کوئٹہ کے گنجان علاقے وحدت کالونی میں بریوری روڈ پر واقع بلوچستان کباب ہاؤس کے سامنے اپنے دو دوستوں کے ہمراہ بیٹھے ایک بوڑھے شخص حاجی عبدالزمان زہری بتاتے ہیں کہ حال ہی میں ان کی بیٹی کو سرجری کے بعد زچگی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
عبدالزمان زہری کا تعلق ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں واقع نورگاما نامی قصبے سے ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے کی آبادی تقریباً 5 ہزار ہے لیکن وہاں ایک بھی گائناکولوجسٹ موجود نہیں، انہیں اپنی بیٹی کو آپریشن کے لیے بولان میڈیکل کمپلیکس کوئٹہ لانا پڑا۔
“شکر ہے کہ ہم کوئٹہ پہنچ گئے، ورنہ میری بیٹی کا حال بھی ہمارے علاقوں اور صوبے کے ان دیگر علاقوں کی خواتین جیسا ہوتا جہاں خاتون ڈاکٹرز میسر ہی نہیں، اور میری بیٹی دوران حمل موت کا شکار بن جاتی۔” عبدالزمان کے مطابق کوئٹہ میں بھی ایک بہتر گائیناکولوجسٹ یا خاتون ڈاکٹر تک پہنچنا آسان کام نہیں۔
بلوچستان کے دارالخلافہ میں لوگوں سے اکثر خواتین ڈاکٹرز کی کمی کی شکایت سننے کو ملتی ہے۔ لیکن صوبے کے ایسے علاقے جہاں قبائلی ضابطے سماجی تعلقات پر غالب ہیں وہاں سماجی ڈھانچہ انتہائی قدامت پسندانہ ہے لہٰذا خواتین کو علاج و طبی مشورے کے لیے مرد ڈاکٹرز کے پاس لے جانے کا زیادہ رواج نہیں۔ کچھ گھرانے تو قطعاً اپنی خواتین کو علاج معالجے کے لیے مرد ڈاکٹرز کے پاس نہیں لے جاتے۔
ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ، “حال ہی میں اپنی کزن کو کوئٹہ کے کڈنی سینٹر ہسپتال لے گیا کیونکہ انہیں گردے میں تکلیف تھی۔ اس وقت وہاں ایک بھی خاتون ڈاکٹر موجود نہیں تھی لہٰذا ہمیں انہیں مرد ڈاکٹر کو دکھانا پڑا۔ ڈاکٹر میری کزن کو گھور رہا تھا اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھنے لگا جس پر مجھے کافی غصہ آیا۔ اس کے بعد سے میں کبھی اپنی کزن کو وہاں نہیں لے کر گیا۔”
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان کے پدرشاہی سماج میں خواتین کی موجودگی بہت ہی محدود ہے۔ زیادہ تر لڑکیوں کی کم عمری اور اکثر تو اپنی مرضی کے خلاف شادی کروا دی جاتی ہے، جبکہ چند ایک خواتین کو ہی اپنا کریئر بنانے اور ذاتی خواہشوں کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم ہو پاتا ہے۔ بلوچستان کے واحد میڈیکل کالج، بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) میں خواتین میڈیکل طلبات کی ایک اچھی خاصی تعداد ہونے کے باوجود کوئٹہ میں بمشکل 100 گائیناکولوجسٹس موجود ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں خواتین ڈاکٹرز کی قلت کیوں ہے؟
کوئٹہ کے سینئر ڈاکٹر اور بی ایم سی کے سابق پرنسپل نعمت گچکی اتفاق کرتے ہیں کہ شہر میں خواتین ڈاکٹرز کی کمی نہ صرف شہر میں ہے بلکہ باقی صوبے کی صورتحال تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ، “یہ سچ ہے کہ ماضی میں خواتین طالبات کی تعداد مٹھی بھر تھی کیونکہ بی ایم سی میں زیر تعلیم طلبہ کا 10 فیصد خواتین طالبات پر مشتمل تھا۔ آہستہ آہستہ اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔”
