بلوچستان سے امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے شاید کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں پر بلوچستان سے امتیازی سلوک نہ برتا جارہا ہو ۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے نصف پاکستان ہے اگر سمندری حدود کو شامل کریں تو یہ نصف سے بھی زیادہ ہے۔
بلوچستان میں تقریباً دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین موجود ہے اس میں 75 لاکھ ایکڑ صرف کچھی اور سبی کا میدانی علاقہ ہے اتنے وسیع علاقے میں صرف پٹ فیڈر وہ واحد نہر ہے جو صرف چند لاکھ ایکڑ زمین آباد کرتا ہے۔
دوسرا نہر کیرتھر کینال ہے جہاں صرف 1400 کیوسک پانی دیاجارہا ہے صوبائی حصے کے لحاظ سے پٹ فیڈر کو چھ ہزار کیوسک پانی ملنا چاہیے جس سے تقریباً 5 لاکھ ایکڑ زمین آباد کرنامقصود ہے لیکن پٹ فیڈر میں گزشتہ 8 ماہ سے 1500 کیوسک پانی چھوڑا جارہا ہے اس کی بڑی وجہ سندھ اور پنجاب میں نہری پانی کی چوری ہے اس کا واحد مقصد بلوچستان کے پانی کو غصب کرنا ہے ۔
ادھر کیرتھر کینال میں صرف 800 کیوسک پانی گزشتہ 8 ماہ سے مل رہا تھا، سیاسی رہنماؤں کے اجتماع کے بعد وہاں اب سیلاب کے موسم میں 1400 کیوسک پانی چھوڑا جارہا ہے کسی حد تک چاول کے فصل کے لیے مناسب پانی مل رہا ہے مگر پٹ فیڈر میں پانی کی کمی کی شکایات مسلسل آرہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت میں کرپشن کی وجہ سے بھل صفائی یعنی نہر کو صاف کرنے کا کام نہیں ہوا۔
افسروں اور ٹھیکیداروں نے ملی بھگت سے رقم ہڑپ کرلی اور بھل صفائی کا کام شروع ہی نہ ہوسکا۔ پٹ فیڈر کا پانی پینے اور گھریلو استعمال میں لایا جاتا ہے اطلاعات ہیں کہ سینکڑوں گاؤں کو پینے کے پانی سے محروم کردیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پٹ فیڈر کے قرب و جوار میں گھریلو استعمال کے لئے مناسب اور صاف پانی عوام کو ملنا چاہیے مگر حکومت اور محکمہ آبنوشی نے اس پر کبھی توجہ نہیں دی۔
معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کو دور دراز علاقوں کے انتظامی اور معاشی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یہ معاملات چھوٹے چھوٹے افسران پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحبان بھی ان مقامی معاملات پر توجہ نہیں دیتے جو ایک افسوسناک بات ہے۔
اطلاعات ہیں کہ بلوچستان کے دو بڑی نہروں کو ان کے کوٹے کا پانی نہیں مل رہا، یہاں تک کہ بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کے باوجود بلوچستان میں نہری پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے جو صوبائی اور وفاقی حکومت کی توجہ کا طالب ہے۔ پہلی فرصت میں ان افسران اور ٹھیکیداران کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے رقم وصول کی مگر بھل صفائی نہیں کی ۔
مزید یہ کہ وفاقی، سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے رابطہ کیاجائے اور بلوچستان کے حصے کا پانی حاصل کیا جائے تاکہ بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہو۔
اور حکومت یہ بھی واضح کرے کہ کچھی کینال کا مستقبل کیا ہے بعض مسلم لیگی رہنماء یہ کہتے ہیں کہ بگٹی علاقے کے بعد کچھی کینال تعمیر نہیں ہوگی، یہ منصوبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کردیا گیا ہے۔ حکومت واضح کرے کہ کیا مسلم لیگی رہنماؤں اور وڈیروں کی جانب سے یہ بیانا درست ہیں ۔
کچھی کینال کو صرف 72 ہزار ایکڑ زمین کوبگٹی علاقے میں آباد کرنا نہیں تھا بلکہ اس کو کچھی کے میدانی علاقے میں 7 لاکھ ایکڑ زمین سیراب کرنی ہے اس پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 50 ارب روپے لگایا گیا تھا، وفاقی حکومت میں کرپشن کا تناسب اتنا اونچا ہے کہ کچھی کینال کے پہلے مرحلے کی تعمیرات پر 80 ارب روپے خرچ کئے گئے یہ سب رقم اعلیٰ ترین واپڈا افسران اور ٹھیکیداراوں نے ہضم کرلیا۔
اس کی تحقیقات بعد میں ہوگی پہلے تو وفاقی حکومت یہ بات یقینی بنائے کہ کچھی کینال کو مکمل کیا جائے گا اور اس سے 7 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی۔ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے بہانے کو تسلیم نہ کیا جائے اور اس کی تکمیل پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے تاکہ وفاقی حکومت کچھی کینال کو ہرصورت مکمل کرے۔