|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بدھ کو سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پچیس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔ اجلاس میں نیشنل پارٹی کی رکن یاسمین لہڑی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اراکین اسمبلی اپنے فنڈ سے اپنے حلقہ انتخاب میں بجلی کی سکیمات کے لئے کیسکو کو جو فنڈز دیتے ہیں ان منصوبوں کی تکمیل میں مسلسل تاخیر کی جارہی ہے انہوں نے محکمہ توانائی کی جانب سے جواب کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جواب میں متبادل انرجی کے حوالے سے اقدامات کا ذکر نہیں ہے ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اس بات کی تصحیح کی جائے ایم پی ایز کے کوئی فنڈز نہیں ہوتے بلکہ ان کے تجویز کردہ منصوبوں کے لئے فنڈز رکھے جاتے ہیں صوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ نے کہا کہ کیسکو مکمل طو رپر بیٹھ چکا ہے غلط بریفنگ دی جاتی ہے منصوبوں کے بارے میں درست رپورٹ نہیں دی جاتی ہے میرے حلقے کے منصوبوں کے لئے پندرہ کروڑ روپے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ 

چیئر مین پی اے سی عبدالمجیدخان اچکزئی نے کہا کہ 2013ء کے فنڈز سے بھی اب تک کام نہیں ہوئے ہیں کیسکو میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی ہے بجلی کی فراہمی کے لئے جو تخمینہ بتایا جاتا ہے وہ کسی ایم پی اے کے بس میں نہیں کہ اس کے لئے فنڈز فراہم کرسکے ۔

افسران چار چار سال سے ایک جگہ بیٹھے ہیں گزشتہ برفباری میں گرنے والے کھمبوں کی اب تک مرمت نہیں کی گئی ہر تین چار مہینوں کے بعد ٹرانسفارمروں کی قیمت بڑھادی جاتی ہے جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ کیسکو میں سیاسی بنیادوں پر بورڈ آف ڈائریکٹر بنایا گیا ارکان کی مدت پوری ہونے کے باوجود انہیں تبدیل نہیں کیا گیا ہے اس بورڈ کی وجہ سے کیسکو چیف کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں ۔

انہوں نے زور دیا کہ نئی بورڈ آف ڈائریکٹرز بنائی جائے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ارکان نے جن تحفظات اور خدشات کااظہار کیا ہے اس کا بہتر حل یہ ہے کہ کیسکو چیف کو یہاں پر بلایا جائے وہ ارکان کو بریفنگ دیں اور ان کے تحفظات دور کریں ۔ 

صوبائی مشیر محمدخان لہڑی نے کہا کہ میں نے اپنے حلقے میں 27کروڑ روپے کے منصوبوں کی نشاندہی کی تھی ان کا کام کئی سال بعد جا کر اب شروع ہونے والا ہے نیشنل پارٹی کے حاجی اسلام بلوچ نے کہا کہ 2013ء سے لے کرا ب تک کیسکو چیف کو بارہا اسمبلی میں بلایا جاتا رہا ہے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہم سٹیل کے کھمبوں کے لئے فنڈز دیتے ہیں ان کی جگہ سیمنٹ کے کھمبے لگائے جاتے ہیں جن کی قیمت کم ہوتی ہے انہوں نے بھی کیسکو چیف کو اسمبلی بلانے کی تجویز دی ۔ 

مسلم لیگ نون کے میر اظہار کھوسہ نے کہا کہ پورے نصیرآباد ڈویژن میں کوئی کام نہیں ہورہا بلکہ بجلی کی فراہمی کو کاروباربنالیا گیا ہے اس موقع پر سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ارکان نے بجلی کے منصوبوں کے حوالے سے شدید تحفظات کااظہار کیا ہے ۔لہٰذا عید کے بعد کیسکو چیف بلوچستان اسمبلی آکر ارکان کے تحفظات سنیں گے اور انہیں مطمئن کریں گے۔

اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے اپنی توجہ دلاؤ نوٹس پر پوچھا کہ کانسولیڈیٹڈفنڈز2ارب روپے رہ گئے ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذرائع کے مطابق نو مہینوں میں ایک ارب اور بارہ دن میں42ارب روپے جاری ہوئے ہیں اس کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے ۔سپیکر نے کہا کہ چونکہ صوبائی وزیر خزانہ ناسازی طبعیت کی وجہ سے رخصت پر ہیں ان کی موجودگی میں اس پر بات کی جائے تو بہتر ہوگا ۔ 

جس پر شاہدہ رؤف نے کہا کہ میں نے گزشتہ اجلاس میں وزیر خزانہ کی موجودگی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اس مسئلے کو اٹھایا تھا تاہم سپیکر نے مجھے اس مسئلے کو توجہ دلاؤ نوٹس پر اٹھانے کی ہدایت کی جبکہ اگلے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین کی پریس کانفرنس اخبارات میں شائع ہوئی جو اسی سے متعلق تھی کہ 12دن میں 42ارب روپے نکالے گئے اور اس کی اب تک حکومتی سطح پر کسی نے تردید یا وضاحت تک نہیں کی اور مجھے جواب وزیر خزانہ کی جانب سے موصول ہوا ہے میں اس سے قطعی طو رپر مطمئن نہیں ہوں ۔ 

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ معزز رکن نے جن فنڈز کے بارے میں پوچھا ہے یہ وفاق اور صوبے دونوں میں ہوتے ہیں مگر معزز رکن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ کن فنڈز کی بات کررہی ہیں ان کا سوال غیر واضح ہے اور کسی اخباری بیان کو بنیاد بنا کر سوالات نہیں کئے جاسکتے ۔

چیئر مین پی اے سی مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ میرے بیان کو ایک سیاسی ایشو بنادیا گیا ہے پی اے سی کے اجلاس میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں جہاں ان پر بات ہوتی ہے اجلاس میں ہونے والی باتوں کی اخبارات نے اپنی مرضی سے سرخیاں لگادیں یہ بات قطعی طور پر درست نہیں کہ میں اپنی ہی حکومت کی کرپشن کا گواہ ہوں گزشتہ این ایف سی میں جو کچھ ہوا جب اس کی رپورٹ آئے گی تو سب کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔

پی اے سی کام کررہی ہے اسے کام کرنے دیا جائے جب آڈٹ رپورٹ آئے گی تو اسے ہم کسی سے نہیں چھپائیں گے تمام محکموں میں آڈٹ جاری ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں سترہ سال بعد پی اے سی اپنا کام کررہی ہے ۔ جمعیت العلماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے کہا کہ میرے سوال کا اب تک کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا اگر واقعی بارہ دنوں میں42ارب روپے جاری ہوئے تو یہ کہاں استعمال ہوئی میں کسی اخباری بیان یا پی اے سی کے اجلاس کی خبر کی بات نہیں کررہی بلکہ چیئرمین پی اے سی کی پریس کانفرنس کا حوالہ دے رہی ہوں اس پہ مطمئن کیا جائے ۔

صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم نے اب تک کسی بینک سے کوئی اوور ڈرافٹ نہیں لیا ہے اور نہ ہی مفروضوں کی بنیاد پر کوئی بات کی جاسکتی ہے دوران تحقیقات ارکان اپنی رائے کااظہار نہ کریں تو بہتر ہوگاجب تمام چیزیں طے ہوجائیں تو پھر سب کے سامنے لائی جائیں چیئر مین پی اے سی کے ایک بیان کو بنیاد بنا کر پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے ہم تمام فیصلے میرٹ پر کررہے ہیں ہم عوام کو اور اس ایوان کو جوابدہ ہیں ۔