ان کے نزدیک خواتین کو میڈیسن میں اپنا کریئر بنانا چاہیے کیونکہ مردوں کے مقابلے میں تو وہ زیادہ پڑھتی ہیں لیکن باہر نہیں نکلتیں۔ مگر ان کے مطابق یہ بھی ایک بدقسمتی ہے کہ زیادہ تر خواتین تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلدی شادی کر لیتی ہیں، یوں اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی خاطر وہ شہر تک ہی محدود رہتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ، “وہ بلوچستان کے دیہی علاقے میں پوسٹنگ نہیں چاہتیں۔ کیونکہ دیہی علاقوں میں سماجی حالات بہتر نہیں ہیں اور وہ خود کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتی ہیں جبکہ وہاں ہسپتال بھی ویران ہوتے ہیں۔”
وہ بتاتے ہیں کہ بی ایم سی میں جب بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہے تھے ان دنوں خواتین ڈاکٹرز کی دیہی علاقوں میں پوسٹنگ کو ایک مشکل سے ایک ماہ گزرنے کے بعد ان خواتین ڈاکٹرز کے والد ان کے پاس آتے اور شکایت کرتے کہ “آپ کو کیا صرف ہماری ہی بیٹی نظر آتی ہے؟”
تاہم چند ایسے بھی ہیں جو صوبائی حکومت پر میڈیسن شعبے میں خواتین کی کمی کے حوالے سے اقدامات نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
کوئٹہ میں مقیم ڈاکٹر سکینہ بتاتی ہیں کہ، “500 سے زائد خواتین ڈاکٹرز بے روزگار ہیں۔ ہمیں گزشتہ 9 ماہ سے معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ، پوسٹنگ کا اعلان یا تو دیر سے کیا جاتا ہے یا پھر مٹھی بھر جگہیں خواتین کے لیے مختص کی جاتی ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان میں ہزاروں مریضوں کے لیے بمشکل ہی کوئی ایک خاتون ڈاکٹر مل پاتی ہے۔”
بلوچستان کے وزیر صحت رحمت صالح بلوچ سے خواتین ڈاکٹرز کی کمی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ، “آپ کوئٹہ کے کسی بھی ہسپتال میں جا کر دیکھیں وہاں خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔” ان کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ خواتین ڈاکٹرز کی کمی ہے بلکہ دراصل اسپیشلسٹ معیار کی خواتین ڈاکٹرز کی کمی ہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ 400 سے زائد آسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن ماہر ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف ایک ہی میڈیکل کالج موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ، “کئی ایسی خواتین ڈاکٹرز ہیں جو (جلد ہی) تعلیم مکمل کرنے والی ہیں، اسپیشلائزنگ کر رہی ہیں اور ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کر رہی ہیں۔ اس مرحلے کو پورا ہونے میں ایک طویل عرصہ لگتا ہے۔”
وزیر صحت اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی میں خواتین ڈاکٹرز کی کمی رہی ہے لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی حکومت ضرورت کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مثلاً جس طرح انہوں نے بتایا کہ ایف سی پی ایس مکمل ہونے کے بعد وہ خواتین ڈاکٹرز کو گائیناکولوجسٹس کے طور پر آگے بھیجے جاتے ہیں۔
جبکہ بلوچستان میں امن و امان کی خستہ صورتحال بھی اس میں ایک رکاوٹ رہی ہے۔ وزیر صحت تسلیم کرتے ہیں کہ، “کئی ایسی بھی خواتین ڈاکٹرز ہیں جو اپنی اسپیشلائزیشن مکمل کرنے کے بعد اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں، اور بیرون ملک چلی جاتی ہیں، اور کبھی کبھار تو واجبات وصول کیے بغیر ملک چھوڑ دیتی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ایسی کئی خواتین ڈاکٹرز کا پتہ لگوایا اور انہیں ملازمتوں سے برطرف کیا جو بیرون ملک رہائش پذیر تھیں اور اپنے فرائض انجام نہیں دے رہی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس پیشے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کی خاطر حکومت صوبے میں تین نئے میڈیکل کالجز قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
