کیا بلوچ معاشرہ سوچ کے اعتبار سے آج بھی خانہ بدوش اور دیہاتی ہے ؟کیا پر تشدد سیاست جدوجہد کا افضل ترین راستہ ہے ؟ کیا ہم بلوچوں کو دشمن کی بھی ضرورت ہے یا ہم خود اپنے لیے کافی ہیں ؟ اوپر ذکر کیے گئے ان سوالات پر گفتگو کرنے سے یہاں پر یہ تحریر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع صدیوں سے ہمارے لیے وبال جان رہی ہے جس کی وجہ سے بلوچ بطور قوم مشکل اور تکلیف دہ صورت حال سے گزرتی رہی ہے۔
زور آور قوتوں اور زمانے کے زبردست طاقتوں کی ظلم و زیادتی اور بے انصافیاں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں ۔ لیکن یہ دانشورانہ بے ایمانی اور منافقت کے زمرے میں آئے گا اگر ہم اپنوں کی کمزوریوں اور غلطیوں سے چشم پوشی اختیار کریں ۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کو برباد اور ویران کرنے میں بلوچستان کا سیاسی اشرافیہ ‘ نا اہل اور نالائق عوامی نمائندے‘ کرپٹ اور بد عنوان سرکاری افسران ‘ کرایہ کے خوشامدی دانشور اور دوسروں کی لڑائی بلوچ گل زمین پر لڑنے والے عسکری مہم جو برابر کے شریک ہیں ’ ہر تنازعہ کا ہیرو اور ولن ہوتے ہیں ہمارا ہیرو کون ہے اور ہمارا ولن کون ہے اس سوال کا جواب تو مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں آنے والا ہوش مند دانشور اور مورخ دینے کی بہتر پوزیشن میں ہوگا۔
سردست یہ بلوچستان کے اہل قلم کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ پرورش لوح و قلم کرتے رہیں ’ اور بلوچستان کی سیاست میں فروغ حاصل کی جانے والی منفی رحجانات کی سختی سے حوصلہ شکنی کریں اور صحت مند اور جمہوری رحجانات کی حوصلہ افزائی کریں اور نوجوان نسل کو بتائیں کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے ہیں اور یہ کہ گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہم اپنے بے مقصد محاذ آرائیوں کی دلدل میں ڈوبتے جارہے ہیں ۔
مختصر یہ کہ زندوں کی دنیا تبدیلیوں کی دنیا ہوتی ہے قوموں کے مزاج اور نفسیات اوران کے رسوم اور روایات صدیوں میں بنتے ہیں لیکن معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہرانسانی معاشرے کی طرح بلوچ سماج بھی بدل رہا ہے اور ایک پختہ تعلیم یافتہ طبقہ تیزی سے جنم لے رہا ہے اور لوگ خانہ بدوشانہ زندگی کو ترک کر کے زراعت کو اپنانے کی طرف سفر کررہے ہیں اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کاروبار اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کررہا ہے ۔
قومی اور اجتماعی سوچ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے اور باشعور لوگ چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے کیوں نہ ہو قبائلی فرقہ واریت کے تنگ دائرے سے نکل کر بلوچ قوم جیسے بڑے اور وسیع فریم ورک کی طرف متوجہ ہورہے ہیں ۔ سائنسی ایجادات اور انقلابات نے انسانی رویوں کو متاثر کیا ہے ۔ اور ذرائع ابلاغ کی ترقی نے فکری اور زمینی فاصلوں کو ختم کردیا ہے ۔
اور آج دنیا کے ہر کونے اور گوشے میں لوگ براہ راست رابطے میں ہیں لیکن یاد کیجئے اس دور کو جب میر بزنجو اور ان کے رفقاء نے سیاست کی اور سیاست کرنا کتنا مشکل تھا ۔ ریاستی جبر اور آمد و رفت کے ذرائع بہت دشوار ہونے کے باوجود آپ نے سبی سے لے کر کیچ مکران تک ہر بلوچ کے گدان اور جھونپڑی پر دستک دی اور قومی و سیاسی شعور پھیلاتے رہے ۔