میں اپنے محکمے کے فنڈز کے ایک ایک روپئے کا حساب دینے کے لئے تیار ہوں تمام کام ایک طریق کار کے مطابق ہوتے ہیں جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ چیئر مین پی اے سی ایک اہم عہدیدار ہیں اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جو باتیں کیں وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں ہم نے کسی پر نہ تو الزام لگایا نہ کرپشن کی نشاندہی کی کیونکہ پی اے سی ہمارے پاس نہیں ہے مگر چیئرمین پی اے سی نے نام لے کر جو الزامات لگائے ہیں انہیں ثابت کریں یا پھر اس بات کو تسلیم کریں کہ انہوں نے غلط بات کی ہے ۔

صوبائی وزیر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ ہم کردار کشی پر مبنی الزامات کی مذمت کرتے ہیں طریق کار کے مطابق پی اینڈ ڈی سے منصوبے منظور ہونے کے بعد محکمہ فنانس سے اپنے طریق کار کے مطابق فنڈز جاری ہوتے ہیں ہم سیاسی لوگ ہیں اور چیزوں کو حقائق کے تناظر میں جانچتے ہیں بجٹ کا ہمارے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے ۔

سپیکر نے کہا کہ فنانس واقعی پی اینڈ ڈی سے منظور ہونے والے منصوبوں کے لئے پیسے ریلیز کرتا ہے اور محکمہ خزانہ کی جانب سے سوال کا جوجواب آیا ہے وہ واضح ہے اس موقع پر انہوں نے نوٹس کو نمٹادیا ۔اجلاس میں چیئرمین پی اے سی عبدالمجیدخان اچکزئی کی وفاقی لیویز پوسٹوں کی تقسیم اور افغان مہاجرین کے لئے امداد سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس وزیر داخلہ کی عدم موجودگی کے باعث آئندہ سیشن کے لئے موخر کیا گیا ۔

اجلاس میں مسلم لیگ(ن) کے میر عاصم کرد گیلو نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ میں پہلے بھی اس بات کی وضاحت کرچکا ہوں کہ میں اسمبلی کی کسی قائمہ کمیٹی کا رکن نہیں ہوں سابق سپیکر میر جان محمد جمالی اور موجودہ سپیکر سے بھی بارہا کہا کہ میں کسی کمیٹی میں شامل نہیں اور نہ ہی شامل ہونا چاہتا ہوں لیکن مجھے اجلاسوں کے حوالے سے بار بار مطلع کیا جاتا ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ جب ایوان میں سٹینڈنگ کمیٹیاں بن رہی تھیں تب آپ کا نام شامل کیا گیا تھا آپ نے مجھے اپنے موقف سے آگاہ کیا تھا میں نے آپ کو طریق کار سے آگاہ کردیا تھا کہ آپ اس سلسلے میں ہمیں تحریری طور پر آگاہ کریں ۔

صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ جب قائمہ کمیٹیاں بن رہی تھیں تو کمیٹی کے ارکان کے ناموں کی منظوری اس ایوان نے دی تھی جس کے بعد کمیٹیوں نے اپنے اپنے چیئر مین منتخب کئے شروع میں اپوزیشن ان میں شامل نہیں تھی تاہم بعد میں اپوزیشن نے بھی کمیٹیوں میں شرکت کی انجینئرزمرک خان اور مفتی گلاب خان کمیٹیوں کے چیئرمین منتخب ہوئے ۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ جس کمیٹی کی میر عاصم کرد گیلو بات کررہے ہیں میں بھی اس کا ممبر ہوں میر عاصم کرد گیلو کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور ان کی عدم شرکت کی جووجوہات ہیں ا ن کو بھی دیکھنا چاہئے ۔

سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے ایوان کو بتایا کہ میر عاصم کرد گیلو نے مجھے بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا تھا اور میں نے بھی انہیں طریق کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ کمیٹیوں کے لئے نام پارلیمانی رہنماؤں نے دیئے ہیں اس لئے آپ اپنا نام واپس لینے کے لئے پارلیمانی لیڈر سے بات کریں وہ ایوان میں اس مسئلے کو اٹھائیں ۔

