|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2017

 اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز اور حسن نواز نے پاناما کیس کا فیصلہ چیلنج کردیا۔

 سابق وزیراعظم نوازشریف کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اورحسن نواز نے پاناما کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

حسین، حسن، مریم نواز اورکیپٹن صفدر کی جانب سے دو نظر ثانی درخواستیں دائرکی گئیں جس میں ایک نظر ثانی درخواست 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف جب کہ دوسری نظر ثانی درخواست 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالتی فیصلے سے فیئر ٹرائل اور اپیل کے حقوق سلب ہوئے، جے آئی ٹی نے جوتحقیقات کی وہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں، عدالتی فیصلے میں دی آبزرویشنز سے متعلقہ فورم پر کارروائی متاثرہوگی، کیپٹن صفدرکے خلاف لندن فلیٹس کی خریداری کا کوئی الزام یا ثبوت نہیں جب کہ عدالت نے کیپٹن صفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے دیا۔

درخواست میں موقف اختیارکیا گیا کہ نگران جج کی تعیناتی بنیادی حقوق کے منافی ہے، نگران جج کی تعیناتی آرٹیکل 4، 10 اے، 25 اور175 کی خلاف ورزی ہے، فائنڈنگ کی روشنی میں عدالت خود شکایت کنندہ بن گئی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کو زیر غور نہیں لایا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت تین ججز نے کی، دو ججز 20 اپریل کے فیصلے کے بعد بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے تھے، تین ججز نے 20 اپریل کے عدالتی فیصلہ پرعمل کرایا، تحقیقات کی نگرانی کیں اوران تین ججز کو جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

درخواست گزاروں نے مزید موقف اختیار کیا کہ نگران جج کی تعیناتی کے بعد احتساب عدالت آزادانہ کام نہیں کرسکے گی، آئین اورقانون میں احتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی کی گنجائش نہیں، عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ قانون کے مطابق کام کیا جائے، ریفرنس دائرکرنے کا فیصلہ نیب اسکیم کے برعکس ہے، جے آئی ٹی کی تحقیقات نا مکمل تھیں، تحقیقات اس قابل نہیں تھیں جس پرریفرنس دائرہوسکےاور28 جولائی کے فیصلے میں سقم ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ٹائم باؤنڈ ڈائریکشن دینے سے حقوق متاثر ہوئے اور جے آئی ٹی کی نا مکمل تحقیقات پر ریفرنسز دائر کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ 28 جولائی کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی درخواست منظورکی جائے اور28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر درخواستیں خارج کی جائیں جب کہ نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک 28 جولائی کا فیصلہ معطل کیا جائے۔