لندن: بلوچ رہنما حیربیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کا بلوچ قومی جہد کے خلاف ہمیشہ سے ایک قریبی تعاون رہا ہے تاکہ بلوچ تحریک آزادی کو بزور طاقت ختم کیا جاسکے۔
بلوچ سرزمین پر قبضہ سے لے کر بلوچ عوام کے خلاف انسانیت سوز جرائم تک دونوں ریاستیں یکساں طور پہ ملوث رہی ہیں اور ماضی میں دونوں ریاستوں نے بلوچ قوم کے خلاف مشترکہ کا رروائی کی لیکن حالیہ عرصے میں ایران اور پاکستان کے درمیان خطے میں مذہبی ،سیاسی اورمعاشی عزائم کو لیکر جو رسہ کشی شروع ہوئی ہے اس کے نتیجے میں دونوں قابض ریاستوں کے تعلقات میں وقتی طور پر بگاڑ اور کشیدگی کا تاثر ابھرا ہے ۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں دونوں ریاستیں بلوچ قومی جہد کو لے کر ایک نئی اور زیادہ خطرناک پالیسی پہ عمل پیرا ہیں۔
دونوں ریاستیں اپنے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے دونوں ا طراف میں موجود بلوچ تنظیموں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں کھبی انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں کے بلوچ ہوں یا ایران کے خلاف جہد کرنے والے کارکن، اگر ان میں سے کوئی بھی ایک ریاست سے کمک لیکر دوسرے ریاست کے خلاف جد وجہد کرنے والے بلوچ کے خلاف استعمال ہوتو یہ ہمارے نزدیک اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے جسم کے حصے کاٹنے کے مترادف ہے۔
آپسی جنگ سے نقصان بلوچ قوم کا ہوگا اور تاریخ میں اس کی مثال عراقی کردستان کی خانہ جنگی ہے جہاں پر کے ڈی پی اور پی یو کے نے ہمسایہ ممالک کی پراکسی بن کر کردوں کے ہاتھوں سے کرد قتل کروائے جس سے تین سال کے عرصے کے دورا ن آٹھ ہزار سے زائد کرد شہید ہوئے اور بہت سے لوگ آج تک لاپتہ ہیں ۔
بلوچ رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان بلوچ قوم کی سرزمین ہے ، بلوچ قوم مسلمان ، غیر مسلم، سیکولر ، مذہبی افراد ، سوشلسٹ اور اعتدال پسند سمیت مختلف نظریات اور سوچ رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے اور یہ تمام افراد مختلف نظریات اور سوچ رکھنے کے باوجود اپنے وطن کی آزادی کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں، کسی بھی بلوچ کی آزادی کے لیے جہد کو الگ نظریات اور سوچ کی بنا پر رد کرنا نادانی ہوگی ۔
بلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ کروڑوں افراد پر مشتمل قوم فقط ایک ہی نظریہ یا سوچ کے پیروکار ہوں؟ انہوں نے مزید کہا کہ سامراجی طاقتوں نے بلوچستان کو مختلف حصوں میں بانٹ کر علاقوں میں تقسیم کیا اور اب بلوچ قوم میں موجود چند تنظیمیں اپنی محدود سوچ کے ذریعے بلوچستان اور بلوچ قوم کو نظریاتی بنیادوں پر مستقل طور پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح جرمن اور کورین قوم کو صرف نظریات کی بنیاد دپر تقسیم کیا گیا۔
اگر یہی سیاسی رویہ رہا تو ایک آزاد بلوچستان کو کل نظریاتی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے گا جہاں پر مذہبی افراد ، سوشلسٹ، لادین اور قبائلی افراد آزاد بلوچستان کی آئین اور ووٹ کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرنے کے بجائے اپنی سوچ کو ایک دوسرے پر مسلط کرنے کے لیے آزاد ریاست اور قوم کی تقسیم در تقسیم سے اجتناب نہیں کریں گے۔
حیربیار مری نے کہا کہ بلوچستان پر سامراجی طاقتوں کی طرف سے کھینچی گئی گولڈاسمتھ جیسے لکیر کو بلوچوں نے کبھی تسلیم کیا ہے نہ ہی کریں گے ۔ ریاستوں سے برسر پیکار جہد کار پناہ کیلئے بلوچستان کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں ۔
ایران کے خلاف لڑنے والے جہد کار اگر بلوچستان میں پناہ لیں یا سرمچار ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں پناہ لیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بلوچستان ایک ہے یہ ہم سب کا مشترکہ وطن ہے درحقیقت قومی مفادات کو نقصان حکمت عملی کے تحت پناہ لینے سے نہیں بلکہ بلوچستان کو تقسیم کرنے والی مصنوعی لکیروں کی چوکی داری اور قابض ریاستوں کے مفادات کے لیے رضاکار وکرائے کا سپاہی بن کر بلوچ کے خلاف استعمال ہونے سے ہے۔
اگر ان حالات میں دونوں طرف کے جہد کار اپنے ازلی دشمنوں کی پروکسی بن کر آپس میں دست و گریبان ہوئے تو اس سے بلوچ آزادی کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصاں پہنچے گا۔ پہلے یہ دونوں ریاستیں بلوچ جہدکاروں کو استعمال کریں گی اور اس کے بعد تعلقات میں معمولی بہتری کے بعد یہ قابض ریاستیں پھر ایک ہو کر بارگیننگ چپ کے طور پر بلوچ جہدکاروں کا سودا کریں گی ۔
حیربیار مری نے آخر میں کہا کہ بلوچستان کے کسی بھی حصے کی آزادی متحدہ بلوچستان کی آزادی کی نوید ہوگی اسی لیے دونوں ریاستوں کے خلاف برسرپیکار بلوچ اپنی تمام توانائیاں قابض ریاستوں کے خلاف استعمال کریں ۔