اس موقع پر صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے تجویز دی کہ چونکہ عام کردگیلو کمیٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتے اور اجلاسوں میں نہیں آرہے لہٰذا مذکورہ کمیٹی کے چیئر مین سپیکر کو تحریری طور پر آگاہ کریں تاکہ ان کی جگہ کسی دوسرے ممبر کو شامل کیا جائے جس پر سپیکر نے یقین دلایا کہ میر عاصم کرد گیلو کا نام کمیٹی سے نکالنے کے لئے قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ 

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے اپنے توجہ دلاؤنوٹس کے موصول ہونے والے جواب پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پٹ فیڈر کینال منصوبے میں بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے ہم نے اس مسئلے کو پہلے بھی اٹھایا تھا جس پر سپیکر نے اسے کمیٹی کے حوالے کردیا تھا جس کے بعد کمیٹی جس میں میں خود بھی شامل تھی ہم نے علاقے کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور اپنی سفارشات کے ساتھ رپورٹ پیش کی تھی مگر آج اس کا جو جواب محکمہ ایری گیشن کی جانب سے موصول ہوا ہے وہ کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہے ۔

ہماری سفارشات کے بغیر رپورٹ پیش کی گئی ہے بلکہ ہماری سفارشات کے برعکس کنسلٹنٹ کو مزید ادائیگی کی سفارش کی گئی ہے جو درست نہیں صوبائی مشیر محمد خان لہڑی نے کہا کہ ہم تو سابقہ حساب لینا چاہتے ہیں مگر یہاں وہ مزید ادائیگی کی سفارش کررہے ہیں جس سے ہم مطمئن نہیں ہیں جس پر سپیکر نے کہا کہ چونکہ صوبائی وزیر ایری گیشن یہاں موجود نہیں جو سوالات کے جواب دے کر مطمئن کرسکیں ۔

اس موقع پر انہوں نے سیکرٹری ایری گیشن کو ہدایت کی کہ وہ ارکان کے تحفظات نوٹ کرکے انہیں دور کرنے کے بعد رپورٹ ایوان میں پیش کریں۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اراکین اسمبلی آغا سید لیاقت ،عبدالمجید خان اچکزئی انجینئر زمرک خان اچکزئی سردار عبدالرحمان کھیتران منظور خان کاکڑ اور وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے بلوچستان میں تعینات ہو کر آنے والے افسران کو اضافی الاؤنسز کی ادائیگی پر تشویش کا اظہار کیا ۔

مجیدخان اچکزئی کا کہنا تھا کہ وفاق سے جو افسران بلوچستان میں تعینات ہو کر آتے ہیں انہیں خصوصی مراعات دی جاتی ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے گریڈ اٹھارہ کا افسرڈیڑ ھ گھنٹے کا سفر کرکے کوئٹہ میں اترتا ہے تو اسے انیسواں گریڈ مل جاتاہے اس سے مقامی افسران کی حق تلفی ہورہی ہے ۔عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ وفاق سے جو ملازمین صوبوں میں تعینات ہو کر جاتے ہیں بلوچستان کو چھوڑ کر کسی دوسرے صوبے میں انہیں خصوصی مراعات نہیں ملتیں صرف ہمارے صوبے میں انہیں خصوصی مراعات ملتی ہیں ۔

سردارعبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ حکومتی اراکین ہمیں ورغلا رہے ہیں ہر جگہ ہمارے صوبے کے افسران کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے دو سالوں کے لئے باہر سے افسران یہاں تعینات ہو کر آتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارے صوبے میں آگ لگی ہے اس لئے اس آگ میں کودنے والے افسران کو خصوصی مراعات دی جاتی ہیں مگر ہمار ا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس آگ کے اندر بیٹھے ہیں ان کے لئے آپ کیا کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مقامی افسران کی حق تلفی روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ یہاں حکومتی اراکین خود سوال کرتے ہیں اور خود جواب دیتے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے مقامی افسران کے سروس سٹرکچر کے لئے اب تک کیا کیا ہے ؟وفاق سے جو افسران آتے ہیں وہ مروج قوانین کے تحت ہی آتے ہیں آپ کیوں اپنے صوبے کے افسران کے لئے قانون سازی نہیں کرتے آپ کیوں ان کا سروس سٹرکچر نہیں بناتے وفاق نے تو آپ کو نہیں روکا یہ کام تو آپ نے خود کرنا ہے ۔

