پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں حکومت سندھ اور اینگرو کمپنی کے دعویٰ کے مطابق کوئلے سے بجلی کی پیداوار آنے والے چند سالوں میں شروع ہوجائیگی۔لیکن اس منصوبے سے متاثر ہونے والے افراد کی بحالی اور ان کی زمینوں کے معاوضے کی ادائیگی پر تاحال مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
ادائیگی کا مطالبہ کرنے والوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی ایک مثال تھر کے نوجوان شاعر الماس نھڑیو بھی ہیں۔ کوئلے منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 300 کیوسک نہری پانی کی ضرورت ہے، جس کے لیے عمرکوٹ سے مکی فرش لنک کینال کے ذریعے فراہمی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ پانی فرش ریگیولیٹر سے نبی سر پہنچایا جائے گا اور نبی سر سے 31 کلومیٹر دور واقعے ویجھیار پہنچایا جائے گا۔
وہاں سے کوئلے منصوبے یعنی پاور ہاؤس تک پہنچائی جائیگی۔ نبی سر سے ویجھیار تک پانی کی یہ لائن پچاس فٹ چوڑی ہے، جس کے لیے ایک سو فٹ تک زمین کھود کر ناہموار کی گئی ہے، اسی طرح 31 کلومیٹر میں آنے والی تمام زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔
ان میں الماس نھڑیو کے خاندان کی بھی زمین شامل ہے۔ مارچ 2016 میں الماس نھڑیو اور اس کے کزن نے پائپ کا کام بند کرادیا اور کہا کہ جب تک معاوضے کی ادائیگی نہیں ہوگی کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ الماس نھڑیو کے کزن انور نھڑیو کا کہنا ہے کہ انجنیئر شوکت مالکانی نے مذاکرات کیے اور کہا کہ 15 روز میں معاوضے کی ادائیگی کردی جائیگی کیونکہ رقم ڈی سی کے اکاونٹ میں منتقل کی جاچکی ہے۔
15 روز کی کمٹمنٹ کو ایک مہینے ہوگیا تو الماس نھڑیو اور اس کے عزیزوں نے ان کی زمین سے پائپ گزارنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، انجنیئر نے دوبارہ آکر مذاکرات کیے جو مکمل کامیاب نہیں ہوئے اور کام بن کردیا گیا۔ انور نھڑیو نے بتایا کہ پائپ لائن کا ٹھیکہ عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار کے پاس ہے جن کا تعلق حکمران پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
کانٹریکٹر نے الماس کے چچا اور بھوریلو گاؤں کے بزرگ منٹھار نھڑیو سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ اگر حکومت نے انہیں معاوضہ ادا نہیں کیا تو وہ اپنی جیب سے ادائیگی کریں گے لیکن کام بند نہیں ہونا چاہیے۔ منٹھار نھڑیو نے ان کی بات مان لی۔ 15 اپریل 2016 کو جمعہ کا دن تھا ایک ڈیڑھ بجے گاؤں کے اندر ہی سرکاری زمین پر پائپ لائن کو آگ لگی گئی، سارے گاؤں والے پہنچ گئے اور انہوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔
انور نھڑیو کے مطابق اس روز ان کے گاؤں بھوریلے میں ایک شادی کی تقریب تھی جس کے لیے میٹھے پانی کا ٹینکر آیا تھا گاؤں والوں نے انہیں کہا کہ یہ پانی اس آگ پر ڈال کر بجھاؤ لیکن ٹھیکیدار کے دو ملازم جو وہاں موجود تھے مخالفت کی اور کہا کہ انہوں نے فائر برگیڈ کی گاڑی طلب کی ہے بس وہ پہنچنے والی ہے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فائربریگیڈ پہنچا اور آگ کو بجھایا۔
جس روز یہ واقعہ پیش آیا الماس نھڑیو حیدرآباد میں لٹریچر فیسیٹول میں موجود تھا، تاہم 15 اپریل کی شب سب انجنیئر عامر شاہ کی فریاد پر ایف آئی آر درج کی گئی اور 16 اپریل کی صبح 4 بجے پولیس نے گھر کا گھیراؤ کرلیا۔
انور نھڑیو کے مطابق گاؤں کے بزرگ منٹھار نھڑیو نے پوچھا کہ کیا معاملہ میں کون مطلوب ہیں انہوں نے الماس، غلام حسین اور محمد خان کے نام لیے اور کہا کہ باقی کو دیکھ کر شناخت کریں گے، انہوں نے پائپ لائن کو آگ لگائی ہے۔
