کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری وسینٹ کے ڈپٹی چیئرمین وسینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ملک کے تمام آئینی ادارے اپنے حدود میں رہ کر خدمات سر انجام دیں تو ملک کے اندرعدم استحکام ختم ہو سکتا ہے 62،63 کو صرف خوف کیلئے نہیں بلکہ جس مقاصد کیلئے بنایاگیا اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔
آئینی ادارے کے فیصلے اورجہاز سے زمین پر آنے کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا خوشی میں میٹھائی تقسیم کرنا درست ہے تا ہم خواتین کو ناچوانااور ان کے دوپٹے اڑانا معاشرہ قبول نہیں کریں گا 14اگست اس ملک کی خدائیداد کا ایک اہم دن ہے ا س کو شایا شان طریقے سے منایا جائے ۔
یہ بات انہوں اتوار کے شام کوجمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء حافظ خلیل کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی
اس موقع پر صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندر خان ایڈوکیٹ ، جمعیت علماء اسلام کے صوبائی سالار حافظ محمد ابراہیم لہڑی ، ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری حاجی نورگل خلجی ،جمعیت علماء اسلام کے رہنماء حافظ خلیل ،سابق صوبائی وزیر مولانا محمد سرور موسیٰ خیل ،مولانا عبدالواسع سحر اور دیگر بھی موجود تھے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ اگست کا مہینہ ہے 8اگست کو صوبے کی تاریخ میں ایک دالخراج دہشتگردی کا سانحہ رونماء ہوا جس میں اس خطے سے تعلق رکھنے والے سنےئر وکلاء شہید ہو کر ہم سے جدا ہو گئے انہوں نے کہا کہ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے 8اگست کو شٹرڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور صوبائی جماعت نے اس کی مکمل حمایت کی ہے اور میں اس پریس کانفرنس کی توسط سے کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ شہداء سے اظہار یکجہتی کیلئے شٹرڈاؤن ہڑتال کو کامیاب بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سانحہ مستونگ اور سانحہ پی ٹی سی بھی دو اہم دلخراش واقعہ رونماء ہوئے تھے جو بزدل دشمن نے مجھے اور معصوم پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ بنایا گیا
انہوں نے کہا کہ ان دونوں واقعات کی پہلے بھی ہم نے مذمت کی ہے اور آج بھی مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اسی طرح 14اگست ہمارے ملک کیلئے ایک اہم دن ہے اس دن ہمیں مکمل آزادی ملی ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر آزاد ہو اہے ہمیں چاہئے کہ اس ملک میں اسلامی نظام کی نفاذ کیلئے جدوجہد کو تیز اور 14اگست کو بھر پور طریقے سے منایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی جماعت کی جانب سے 26اکتوبر کو کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرنس 15اکتوبر کو امن کانفرنس بیا دشہداء مستونگ کانفرنس اسی طرح 10ستمبر کو ضلعی جماعت کے زیر اہتمام موسیٰ خیل میں مفتی محمود کانفرنس منعقد ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ اس اہم پریس کانفرنس سے خطے میں امن امان کی بحالی اور ایک اہم کانفرنس ثابت ہو گا کارکن اس سلسلے میں آج سے تیار ی شرو ع کریں اور اس کانفرنسوں کو کامیاب بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک عدم استحکام کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ آئینی ادارے اپنے معاملات اور اختیارات سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، آئین میں تمام اداروں کو یہ واضح ہدایت جاری ہے کہ وہ ملک کے استحکام اور خوشحالی کیلئے آئین میں رہ کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس صورت میں اب اپنے ملک کو مضبوط کر سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون سازی کریں عدلیہ ملک کی استحکام کیلئے آئین کی مطابق فیصلے صادر کریں جبکہ انتظامیہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے جو احکامات جاری ہوئے تھے
اس پر مکمل عمل درآمد کریں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آئین کی بجائے اختیارات سے تجاوز کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک استحکام کی بجائے عدم استحکام کی جانب جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف ایک آئینی ادارے نے جو فیصلے کیا اور فیصلے پر عمل درآمد ہونے کے بعد وہ جہاز سے نیچے آکر زمین میں مزید مقبول ہوئے
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی سابق وزیرا عظم کے خلاف جو فیصلے کیے گئے اور ان کو پھانسی دی گئی اور بعد میں اس پر لوگ پچھتائے گئے اسی طرح آج بھی آئینی طورپر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 62،63کو اس لےئے آئین کا حصہ بنایا گیا کہ اس پر عمل درآمد ہو نگے لیکن آج ہمارے ملک نے خزانہ کو ہر طرف بے دردی سے لوٹا جارہا ہے اف شوزکمپنیوں کا نشاندہی ہو رہی ہے لیکن ہم نے 63,62کو خوف تک محدود کیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ میاں نواز شریف جہاز سے اتر کر زمین پر جب سے آئے ہے وہ اب زیادہ خطرناک ہونگے اور کھل کر سیاست کرینگے ۔
انہوں نے کہاکہ ہم خواتین کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں مگرافسوس کی بات ہے کہ آج کل نجی ٹی وی پر خواتین کے بارے میں جو پروگرام پیش کئے جارہے ہیں وہ افسوس ناک ہے ہماری اپنی روایت ہے اور روایت سے ہٹ کر ہمیں کام نہیں کرنا چاہیے ۔
انہوں نے کہاکہ جب تک ہم آئینی ادارے میں رہ کر کام نہیں کرینگے ہمیں مشکلات پیش آتی رہینگے ہمیں ابھی بھی موقع ہے کہ ہم آئین کے ادارہ میں رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں آئین میں تمام اداروں کو مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں اور یہ بھی کہاگیا کہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں اگر کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو دوسرا اس کو برادشت نہیں کریں گا
جس سے آپس میں اداروں کو ٹکراؤ پیدا ہوگا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حدود میں رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں تو سب کیلئے بہتر ہوگا اور کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا ۔