منظ46ر کاکڑ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات ملے ہیں انہیں بروئے کار لانا چاہئے ہمیں اپنے مقامی افسران کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے ہوں گے۔وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ اس حوالے ہم قرار داد بھی لارہے ہیں ۔ اس موقع پر اراکین کی تجاویز کی روشنی میں سپیکر نے مذکورہ معاملے کو ایوان کی قائمہ کمیٹی برائے ایس اینڈ جی اے ڈی کے سپرد کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے آغا سید لیاقت ،عبدالرحیم زیارتوال ، رحمت صالح بلوچ اور سردار عبدالرحمان کھیتران کو بھی اس کا ممبر بنانے کی ہدایت کی ۔

اجلاس میں وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے وزیر برائے ترقی نسواں کی جگہ بلوچستان کمیشن برائے رتبہ خواتین کا مسودہ قانون کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظور ی دی ۔

مسودہ قانون کی منظوری پر ایوان میں ڈیسک بجائے گئے اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی ،کشور احمد جتک،ڈاکٹر شمع اسحاق،سردار عبدالرحمان کھیتران اوریاسمین لہڑی نے مسودہ قانون کی منظوری کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کے حقو ق کے تحفظ میں یہ بل مدد گار ثابت ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں میں رتبہ خواتین کمیشن کا قیام پہلے ہی عمل میں لایا جاچکا ہے بلوچستان میں کمیشن قائم نہیں ہوا تھا اب جا کر اس کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے جس پر تمام ایوان مبارکباد کا مستحق ہے۔

ابھی ایوان کی کارروائی جاری تھی کہ سپیکر نے نماز مغرب کے لئے پندرہ منٹ کے وقفے کا اعلان کیاتاہم اجلاس دوبارہ ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا جس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین کی مشترکہ قرار داد آغا سید لیاقت نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا صوبہ قدرتی معدنی خزانوں سے مالا مال ہے وہاں قدرتی قیمتی نایاب جنگلات بڑے پیمانے پر موجود تھیں انسانی ضروریات کے تحت ان جنگلات کی کٹائی صدیوں سے جاری رہی اور آج یہ نایاب قیمتی جنگلات ختم ہونے کو ہیں ۔

صوبے میں گیس کی دریافت1954ء سے سوئی بالائی اوچ اور دیگر علاقوں سے گیس کی سپلائی شرع ہوئی جو ملک کے کونے کونے تک پہنچ گئی لیکن آج تک صوبے کے چند اضلاع کو چھوڑ کر کہیں پر بھی گیس میسر نہٗن اور جن اضلاع میں گیس موجود ہے وہاں سردیوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے صوبے کی گیس سے ملک میں سوئی سدرن اور دیگر کی جائیدادیں کھربوں میں ہیں جس کا باقاعدہ حساب کتاب ضروری ہے ۔

اس صورتحال میں صوبے میں کے تمام اضلاع کو گیس فراہم کرنا سب کا مشترکہ مطالبہ بن چکا ہے تاکہ گیس کی فراہمی سے ماحولیات انسانی زندگی کے جنگلات کی اہمیت اورنایاب قدرتی قیمتی جنگلی اقسام کا تحفظ ممکن ہوسکے اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ صوبے کے تمام اضلاع کو بلا تاخیر گیس کی فراہمی کے لئے منصوبہ بندی اور اس کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے پورے ایوان کی قرار داد میں تبدیل کرکے منظور کیا جائے ۔بلوچستان کے شدید سرد علاقوں میں سردیان شروع ہونے سے قبل گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور وزیراعظم کے اعلان کے مطابق گیس پلانٹ لگا کر کنکشن فراہم کیا جائے ۔