منٹھار نے کہا کہ تینوں میں سے دو لڑکے گھر میں موجود ہیں جبکہ الماس حیدرآباد میں ہے، پولیس دونوں کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئی۔
ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 147،430،506،427،435 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس میں ہنگامہ آرائی، آپباشی کے پانی کا جبری رخ تبدیل کرنے، جان سے مارنے کی دھمکی دینے، مالی نقصان پہچانے اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ آگ لگانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے تاہم ابتدائی طور پر اس میں انسداد دہشت گردی کے سیکشن موجود نہیں تھے، ریمانڈ کے وقت غلام حسین اور محمد خان کی گرفتاری 19 اپریل کو ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ انہیں چیلھار کے بس اڈے سے گرفتار کیا گیا جبکہ پورا گاؤں چشم دید گواہ ہے کہ انہیں گھروں سے حراست میں لیا گیا تھا۔
پولیس نے بعد میں اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے سیکشن بھی شامل کردیئے۔ الماس نے ہائی کورٹ سے ضمانت کرائی اور جب ضمانت کی کنفرمیشن کے لیے آیا میرپوخاص میں موجود اینٹی ٹیررازم کورٹ میں پیش ہوا تو جج نے اس کی ضمانت مسترد کرکے جیل بھیج دیا۔ ساڑھے سات ماہ تک وہ میرپورخاص کی جیل میں قید رہا جس کے بعد ہائی کورٹ نے اس کی ضمانت منظور کی۔ 29 مارچ 2017 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے الماس نھڑیو، غلام حسین اور محمد خان کو دس دس سال قید کی سزا سنادی۔
الماس نھڑیو کی فیملی کا کہنا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ انور نھڑیو کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہ پیٹرول ڈال کر آگ لگائی گئی جبکہ جو کیمیکل رپورٹ میں اس کی شاہدی نہیں ملتی اور رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ پیٹرول، ڈیزل یا الکوحل سے آگ نہیں لگائی گئی۔ عدالت نے ان پوائنٹس پر غور نہیں کیا۔
اس کے علاوہ جس روز آگ لگی جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کو کام بند ہوتا ہے عدالت نے کانٹریکٹر کے دونوں ملازمین سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ چھٹی کے دن وہ جائے واقع پر کیا کر رہے تھے۔ الماس نھڑیو کی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، جس کی سماعت اگلے ہفتے ہوگی، الماس کے وکیل کا کہنا ہے کہ جو واقعہ ہے اس سے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتا اس لیے یہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔
انہوں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ اس مقدے کو خارج کیا جائے۔ کمپنی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ بغیر پیٹرول چھڑکنے کے ان پائپوں کو آگ نہیں لگ سکتی، ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ آگ لگائی گئی ہے۔
کئی برسوں کے قحط کے بعد تھر میں حالیہ بارشوں کے بعد کسانوں نے ہل چلانے شروع کردیئے ہیں لیکن پائپ لائن سے متاثرہ 31 کلومیٹر کے کسان خوفزدہ اور پریشان ہیں، انور نھڑیو کے مطابق ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ معاوضہ کے علاوہ زمین کو ہموار کرکے دیں گے تاکہ کھیتی میں دشواری نہ ہو لیکن کسی بھی وعدے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
