کوئٹہ: گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا ہے کہ رواں مالی سال میں ایک ہزار ارب روپے کے زرعی قرضوں کے اجراء کا ہدف رکھا گیا ہے ،بینک اس ہدف کے حصول کیلئے جغرافیائی و شعبہ جاتی عدم توازن دور کریں۔
چھوٹے کاشتکاروں کی مالی شمولیت کو بڑھانے کیلئے حکمت عملی بنائی جائے۔ مالی ادارے دوردراز اور بلوچستان جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں ک اپنی رسائی بڑھانے کے لیے نئے تصورات اور مصنوعات متعارف کرائیں۔یہ بات انہوں نے زرعی قرضوں سے متعلق مشاورتی کمیٹی (ACAC) کے کوئٹہ میں ہونیوالے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران، کمرشل بینکوں، تخصیصی بینکوں، مائیکروفنانس بینکوں اور اسلامی بینکوں کے صدور اور ایگزیکٹوز، وفاقی و صوبائی حکومتوں، اور زراعت چیمبر،کاشت کار انجمنوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔طارق باجوہ نے مالی سال 2016-17کے لیے مقررہ 700 ارب روپے کے ہدف سے تجاوز کرنے پر ACAC کے ارکان کو مبارکباد دیتے ہوئے ان چار شعبوں کی نشان دہی کی جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ٹریلین روپے قرضے کے اجرا کا ہدف حاصل کرنے کے لیے حکمتِ عملی بنانے، چھوٹے کاشت کاروں کی مالی شمولیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی قرضے کی خصوصاً پیداواری قرضوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں، زرعی قرضوں پر مارک اپ ریٹس کو معقول بناناپر کام کرنا ہوگا تاکہ اب تک کے پست ترین ڈسکاؤنٹ ریٹ کا فائدہ کاشت کاروں کو منتقل کیا جائے اور علاقائی تفاوت کم کرنے کے لیے کم ترقی یافتہ علاقوں اور صوبوں میں بینکوں کی موجودگی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔
اپنے خطاب میں گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے زور دیا کہ زرعی قرضوں کی طلب کے امکانات سے کامیابی کے ساتھ استفادے کے لیے ضروری ہے کہ قرضے کی طلب کو پورا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صنعت کو اہم چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں چھوٹے اور نظرانداز کیے گئے کاشت کاروں کو قرضوں کی فراہمی، جغرافیائی و شعبہ جاتی عدم توازن کو دور کرنا اور غیر فصل سرگرمیوں کے لیے فنانسنگ کی فراہمی شامل ہیں، ان چیلنجوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
خصوصاً، مالی اداروں کو دوردراز اور بلوچستان جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں تک اپنی رسائی بڑھانے کے لیے نئے تصورات اور مصنوعات متعارف کرانی کرانی چائیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ شریعت سے ہم آہنگ زرعی قرضوں کی مصنوعات کے لیے وسیع امکانات اور طلب موجود ہے۔ انہوں نے اسلامی بینکوں کو تجویز دی کہ وہ اسلامی زرعی فنانسنگ پر اپنی توجہ بڑھائیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے ملک میں زرعی قرضوں کو فروغ دینے کے لیے مرکزی بینک کے فعال کردار پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ایک کثیر جہتی طرز فکر پر عمل پیرا ہیتا کہ بینکوں کو زرعی فنانسنگ کو ایک line business viable کے طور پر اختیار کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ انہوں نے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا کہ ملک میں قرضوں تک رسائی بڑھانے کے لیے اسٹیٹ بینک اور بینکاری صنعت کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں مالی اداروں کی جانب سے باضابطہ قرضے کی تقسیم مالی سال 2016-17میں بڑھ کر 704.5 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جو کہ مالی سال 12-13 میں 391.4 ارب روپے تھی، جو چار برسوں میں 80 فیصد سے زائد بلند اضافہ ہے۔
اس موقع پر پریزنٹیشن بھی دی گئی، جس میں زرعی قرضوں سے متعلق اہم اظہاریوں پر بینکوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے شرکا نے کم ترقی یافتہ صوبوں/علاقوں بالخصوص بلوچستان میں قرضوں میں اضافے کے طریقوں پر غوروخوض کیا۔
کمیٹی نے درج ذیل اقدامات کی تجویز دی۔1۔ شاخوں کی کْل تعداد میں سے کم از کم 20 فیصد کو زرعی قرض دینے کے لیے مختص کرنا اور ایسے مقامات پر مناسب ایگری کریڈٹ آفیسر کی موجودگی کو یقینی بنانا۔2۔ کم ترقی یافتہ صوبوں بالخصوص بلوچستان، خیبرپختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں زرعی قرضوں کے اہداف کا حصول یقینی بنانا۔ 3۔ کسی صوبے سے حاصل ڈپازٹس کے ساتھ قرضوں کو منسلک کرنا تاکہ کم ترقی یافتہ صوبوں میں زرعی قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
4۔ زرعی قرض کو بینکوں کی کارکردگی کا کلیدی اظہاریہ بنانا۔5۔ اراضی کے ریکارڈ کے انتظام کا خود کار طریقہ اختیار کرنا۔6۔ آپریشنل لاگت کم کرنے اور مارک اپ شرح کو معقول بنانے کے لیے ڈیجیٹل مالی خدمات اور برانچ لیس بینکاری کے ذرائع اختیار کرنا۔7۔ کم ترقی یافتہ علاقوں میں بینکوں کے اہلکاروں کی استعداد بڑھانا اور کاشت کاروں میں آگہی پیدا کرنا۔
8۔ فصلوں کی کٹائی سے قبل اور بعد میں کسانوں کی معاونت اور زرعی قرضوں اور دیگر بینکاری خدمات تک رسائی بڑھانے کے لیے سروس پروائیڈر کا استعمال۔اجلاس کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے گورنر طارق باجوہ نے بینکوں کے اس عزم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ مالی سال 2017-18 کے لیے 1,001 ارب روپے کے زرعی قرضے کا ہدف پورا کریں گے۔زرعی قرضہ لینے والوں کی تعداد میں ایک ملین کا اضافہ کریں گے۔
کاشت کاروں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے قرضہ ، توسیعی خدمات ، فارم کے لیے مشینوں کا استعمال ، معیاری بیج اور کھاد، ذخیرہ کی سہولتیں، اور زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ میں مدد ی جائے گی۔
آخر میں گورنر نے مالی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ زرعی قرضوں کو اپنے قرضوں کی نمو کی مجموعی پالیسی کا ایک اہم حصہ سمجھیں،اور نئی منڈیاں تلاش کریں، اختراعی مصنوعات تیار کریں، اسلامی زرعی فنانسنگ کو فروغ دیں اور ملک میں معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے مزید روابط تخلیق کریں۔
انہوں نے بلوچستان میں مالی خدمات بہتر بنانے کے لیے بینک آف بلوچستان کے قیام کی تجویز کو سراہا۔ انہوں نے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مالی ادارے خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں میں اپنے صوبائی/علاقائی اہداف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال کے مجموعی سالانہ اہداف حاصل کریں گے۔
مالی ادارے بلوچستان کے دور دراز علاقوں پر بھی توجہ دیں گورنر اسٹیٹ بینک
وقتِ اشاعت : August 27 – 2017