انگریزی دور میں بلوچی انقلابی ادب کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ ‘ ترقی پسند اور انقلابی سیاسی ‘ جماعتوں نے بھی جنم لینا شروع کیا ۔ ’’ قلات نیشنل پارٹی ‘‘ کا راستہ رکونے کیلئے ‘ انگریز‘ خان اور سردار نے مل کر ایک مقدس اتحاد قائم کیا اور ایک با قاعدہ منصوبے کے تحت 1939ء میں قلات نیشنل پارٹی پر پابندی لگائی گئی اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار یا ریاست بدر کردیا ۔
یاد رہے کہ کے این پی کی قیادت نے متحدہ بلوچستان کا تصور پیش کیا یعنی ڈیرہ غاذی خان تا بندر عباس اور ان کا مطالبہ تھا کہ ریاست قلات کی انگریزوں سے ہونے والے معاہدوں کی روشنی میں ان کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد قلات کی پرانی حیثیت بحال کی جائے ۔ لیکن کے این پی کے اس مطالبے کو عالمی سطح پر پذیرائی نہ مل سکی یہاں تک کہ ان کے پرانے اتحادی ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ نے بھی ان کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کیا ۔
قیام پاکستان کے بعد بلوچ سیاست ایک نئے عہد میں داخل ہوتی ہے ۔ اس طرح میر غوث بخش بزنجو کے سامنے دو راستے تھے یا تو قوم کو روحانی دنیا کی طرف لے جاتے یا حقیقت سے قریب تر موقف اختیار کرتے اور آپ نے زمینی حقائق کو ترجیح دی ۔ الغرض 1970ء کی دہائی بلوچستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں نہایت اہم ہے ۔
تاریخ میں پہلی بار 1972ء میں ایک منتخب حکومت وجود میں آتی ہے سب کو امید تھی کہ یہ عوامی حکومت بلوچستان کو معاشی بد حالی اور تعلیمی پسماندگی سے نجات دلوانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ لیکن آگے جنم لینے والی صورت حال بتاتی ہے کہ میر بزنجو اپنے تمام تر کوششوں کے باوجود نیپ اور مسٹر بھٹو کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی کو نہیں روک سکے اور نو ماہ کے اندر اندر نیپ حکومت غیر آئینی طورپر بر طرف کیا جاتا ہے جس کے رد عمل میں احتجاجی سیاست راتوں رات فروغ حاصل کرتی ہے اور یوں بتدریج بلوچ سیاست اعتدال اور عسکریت پسندی میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔
میر بزنجو اپنے قریب ترین رفقاء جن میں نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل قابل ذکر ہیں ‘ کی نہ جلا وطنی کے حق میں تھے اور نہ ہی مسلح طرز جدوجہد کے ‘ لیکن یہاں پر یہ بات اچھی طرح یار رکھنے کے قابل ہے کہ فکر و عمل کے اختلاف کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کا مائنڈ سیٹ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جنم لیتی ہے ۔
بلوچستان کے قابل فخر فرزند میر مولا بخش دشتی جن کو بلوچ عسکریت پسند غدار جیسے بدبو دار لقب سے نوازرتے ہیں کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے پیش رو میر غوث بخش بزنجو کی طرح وفاقیت اور پر امن وجمہوری طرز جدوجہد کے علمبردار تھے اور اپنے کئی سال کی تجربات کی روشنی میں اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ عسکری مہم جوئی کسی بھی اعتبار سے بلوچ قوم کے حق میں نہیں جاتی بلکہ اس کے اثرات اور نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہونگے ۔