میر عاصم کرد گیلو نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حلقہ انتخاب کا اکثریتی علاقہ اب بھی گیس سے محروم ہے ۔ یہاں تک صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں شدید سرد موسم میں گیس پریشر دم توڑ دیتا ہے میں نے اپنے حلقے کے دو دیہات کو گیس کی فراہمی کے لئے8سال قبل دو کروڑ روپے دیئے مگر اب تک صرف ایک دیہات کو گیس فراہم کی گئی ہے ۔ نیشنل پارٹی کے میرخالدلا نگو نے کہا کہ دراصل وفاق اور وفاقی بیورو کریسی میں ہماری نمائندگی نہ ہونے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے ۔

ہماری گیس سے پورے ملک میں صنعتیں چل رہی ہیں مگر ہمارے عوام اب بھی گیس سے محروم ہیں قلات کو گیس کی فراہمی میں راستے میں خالق آباد کو نظر انداز کیا گیا انہوں نے کہا کہ اس قرار داد کو منظور کرکے اس پر وفاق سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے بات کی جائے ۔سپیکر نے ایوان کی مشاورت سے مذکورہ قرار داد کو ایوان کی مشترکہ قرار داد کی شکل دے کر ایوان میں منظوری کے لئے پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طو رپر منظور دے دی ۔

اس موقع پر سپیکر نے وفاق سے رابطے کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی بھی رولنگ دی جس کے اراکین کا اعلان بعد میں کیا جائیگا مذکورہ کمیٹی وفاق میں صوبے کے مسائل کے حل اور صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے والی قرار دادوں کی روشنی میں متعلقہ محکموں کے حکام سے ان مسائل کے حل کے لئے بات کرے گی اور چیئر مین سینٹ و سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کرے گی ۔

اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اس سلسلے میں انٹر پراونشل کورآڈینیشن کے سیکرٹری موجود ہیں انہیں بلا کر ان سے قرار دادوں پر تفصیلی بات کی جائے مکمل تیاری کے بعد ان پر وفاق سے بات کی جائے۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی رکن یاسمین لہڑی نے قرار دادپیش کرتے ہوئے کہا کہ کچھی کینال جو کہ عوامی نوعیت کا اہم پروجیکٹ ہے جو کہ پانچ سو کلو میٹر لمبائی پر محیط ہے جس سے تین سو کلو میٹر پکا اور دو سو کلو میٹر کچاڈیزائن ہوا ۔

اس پراجیکٹ کی ابتدائی تعمیر اکتوبر2002ء میں تونسہ بیراج سے شروع ہوئی تھی اور اسے مارچ2009ء تک تین مرحلوں میں مکمل ہونا تھا اور اس پراجیکٹ کی تکمیل سے صوبے کے چار اضلاع کے تقریبا سات لاکھ تیرہ ہزار ایکڑ ازمین سیراب ہونی تھی لیکن بدقسمتی سے نامعلوم وجوہات کی بناء پر تاہال مذکورہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے اور اب شنید میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت اس کو پہلے مرحلے میں ڈیرہ بگٹی کی صرف72ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرنے پر ختم کررہی ہے جس کی وجہ سے باقی تین اضلاع کے زمینداروں میں تشویش پایاجانا فطری امر ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ کچھی کینال پراجیکٹ کو باقاعدہ طور پر سی پیک میں شامل کرنے کو یقینی بنائے تاکہ عوامی اہمیت کے حامل مذکورہ پراجیکٹ کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ آج کا نہیں بلکہ1972ء میں جب میر غوث بخش بزنجو نے ا س حوالے پہلا اقدام اٹھایا 1991ء میں پانی کا جو معاہدہ ہوا اس میں بھی صوبوں کو پانی دینے کی بات ہوئی اس معاہدے کے تحت بلوچستان کے حصے میں دس ہزار کیوسک پانی آنا تھا اس پانی کے حصول کے لئے بلوچستان کی اس وقت کی حکومت نے کچھی کینال منصوبے کا مطالبہ کیا ۔

