دنیا میں بسنے والے ہر قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیئے ایک ایک دن بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ‘ہر سال ہردن ‘اور ہرگھڑی اپنی ایک الگ اہمیت پہچان اور تاریخ رکھتا ہے کیونکہ ان کی اہمیت باقی دنوں مہینوں اور سالوں سے کچھ زیادہ اہمیت رکھتا ہے بلکہ مختلف بھی ہوتی ہے اور اس گھڑی لمحہ دن یا سال کو لوگ صدیوں یاد رکھتے ہیں بلکہ اسی روز کو تاریخ کے کتابوں میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔
بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے رقبے کے لحاظ سے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اگر بات وسائل کی کی جائے تو بلوچستان کے پہاڑوں چٹانوں میدانوں ریگستانوں میں قدرت نے دنیا کے مہنگے سے مہنگے ترین دھات کو اس سرزمین میں مدفون کردیا تو وہی پر اس کا صحیح استعمال بلوچستان کے عام عوام پر نہیں ہورہا خاص کر غربت سے پسے ہوئے افراد ان معدنی وسائل سے بالکل محروم ہیں ۔
بات بلوچستان کی کی جائے تو وہیں پر پسماندہ ضلع کوہلو کا ذکر نہ ہو یہ ہوہی نہیں سکتا اور اگر ذکر معدنی وسائل کا ہو تو وہیں پر چمالنگ کول مائنز کا حوالہ نہ ہو تو یہ بالکل ادھوری کہانی لگتی ہے جی ہاں پسماندہ ضلع کوہلو تمام بنیادی سہولتوں کے فقدان کا شکار تھا اور جہالت بھی ہر طرف عام تھا لوگ اپنے بچوں کو سکول کے بجائے بھیڑ بکریوں کے پیچھے چرواہے کا کام کرواتے تھے تووہیں پر خواتین کو گھر کے کام کاج کے علاوہ دور جنگلوں سے لکڑیاں توڑنے اور میلوں کے فاصلے پر پینے کے پانی کے حصول جیسے مشکل کام کروائے جاتے تھے اور مرد حضرات کی بھی کوئی خاص حالت نہیں تھی ۔
اس دور میں پاک فوج کے تعاون سے مری لونی اقوام کے معتبرین اور سربراہان نے مل کر باہمی اتفاق سے چمالنگ کول مائنز پروجیکٹ کو شروع کرنے فیصلہ کرلیا یہ 2007ء کا دور تھا اسی سن کو مری اور لونی برادر اقوام تاریخ کے سنہری لفظوں میں یاد کریں گے کیونکہ عشروں پر محیط جنگ میں مری اور لونی اقوام نے سینکڑوں کی تعداد میں جانیں ۔
اس پروجیکٹ کے لیئے قربان کی اور بالاآخر 2007ء میں باہمی اتفاق سے دونوں برادر اقوام شیر و شکر ہوکر اس پروجیکٹ پر کام کا آغاز کیا اور اسی سال کوہلو کے اقوام بالخصوص مری قبیلے کے لیئے ایک نیا روشن سورج طلوع ہواہے اس پروجیکٹ کے تحت جہاں ہزاروں کی تعداد میں برادر اقوام کے لوگ برسرے روز گار ہوئے بلکہ ترقی اور پسماندگی سے نکلنے کا ایک راستہ ہموار ہوا ہے جس کے تحت صدیوں سے پسماندگی کا شکار برادر اقوام ایک نئی منزل کی جانب رواں دواں ہوئے اس پروجیکٹ کے تحت اتنے بڑی تعداد میں لوگوں کا برسرروز گار ہونا کسی معجزے سے کم نہ تھا اور ان کا کریڈٹ برادر اقوام کے معتبرین اور سربراہان کے علاوہ پاک فوج کے سر جاتا ہے۔
جنہوں نے قربانیاں دیکر اس پروجیکٹ پر کام کا آغاز کرواکے برادر اقوم کے لوگوں پر ایک ناقابل فراموش احسان کیا چمالنگ کول مائنز کی ایک خاص بات چمالنگ تعلیمی پروگرام کا ہے جس میں اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی ایک خطیر رقم تعلیم کے لیئے رکھی گئی جوکہ ایک ناقابل فراموش فیصلہ تھا چمالنگ کول مائنز کے تحت تعلیمی پروگرام ‘‘بینی فشریزایجوکیشن پروگرام ‘‘کا آغاز کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو کوہلو لورلائی کے نجی تعلیمی اداروں کے علاوہ اندرون ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا گیا جن کی فیسوں اور دیگر اخراجات کی مد میں کروڑوں روپے خوچ کیئے گئے ۔
