|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2017

کوئٹہ: معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ پانامہ کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدذہنوں میں کئی سوالات نے جنم لیا ہے کیا کسی وزیراعظم کو تاحیات نا اہل کرنے کی آئین اجازت دیتا ہے ۔

جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے اہلکاروں کو کس آئین کے تحت رکھا گیاکسی کو بھی بغیر ٹرائل کے نا اہل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد جس طرح ججز کی تصاویر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا پر شکریہ کے پیغامات کے ساتھ چلائی گئیں کیا یہ انصاف کے تقاضے تھے،نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ درحقیقت ’’رول آف لاء کے لئے نہیں رول آف مارشل لاء ‘‘کیلئے ہے ۔

جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہیں بوٹوں کی دھنک اور کھنک بہت قریب سے آرہی ہے۔یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام ’’حال و احوال ‘‘میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ ایڈؤوکیٹ،معروف قانون دان عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما لطیف آفریدی ایڈؤوکیٹ،کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن ،جنرل سیکرٹری عبدالخالق رندبھی موجود تھے۔ 

عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ بوٹ والے دور نہیں وہ ہمارے آس پاس ہی ہیں سپریم کورٹ کی آن بان شان جمہوریت سے ہی ہے مارشل لاء میں اسکی حیثیت کسی لیفٹیننٹ کرنل سے زیادہ نہیں ہوتی ملک کے حالات ٹھیک نہیں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے سیاست کو کیچڑ بنادیا گیا ہے جس سے اب کسی کا دامن محفوظ نہیں رہا پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں ذاتی حملے ہورہے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک شخص کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا قانون ،جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہئے پانامہ کیس میں نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے عدلیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا نا اہلی کے فیصلے کو قبول کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوگیا لیکن بعض حلقوں کی چیخ و پکار سے لگتا ہے کہ انہیں ایک نا اہل شخص کی عوام میں واپسی بھی قبول نہیں یہ فاشزازم ہے ملک کو تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے ۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ججوں کو بھاری رقوم کی آفرز ہوئیں یہ باتیں تشویشناک ہیں اگر یہ جھوٹ تھا تو ججوں کو سختی سے تردید کرنی چاہئے تھی اوراگر سچ تھا تو رشوت آفرکرنے والوں کو سختی سے سزا ملنی چاہئے تھی ججوں میں وزڈم کی کمی نظرآتی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں بھی آج اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی نا مناسب ہے ججز کے فیصلے پر حیرانی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں موجود غلطیوں کو دور کرنا فوج یا عدلیہ کا کام نہیں 1992ء میں بھی نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کیسز کے تھے اس وقت کے 11رکنی بینچ نے انہیں کیوں بری کیاکیا وہ فیصلہ درست تھا یا یہ فیصلہ درست ہے سیاست کا معیار اتنا گرچکا ہے کہ خاتون کی تذلیل کی جارہی ہے یہاں دلائل کی بجائے ذاتیات پرحملے کئے جارہے ہیں ۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آئینی معاملات کیلئے آئینی کورٹس ضروری ہیں اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تو فیڈرل کورٹ ناگزیر ہوگیا ہے پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے ہوں تو جمہوریت نہیں چلتی ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کیلئے سیاسی کارکنوں ،وکلاء اور صحافیوں نے بہت ماریں کھائی ہیں جیلوں کی مشکلات برداشت کیں ماضی میں عدلیہ ،سیاسی دباؤپرفیصلے کرتی تھی لیکن پھر وکلاء کی تحریک چلی اور عدلیہ بحال ہوئی ہمیں امید ہے کہ اب وہ بصیرت کے ساتھ فیصلے کریگی۔ 

انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری ،ترقی اور احتساب کا مناسب طریقہ ہونا چاہئے اختیارات کا بھی تعین ہونا چاہئے سوموٹو کیسز میں بھی اپیل کا حق ہونا چاہئے۔معروف قانون دان عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما لطیف آفریدی ایڈؤوکیٹ نے کہا ہے کہ پاکستان بننے سے لیکر ابتک ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں ۔

انڈیا سے ہماری دائمی لڑائی رہی ہے اور مختلف ممالک سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہیں صرف چائنا سے بہتر تعلقات ہیں صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 60ہزا ر لوگوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق 3لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اس حدتک بربادی ہونے کے بعد ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا کہ اس کارروائی کے بعد اب حالات بہتر ہوئے ہیں اور جن کے خلاف یہ کارروائیاں کی گئیں کیا وہ آئندہ اس طرح منظم نہیں ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کوئٹہ سمیت ملک بھر میں سوشل زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہم آنے والی نسل کو بہتر مستقبل نہیں دے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعدB(2) 58ختم کی گئی لیکن آئین سے آرٹیکل 62اور63کو ختم نہیں کیا گیا میرے اندازے کے مطابق ملک کے 98فیصد لوگ اس پر پورا نہیں اترتے نواز شریف کے نا اہل ہونے سے چیخیں مارہی جارہی ہیں انتشار ،شدت پسندی کو ہوا دی جارہی ہے اگر یہ سلسلہ نہ روکا تو اسکے خطرناک نتائج برآمد ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی و مذہبی شدت پسندی کو ختم کرکے جمہوریت کو مستحکم جبکہ اداروں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں ۔انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں سروسز مین کے لئے آئین میں تمام چیزیں موجود ہیں جس کے تحت وہ آئین اور ملک کے وفادار رہنے کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن بعد میں اسی حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