2002ء میں جا کر اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تین فیز میں مکمل ہونا تھامگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں نہ صرف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس کے لئے رکھی گئی رقم بھی خورد برد ہونے کا خدشہ ہے قرار داد کو منظور کرکے صوبائی حکومت وفاق سے اس معاملے پر بات کرے اوراس میگا پراجیکٹ کو باقاعدہ طو رپر سی پیک میں شامل کیا جائے ۔

صوبائی مشیر محمدخان لہڑی نے کہا کہ منصوبے کا تین سو کلو میٹر حصہ پنجاب اور دو سوکلو میٹر بلوچستان میں آنا تھا مگر اب اس کو ڈیرہ بگٹی میں ختم کیا جارہا ہے جس سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے ۔

مسلم لیگ نون کے میر اظہار کھوسہ نے کہا کہ منصوبے کے تحت علاقے میں ساڑھے سات لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا مگر اب ڈیرہ بگٹی تک محدود کرنے سے صرف ستر ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوگی جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ ہمارے پارلیمانی لیڈروں کو اسلام آباد میں جا کر وفاق سے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے بات کرنی چاہئے ۔سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے کہا کہ دنیا کا مستقبل پانی سے وابستہ ہے 1991ء میں دریائی پانی کی تقسیم کے بعد کچھی کینال کے منصوبے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا اسے سی پیک میں شامل کرکے مکمل کرایا جائے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ قرار داد میں ترمیم کرکے اس میں ضلع موسیٰ خیل اور بارکھان کو بھی شامل کیا جائے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظ46ر کرلی ۔

اجلاس میں صوبائی ملازمتوں میں وفاقی افسران کے کوٹے سے متعلق نیشنل پارٹی کے رحمت صالح بلوچ نے قرار داد پیش کرنے کی اجازت چاہی چونکہ مذکورہ قرار داد پہلے سے اجلاس کے ایجنڈے پر نہیں تھی اس لئے ایوان سے منظوری لی گئی جس کے بعد رحمت بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1954ء میں صوبہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت صوبہ اور وفاق کے درمیان ایک مشترکہ سول سروس ہونا تھا جسے پاکستان ایڈمنسٹریٹو ملازمت (جسے پہلے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) کہاجاتا تھا اور سول آسامیاں پے سکیل سترہ تا بائیس جو کہ صوبے کے اپنے کنسولیڈیٹڈ فنڈسے پیدا کردہ ہیں اسے رکھاگیا جو کہ غلط اور غیر قانونی ہے ۔

چونکہ جس معاہدے کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ1954ء میں وفاق اور صوبوں کے درمیان عارضی طور پر وفاقی معاملات چلانے کے لئے کیا گیا تھا اس معاہدے کاصوبہ بلوچستان پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ بلوچستان1971ء میں صوبہ بنا ۔

پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور ڈی ایم جی کو سول سروس آف پاکستان کمپوزیشن اینڈ کیڈررولز1954ء کے تحت ترتیب دیا گیا تھا جنہیں وفاق اورصوبائی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ قرار دیا تھا جسکا مقصد ایک مشترکہ سول سروس اور صوبائی پوسٹوں کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور ڈی ایم جی کو دینا تھا کا قیام عمل میں لایا گیا درج بالا معاہدے کو فاق نے ایس آر او 88(1)فروری2014ء کے تحت ترمیم کیا گیا۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان سول سروسز(بی ایس ایس اور بی سی ایس)کے پے سکیل19تا بالا کے تمام کیڈر آفیسرز کو وفاقی حکومت کے ترمیم شدہ رولز 1954ء کے تحت ضم کرنے کے ساتھ ساتھ پے سکیل 19اور پے سکیل20کے صوبائی افسران کو پی اے ایس /ڈی ایم جی میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ صوبائی حکومت کے افسران میں پائی جانے والی تشویش اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ وفاق کی جانب سے ہم زیادتیوں کا رونا رو رہے ہیں ہمارے افسران کو نظر انداز کیا جارہا ہے ہمارے افسرا ن بھی ملک کا اثاثہ اور صوبے کے فرزند ہیں انہیں مایوسیوں سے نکالنا ہوگا۔نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے باقی صوبوں سے ہمارا صوبہ بہت زیادہ پسماندہ ہے یہ معاہدہ سامنے نہیں لایا جاتا معاہدہ1954ء میں ہوا ہے اور ہمیں صوبے کا درجہ1969ء میں ملا ہے کسی اور صوبے سے آنے والے بھی ہمارے بھائی ہیں وہ قابل احترام ہیں ۔