یہاں پر یہ تحریر کرنا بے جانہ ہوگا کہ روس میں 1876ء میں ایک خضیہ تنظیم ‘ گزودنیک‘‘ کے نام سے وجود میں لائی گئی ۔ سینکڑوں کی تعداد میں نرو دنیکوں نے روسی کسانوں جیسے کپڑے پہن کر دیہاتوں کا رخ کیا تاکہ ان کو بغاوت پر آمادہ کیا جا سکے ۔
لیکن جب کسانوں نے ان کی اپیلوں پر کان نہ دھرے تب انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے پر تشدد سیاست کی طرف مائل ہوئے اور سیاسی قتل کو جدوجہد کا افضل ترین طریقہ سمجھنے لگے اور یکم مارچ 1881ء میں زار الیگزینڈر ( دوئم) کو بھی قتل کیا لیکن تب بھی انقلاب برپا نہ ہوا ۔ آخر کار ان کی مسلح ونگ انتشار کا شکار ہوا اور ان کے اہم قائدین جن میں گیورگی پلخانوف بھی شامل تھے ۔
جس نے 1883ء میں اپنے جلا وطنی کے دنوں میں جنیوا ( سوئٹزر لینڈ ) میں پہلی روسی سوشل ڈیمو کریٹک تنظیم کی بنیادرکھی ۔ گوکہ نرودنیک ایک عوامی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے دماغ پر ہیرو ازم اور مہم جوئی کی بھوت سوار تھی ۔ اس لیے وہ اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ سردیوں کے پھول گرمیوں میں نہیں اگائے جا سکتے ۔
ان کے برعکس لینن جو تاریخ کا ایک جید استاد تھا ۔ نرودنیکوں کی غلطیوں اور تجربات سے مستفید ہو کر 1917ء میں ایک عظیم انقلاب کی رہنمائی کی جس نے دنیا کے ہر خطے اور قوم کو متاثر کیا ۔ جو کچھ یہاں پر میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ بلوچستان عسکریت پسند بھی نرودنیکوں کی طرح بری طرح ہیرو ازم کی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اوران کی طرح یہ بھی اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ تشدد پر مبنی سیاست اور بزور بندوق عوامی حمایت حاصل نہیں کی جا سکتی ۔
مختصر یہ کہ ہماری رائے میں بلوچ عسکری مہم جو یا تو نرودنیکوں کی طرح اعتدال کی سیاست کو اپنائیں گے جن کی میر بزنجو زندگی بھر پر چار کرتے رہے ہیں ۔ بصورت دیگر تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ 1960ء کی دہائی میں جونہی شاہ ایران اور عراقی قیادت کے درمیان مفاہمت ہوئی تو عراقی حکومت نے اس وقت کے بلوچ علیحدگی پسندوں کو فوری طورپر بغداد سے چلے جانے کا حکم دیا جن میں سے کچھ دوبارہ وطن لوٹے اور کچھ نے زندگی بھر یورپ میں جلا وطنی اختیار کی۔
اسی طرح اگر کل پاکستان ‘ ایران ‘ افغانستان اور ہندوستان اپنے اختلافی امور کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب بلوچ عسکریت پسندوں کے لئے اس قسم کی صورت حال جنم لے سکتی ہے جن کا مشاہدہ ان کے پیش رؤں نے کیا ۔ ایک قوم کے ساتھ اس کا ماضی جڑا رہتا ہے ۔ کیونکہ ہر گزرتا ہوا دن ماضی میں ہی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
اور سمجھدار قیادت نہ صرف ماضی کو یاد رکھتی ہے بلکہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں اور تجربات سے مستفید ہو کر ایسی منصوبہ بندی کرتی ہے تاکہ آنے والے نسلوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہو ۔ اندھیرا صرف اس وقت نہیں ہوتا جب سورج ڈوب جاتا ہے ۔ پر تشدد سیاست ‘ برادر کشی بے گناہوں کا قتل عام اور ہتھیاروں کے زور پر اپنی رائے مسلط کرنا بھی تاریکی کے زمرے میں آتا ہے ۔