اس پروگرام کے تحت کوہلو اور لورلائی میں 2007ء سے2016ء تک 421بچے اندرون ملک کے تعلیمی ادارو میں داخل کیئے گئے اور 2010سے 2015تک66بچے اس پروگرام کے تحت پاکستان کے نامور تعلیمی اداروں میں داخل کئے گئے جن کی فیسوں کی مد میں سالانہ تیس لاکھ روپے خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ کوہلو کے 13 نجی تعلیمی اداروں نے 2800سے زائد طلبہ شہید جہانگیر ایف سی پبلک سکول میں 250سے زائد طلبہ لورالائی کے نجی تعلیمی اداروں میں 300سے زائد طلبہ اور چمالنگ میں قائم سکولوں میں 130سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔
ان کی فیسوں کی مد میں 2کروڑ 64لاکھ روپے اور کاپی کتابیں جوتے یونیفارم وغیرہ کے لئے سالانہ ایک کروڑ 32لاکھ وپے خرچ کئے جارہے ہیں جو کہ اپنی طرز کا منفرد پروگرام ہے 2010یہ پروگرام چمالنگ کول مائنز کے تحت چلائی گئی جس کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی اور مختلف این جی اوز اور ایک مخصوص رقم پاک فوج کے تعاون سے بھی خرچ کئے جارہے ہیں ۔
اتنے بڑے تعلیمی پروگرام کو چلانے کے لئے ایک ایماندار نیک اور مخلص شخص کی ضرورت تھی جس کے لئے غازی خان جیسے باشعور اور پڑے لکھے شخصیت کا انتخاب کیا گیا اور اس مرد مجاہد نے اس تعلیمی پروگرام کو ایسے کامیابی سے چلایا کہ بڑے بڑے ماہر تعلیم اور ماہر معیشت بھی اس شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
2007ء میں غازی خان مری کو اس پروگرام کا سیکرٹری بنایا گیا اور2017ء تک اس نے ہزاروں غریب بچوں کو اس پروجیکٹ کے تحت علم کے شمع سے روشن کیا اور اس وقت بھی اس پروگرام کے تحت کوہلو اور اندرون ملک کے تعلیمی اداروں میں186سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں ایک سروے کے مطابق یہ پروگرام پاکستان کا سب سے صاف اورشفاف اورکرپشن سے پاک پروگرام قرار دیا گیا یہ پاکستان کے واحد پروگرام ہے جس میں 99.99فیصد غریب بچے مستفید ہورہے ہیں ۔
غازی خان مری نے کہا کہ اس پروگرام کو وڈیرہ شاہی اور امیروں سے دور رکھا گیا جس کی وجہ سے اس تعلیمی پروگرام کو کبھی بھی کوئی رکاوٹ پیش نہیں آیا غاز ی مری کے مطابق اس نے عہد کیا کہ وہ کوہلو جیسے پسماندہ ضلع کو ناخواندگی جیسے ناسور مرض کا خاتمہ کرکے کوہلو کے عوام کو ایک پڑھا لکھا اور باشعور مستقبل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
میں تب تک پیچھے نہیں ہٹوں گا جب تک کوہلو کا ہر بچہ بچی سکول میں نہیں ہوگا اور اس وقت بھی کوہلو کے کونے کونے اور خاص کر امن و امان سے متاثرہ علاقوں کے بچے سینکڑوں کی تعداد میں اس پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں جو ایک نیک شگون ہے حکومت وقت اور دیگر تعلیم دوست اداروں اور افراد سے درخواست ہے کہ اس طرح کے پروگراموں کی پزیرائی کریں او ربلکہ خصوصی فنڈ اس پروگرام کے لئے مختص کئے جائیں تاکہ اس طرح علم کا یہ چراغ جلتا رہے ۔
غازی خان جیسے ایماندار اور فرض شناص لوگوں کو اس معاشرے میں قدر دی جائے کیونکہ یہ لوگ قوم کے اثاثے ہیں اور ان اثاثوں کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اس تحریر کو پڑھ کر شاید ایوان اقتدار میں بیٹے ہوئے لوگ جاگ جائیں اور اس طرح کے پروگراموں کی فعالیت کے لئے مزید وسائل بروئے کار لائیں۔