ڈی ایم جی گروپ کے افسران اندرون بلوچستان دور دراز علاقوں میں بہت کم جاتے ہیں ان کی اکثر پوسٹنگ یہاں کوئٹہ میں ہی ہوتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ ایک تنخواہ انہیں اضافی ملتی ہے ہمارے افسران کا کیا قصور ہے کہ وہ ساری عمر یہاں سروس کرتے ہیں یہاں صوبے کے عوام کی خدمت کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری موثر آواز جانی چاہئے تاکہ ہمارے افسران کے ساتھ زیادتی کاخاتمہ ہو اور وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔ڈی ایم جی افسران اور یہاں کے مقامی افسران کے رویے میں بھی بہت فرق ہے ایوان اس قرار داد کو متفقہ شکل دے کر پاس کرے اور وفاق سے سنجیدگی کے ساتھ بات کی جائے ۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہم بھی اس قرار داد کے محرک ہیں ہم جب سے اس اسمبلی میںآ ئے ہیں ہم اسی بات کا رونا روتے آئے ہیں ہم جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو پتہ نہیں کیا کیا لیبل لگادیا جاتا ہے ایک افسرسی ایس ایس کرتا ہے وفاقی امتحان دیتا ہے ایک پی سی ایس کرتا ہے صوبائی امتحان دیتا ہے میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ سی ایس ایس کرنا پی سی ایس سے بہت آسان ہے ان کے مخصوص پرچے ہیں پی سی ایس کا امتحان بہت سخت ہوتا ہے ۔ 

کلیدی پوسٹوں پر سی ایس ایس والے آکر بیٹھ جاتے ہیں جب قربانی کا مرحلہ آتا ہے تو پی سی ایس والوں کو آگے کردیا جاتا ہے میں کہتا ہوں کہ ان کے مقابلے میں میرے افسران ہزار گنا قابل ہیں صوبے کے قیام سے پہلے کا ایک غیر فطری معاہدہ ہے جس کے تحت پوسٹیں تقسیم ہوتی ہیں اس سے ہمارے لوگوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔

عبدالرحیم زیارتوال نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر مکمل تیاری اور مکمل دستاویز کے ساتھ وفاق میں بات کرنی ہوگی اس سلسلے میں سیکرٹری آئی پی سی سے بات کرکے تیاری مکمل کی جائے بعدازاں اس قرار داد کو پورے ایوان کی مشترکہ قرار داد کی صورت میں منظور کرلیا گیا ۔ جس کے بعد سپیکر نے قرار داد کو ایس اینڈ جی اے ڈی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں مالیاتی کمیٹی کے رکن سید آغا رضا نے مالیاتی کمیٹی صوبائی اسمبلی کی کارکردگی رپورٹ برائے مالی سال2016-17ء پیش کی جس پر مسلم لیگ(ن) کے رکن جان محمد جمالی نے تجویز دی کہ رپورٹ کے مندرجات چار اور پانچ جن میں سابق سیکرٹری اعظم داوی سے مراعات واپس لینے اور سابق کورآرڈینیٹر ہاشم کاکڑ کی تنزلی کے مندرجات پر نظر ثانی کی جائے بعدازاں مذکورہ ترمیم کے ساتھ رپورٹ ایوان میں پیش کردی گئی ۔