ہماری قبائلی مزاج کے انتقام جو ہانہ سیاست ‘ انانیت ‘ اور غصے میں بھرا ہوا جارحانہ مزاج اور جذبات نے بلوچستان کے عوام کی قومی اورجمہوری تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ بصیرتیں بلند دماغ بتاتے ہیں ہمیشہ ہوا کے خلاف چلتی ہیں اور ہماری انانیت اور جارحانہ مزاج ہمیں دور دیکھنے سے روکتی ہے اس لیے بطور قوم ہمیں میر بزنجو جیسے بڑے وژن والے سیاست دان کی بصیرت اور وسیع النظری سے جتنا فائدہ اٹھانا چائیے تھا ہم نہیں اٹھاسکے ۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ انفرادیت ‘ انانیت اور خود سری رندی عہد سے لے کر آج تک بلوچوں کو تباہی اوربربادی کے دلدل میں دھکیلتے رہے ہیں اس لیے تو بلوچی شاعری باہمی جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وجود کے اندر دشمن رہتے ہیں اور ہمیں ہوش اس وقت آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے ۔ اگر ہمارا ہدف بلوچستان کو بہتر اورروشن مستقبل دینا ہے تب ہمیں تنگ نظریاتی دائروں ‘ خود غرض قوم پرستی ‘ عسکری مہم جوئی سے جان چھڑانی ہوگی ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی ۔ اور قدرت کے نظام میں آپ وہی کھائیں گے جو آپ نے بویا ہے ۔
قصہ مختصر بیسویں صدی کے ہر نامور لیڈر کی طرح میر بزنجو بھی لبرل ازم‘ نیشنلزم اور فلسفہ اشراکیت سے متاثر ہوئے ۔ آپ سیاست کو عبادت اور نہایت سنجیدہ کھیل کا درجہ دیتے تھے کیونکہ آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ قوموں کی زندگیوں کا فیصلہ سیاست کے میدانوں میں ہی ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ بلوچستان کی سیاست میں منفی ‘ دل خراش اور نہایت خوفناک قسم کے سیاسی رحجانات فروغ حاصل کرتے رہے اور آج بلوچستان کی سیاست یا تو کرپشن اور بد عنوانی کے حوالے سے مشہور ہے یا پھر ہر قسم کی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے معروف ہے ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیاست، مذہب اور قوم پرستی کے نام پر قتل و
غارت گری کا یہ بے رحم دور کب تک جاری رہے گا بقول شاعر ‘
کچھ نہ ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
قوموں کی زندگی میں بہترین قیادت وہ ہے جو دشوار گزار راستوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے مشکلات کا صبر اور حوصلے سے سامنا کرے ۔ میر بزنجو کے فلسفہ سیاست میں وطن دوستی اور انسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس میں دہشت گردی چاہے انفرادی ہو ‘ گروہی ہو یا ریاستی ہو نے کی کوئی گنجائش نہیں ہے چونکہ میر بزنجو کی سیاسی فکر کا گہرا تعلق نہ صرف ہمارے ماضی اور حال سے ہے بلکہ مستقبل سے بھی ہے ۔
اس لیے ان کے فلسفہ سیاست کی ترویج بلوچستان کے دانشوروں کی اولین ترجیح ہونی چائیے ۔ ہماری رائے میں ان کے بیانیہ سے مستفید ہوکر ہم بطور قوم اپنے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں لیکن اگر کسی صاحب تدبیر کے پاس کوئی دوسرا بیانیہ ہے تو قوم کے سامنے پیش کرے ۔
میں دہراتا ہوں کہ مسلح طرز جدوجہد کا بیانیہ اور فلسفہ پہلے ہی سے اپنا اثر کھو چکا ہے اور یہ مزید بلوچ عوام کے لئے پر کشش نہیں رہا بقول شخصے اپنے دامن میں لگی آگ خود ہی بجھانی پڑتی ہے جیساکہ نرودنیکوں نے اپنے غطیوں کا احساس کرتے ہوئے بجھایا تھا ۔