانا فضل الرحمان فاٹا کو خیبرپختونخوا میں فوری طور پر ضم کرنے کے حوالے سے خلاف تھے۔

فاٹا میں آٹے کی بوری جو پشاور میں 3ہزار میں ملتی تھی وہ وہاں پر 5ہزار میں ملتی تھی، وہاں کے عوام پر ظلم تھا، مولانا فضل الرحمان کو ہماری سفارشات کا مکمل علم نہیں تھا، فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مختلف مکتبہ فکر کے تمام افراد سے مشاورت کی، فاٹا میں امن کو بحال کرنا پہلی ترجیح تھا، تمام سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی اور پھر سفارشات تیار کیں، لوگ اپنے رواجوں کو تحفظ دینے کے خواہش مند تھے، میں نے بیان دیا تھا کہ فوج نے مخالفت کی ہے کہ فوری طور پر ضم کرنے کی بات نہ کریں اور ابتدائی طور پر امن کی حبالی کی بات کریں۔

یہ ایک سال پرانی بات تھی، فاٹا اصلاحات میں تاخیر کے حوالے سے فوج کو بھی اتنی تشویش ہے جتنی ایوان کو ہے، فوج نے تجویز دی تھی کہ پہلے ترقیاتی کام مکمل کریں اور پھر ضم کرنے کی بات کریں، فوج نے کبھی بھی اور کسی بھی سطح پر فاٹا اصلاحات کی مخالفت نہیں کی، جب تک فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہیں کیا جاتا رواج ایکٹ کو نافذ کیا جائے۔

27تاریخ کو فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کمیٹی کی میٹنگ ہو گی، کوشش کریں گے کہ رواج ایکٹ کو پاس کریں، فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تمام کام مکمل کیا گیا ہے، فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان خلاف نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب تک ضم نہیں کیا جاتا اسلام آباد ہائی کورٹ کو فاٹا تک توسیع دی جائے۔

اس حوالے سے معاملہ جلد طے ہو جائے گا، فاٹا سے ارکان پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی بنانے کی ہدایت کی جا چکی ہے، لیوی کو ختم کریں گے، صوبوں کو فاٹا کو تین فیصد این ایف سی ایوارڈ پر متفق ہونے کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے، فاٹا میں ترقیاتی کاموں کیلئے عالمی ادارے بھی دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں۔

فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے، ان میں تاخیر نہیں کی جا رہی ہے، ہماری حکومت کے دوران اصلاحات ہوں گی۔

سینیٹر ہدایت الرحمان نے کہا کہ فاٹا میں ایف سی آر کے خاتمے کیلئے ردیرینہ مطالبہ تھا، حکومت نے کمیٹی بنائی، کمیٹی نے قانونی پہلو پر ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی، فاٹا کیلئے رواج ایکٹ بنایا گیا ہے۔

یہ ان لوگوں نے بنایا جو وہاں پر موجود رائج قبائلیوں کے رواج سے واقف نہیں تھے، رواج ایکٹ سے ایف سی آر ختم نہیں ہو گا، قوانین کی وہاں پر کھچڑی بنائی جا رہی ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کادائرہ اختیار فاٹا تک پھیلانے سے 80فیصد مسئلہ حل ہو سکتا ہے، رواج ایکٹ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے اوپر ہو گا۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ایک سال سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔

رپورٹ پر فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ پر ہمارے تحفظات ہیں، رپورٹ میں ارکان پارلیمنٹ سے مشاورت نہیں کی گئیں۔ حکومت نے تین فیصد این ایف سی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا اس پر عمل نہیں کیا، فاٹا اصلاحات کی رپورٹ پر از سر نو جائزہ لیاجائے، رپورٹ زمینی حقائق کے خلاف ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت نے فاٹا اصلاحات کو خوش آمدید کہا تھا، حکومت نے فاٹا اصلاحات رپورٹ کے ساتھ آئینی ترمیمی بل نہیں لایا جس سے واضح ہوا کہ حکومت فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مخلص نہیں ہے، اب یہ معاملہ ٹھپ ہو گیا ہے، فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کے حوالے سے بجٹ میں ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا، آئی ایس پی آر کا فاٹا اصلاحات کے حوالے سے بیان حکومت کے بیان سے مختلف تھا۔

سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ یہ رپورٹ ایسے لوگوں نے بنائی ہے جن کو فاٹا کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ہے، فاٹا پر زبردستی کوئی فیصلہ نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

سینیٹر سجاد طوری نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے عملدرآمد کے حوالے سے حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کئے۔

سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ فاٹا کے عوام نے ملک کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور ملک سے بڑا پیار کرتے ہیں، ان کی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اجلاس میں سردار اعظم موسیٰ خیل اور سینیٹر الیاس بلور کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں خیبر کا لفظ ضروری لگایا گیا ہے۔ سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے کہا کہ کسی پارٹی کو ٹارگٹ نہیں کرنی چاہیے، سردار اعظم موسیٰ خیل پارٹی پر تنقید سے گریز کریں۔