|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث صوبے میں خشک سالی کا خدشہ سنگین ہوگیا صوبے میں معمول سے کم بارشیں اور چیک ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے 12.18ہزارایکڑ فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے صوبے میں 1384کاریزات میں سے 125فعال ہیں بلوچستان میں اوستاً 176ملی میٹر بارش ہوتی ہے جوکہ صوبے کیلئے ناکافی ہے صوبے میں بے جا ٹیوب ویلوں کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح 3.6فٹ نیچے گرتی جارہی ہے ۔

یہ بات ماہر امور پانی وڈائریکٹر/سپرٹینڈنگ انجینئر محکمہ زراعت سید بشیر آغا اور پروفیسر ڈاکٹر عین الدین نے غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی کے اثرات پرصحافیوں کیلئے منعقدہ دوروزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

سپرڈنٹنڈنگ انجینئر محکمہ زراعت سید بشیر آغا نے کہاکہ بلوچستان میں سالانہ 176ملی میٹربارش ریکارڈ کی جارہی ہے جوکہ کم ترین سطح کہلائی جاتی ہے ٹیوب ویلوں کے بے جا استعمال کی وجہ سے پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو اگلے بیس سال میں لوگ بلوچستان سے نکل مکانی کرنے پر مجبور ہونگے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 10.793بلین میٹر کیوب پانی سرفیس فلو ہے جس میں سے 8.57بلین میٹر کیوب ڈیم اور پانی ذخیرہ نہ کرنے کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے صوبے میں زیر زمین پانی کا ریچارج کم او ر استعمال زیادہ ہے جس سے ہرسال زیر زمین پانی کی سطح 3.67فٹ نیچے گر رہی ہے ۔

انفراسٹکچر نہ ہونے کی وجہ سے سندھ سے ملنے والا پانی بھی استعمال نہیں ہوپاتا اور کچھی کینال منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 93فیصد پانی زراعت میں استعمال ہورہا ہے صوبائی حکومت نے پشین میں ایک ہی دریا پر تین لیکی ڈیم بنانے کے منصوبے کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس سے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوئی اور کئی سالوں سے غیر فعال کاریزات دوبارہ زندہ ہوگئی ۔

انہوں نے کہاکہ بارش کی کمی پانی کے استعمال میں بے احتیاطی ،بخارات کی زیادتی اور بے دردی سے زیر زمین پانی نکالنے کی وجہ سے بلوچستان میں پانی کا شاٹ فال 60فیصد تک بڑھ گیا ہے ۔

بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عین الدین نے سیمنیار کے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں آفات کی روک تھام کیلئے کوئی منظم سسٹم موجودہ نہیں ہے خشک سالی کی وجہ سے بلوچستان میں آفات کے امکانات بڑھ گئے ہیں صوبے کا مغربی حصہ خشک سالی کا شکار ہے جبکہ سی پیک کا مرکز گوادر بھی سونامی جیسی آفات کا شکار ہوسکتا ہے ۔

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مون سون علاقے بھی خشک سالی کا شکار ہورہے ہیں دیہی علاقوں میں آفات کی پیش گوئی کرنے والے آلات کام نہیں کررہے جبکہ بلوچستان میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور بارشوں میں کمی آرہی ہے اس وقت صوبے کو افرادی قوت ،پالیسی پر عملدرآمد آفات سے نمٹنے کیلئے محکموں میں رابطوں کا فقدان اور میڈیا کی عدم توجہ جیسے اہم چیلنجز کاسامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے تمام اداروں کو سنجیدگی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