یہ معاوضہ محکمہ آبپاشی نے محکمہ ریونیو کے ذریعے دینا تھا، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ابھی سروے جاری ہے باوجود اس کے کہ پائپ بچھانے کا کام مکمل ہونے کو ہے۔ تھر میں کوئلے منصوبے سے درجنوں گاؤں متاثر ہیں، سندھ اینگرو کول منصوبے کی زد میں آنے گاؤں تھاریو ہالیپوٹو سے لیکر گوڑانو گاؤں کے رہائشیوں تک احتجاج جاری ہے۔ گوڑانو کے مقام پر بھی ایک ڈیم بنایا جارہا ہے، جس میں کوئلہ نکالنے کے لیے خارج کیا جانے والا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے کی مقامی لوگوں نے مخالفت کی تھی اور اسلام کوٹ سے لیکر کراچی تک خواتین اور بچوں نے بھوک ہڑتال بھی کی۔ تھر کی صورتحال پر یہاں کے نوجوانوں نے شاعری بھی کی ہے، جن میں امام الدین جنجھی اور الماس نھڑیو سر فہرست ہیں، یہ مزاحمتی شاعری آڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں فیس بک پر مقبول ہے، الماس نھڑیو کی گرفتاری کے بعد ان کی حمایت میں فیس بک پر مہم بھی جاری ہے۔
الماس نھڑیو تھر سجاگ ستھ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم کے بھی سرگرم کارکن ہیں، جو کوئلے منصوبے پر حکومت اور کمپنیوں کے رویے پر ایکٹو ازم کرتی ہے۔ لیکن اب الماس نھڑیو کو مزاحمت سے عبرت کا نشان بنادیا گیا ہے۔ انور نھڑیو کے مطابق جنھجھیر گاؤ ں کے لوگوں نے کانٹریکٹر کمپنی کو کہا کہ گاؤں کے قریب مال موشیوں کا راستہ تو بنادو، لیکن انہیں وارن کیا کہ خاموش بیٹھیں ورنہ بھوریلے گاؤں کے لوگ کا حشر دیکھ لیں۔
نبی سر سے ویجھیار تک اس پائپ لائن اور پانی کا ذخیرہ تعمیر کرنے کی انوائرمنٹ اور سوشل امپیکٹ رپورٹ بنائی گئی اور 2014 میں اس کی پبلک ہیئرنگ بھی کی گئی۔ جس میں ایسو سی ایشن فار واٹر، اینڈ اپلائیڈ ایجوکیشن کے سربراہ علی اکبر راہموں بھی اس میں شریک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیئرنگ سے ایک روز قبل انہیں آگاہ کیا گیا اور تقریب میرپور خاص میں منعقد کی گئی۔ جس میں مقامی لوگ جو ڈائریکٹ متاثر ہو رہے تھے شریک ہی نہیں ہوسکے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ اکنامک امپاوئر منٹ دے گا لیکن کیسے یہ واضح نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ انوائرمنٹ اور سوشل امپیکٹ رپورٹ سے دو سال قبل ہی منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام فائدہ کوئلے سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کا ہے جس کی معاونت حکومت کر رہی ہے جبکہ نقصان مقامی لوگوں کا ہے۔
ویجھیار میں 500 ایکڑ پر پانی کا ڈیم بنایا گیا ہے، جہاں نبی سے پانی لاکر جمع کیا جارہا ہے، مقامی رہائشی لال بخش سومرو کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر جانوروں کی چراگاہ ہوتی تھی جبکہ پانی جمع ہونے کا قدرتی تلاب تھا جو گاؤں کی مشترکہ ملکیت تھی لیکن حکومت نے انہیں اس سے محروم کرکے قبضہ کرلیا اور جب کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تو ان پر این سی دائر کرادی گئی اور وہ خاموش ہوگئے۔ جبکہ عدالت میں اس لیے نہیں گئے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل دستیاب نہیں تھے۔
بھوریلو اور ویجھیار کے علاوہ سندھ اینگرو کمپنی کی جانب سے بھی 50 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے، یہ افراد پیر حلیم جان کی سربراہی میں احتجاج کر رہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ معاوضے اور ملازمتوں کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے کیے جائیں۔
الماس نھڑیو کی گرفتاری نے اس کے خاندان کو کنگال کردیا ہے، وہ پانچ بھائی ہیں اور پانچوں شادی شدہ ہیں۔ ان کے والد علی محمد پرائمری ٹیچر تھے ، مقدمے کی پیروی کے لیے انہوں نے سود پر قرضہ اٹھایا، وکلاء کو فیس کی مد میں ساڑھے سات لاکھ رپے ادا کیے، سود بڑھتا گیا بالآخر انہوں نے ریٹائرمنٹ لی اور پینشن کے پیسوں سے قرضہ ادا کیا۔