“یہاں پر افرادی قوت ایک بڑا چیلنج ہے، اور اسپیشلسٹ معیار کی خواتین ڈاکٹرز کا خلا پر کرنے میں ہمیں مزید 10 برس درکار ہوں گے۔
کوئٹہ میں موجود زیادہ تر خواتین ڈاکٹرز کوئٹہ سے باہر پوسٹنگ کیوں نہیں چاہتیں، اس کی وہ تین وجوہات بتاتی ہیں، تحفظ، حکومت کی جانب سے سہولیات کا فقدان، اور ان کے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ؛ کیونکہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
ڈاکٹر زینت شاہوانی بتاتی ہیں کہ، “میں بلوچستان کے سات اضلاع کے مریضوں کو سنبھال رہی ہوں۔ جہاں ایک بھی خاتون ڈاکٹر موجود نہیں ہے اور نہ ہی صحت کی سہولیات دستیاب ہیں۔ اسی وجہ سے دوران زچگی اموات کی شرح اتنی زیادہ ہے۔ بچوں کی پیدائش کے لیے دائیوں کے مقابلے خواتین میڈیکل افسران بہتر طور پر آلات سے لیس ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر زینت نے ڈویژن کوٹا میں سیٹوں کی کمی کا شکوہ بھی کیا، اور مزید یہ کہ جب کمیشن امتحان کے ذریعے ملازمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو خواتین کے لیے 100 میں سے صرف 20 پوسٹ ہی مختص ہوتی ہیں۔ وزیر صحت اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت مساوی بنیادوں پر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔”
جبکہ کئی لوگ ایسا مانتے ہیں کہ جب خواتین ڈاکٹرز کی امیر گھرانوں میں شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں، ڈاکٹر سعدیہ علی بلوچ، جو کہ حقوق نسواں کی کارکن بھی ہیں، اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں، ان کا کہنا ہے کہ، “مجھے کبھی بھی ایسی کسی خاتون ڈاکٹر سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا جس نے شادی کرنے کے بعد اپنا کام چھوڑ دیا ہو، میں خود بھی شادی شدہ ہوں اور میرے بچے ہیں۔ اس کے باوجود میں بطور ایک ڈاکٹر اپنے فرائض انجام دے رہی ہوں۔”
2014 میں جب ان کی پوسٹنگ خاران میں کی گئی تھی، وہ بتاتی ہیں “چونکہ میرا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اس لیے میں اپنے لوگوں کی خدمت کرنے خوشی خوشی وہاں گئی۔ بدقسمتی سے جب میں وہاں تھی تب وہاں کسی قسم کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔
مجھے وہاں سرجریز اور نارمل ڈلیوریوں کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن وہاں ان کاموں کو انجام دینے کے لیے سہولیات میسر ہی نہیں تھیں۔ وہاں کوئی نہ اینیتھیسیسٹ تھا، نہ ہی رہائش یا ضروری آلات کا بندوبست تھا۔ اسی لیے میں نے وہاں کام کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان حالات میں میرے لیے کام کرنا ممکن نہ تھا، بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی میں کس طرح اپنے لوگوں کی خدمت کر پاتی۔”
وہ مزید کہتی ہیں کہ، “اگر حکومت نے کوئٹہ اور صوبے میں طبی سہولیات فراہم کی ہوتیں تو بلاشبہ خواتین ڈاکٹرز اور گائناکولوجسٹ بڑے شوق سے اپنے فرائض انجام دیتیں اور یوں بلوچستان میں کبھی خواتین ڈاکٹرز کی کمی واقع نہیں ہوتی۔”