|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2017

کمشنر مردم شماریات آصف باجوہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ آبادی میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ افغان غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل یلغار ہے، اسی لئے کوئٹہ شاہراہ پر واقع افغان شہروں میں آبادی کو زیادہ ظاہر کیاگیا۔

اس میں قلعہ عبداللہ ، سرانان ، پشین ، چمن اور کچلاک شامل ہیں، کوئٹہ کی آبادی میں زبردست اضافہ کی سب سے بڑی وجہ افغان غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو دہائیوں سے ہزاروں کی تعداد میں چمن کے راستے بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں۔

ان کا ایک معمولی حصہ واپس وطن جاتا ہے ، زیادہ تر یہ افغان معاشی مہاجر ہیں چونکہ افغانستان میں ہر آنے والے دن میں روزگار کے موقع کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں، اس لئے ایک بہت بڑی آبادی بلوچستان کا رخ کر رہی ہے، کوئٹہ میں بلوچ علاقوں سے بھی لوگ آرہے ہیں۔

اس کی تین وجوہات ہیں ،پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچ علاقے خشک سالی کا شکار رہے ہیں بلکہ اکثر علاقے آج بھی خشک سالی اور قحط کا سامنا کررہے ہیں، گزشتہ سالوں سندھ کے ملحقہ علاقوں میں امن وامان کی صورتحال مخدوش تھی چوری ،ڈاکے ،اغواء برائے تاوان ،سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں ہوتے رہے تو سیکورٹی کی خاطر اکثر خاندانوں نے سندھ کے دیہی علاقوں کو چھوڑا اور بلوچستان کے شہروں کا رخ کیا۔

جہاں سیکورٹی کی صورتحال بہتر تھی ، تیسری وجہ بلوچ تنازعہ کے باعث ریاست اور بعض عناصر کیخلاف کارروائیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے بہت بڑی آبادی نے بگٹی اور مری کے قبائلی علاقے ان سے ملحقہ سبی اور کچھی کے علاقے ،مکران ،آواران ،جھالاوان سے انخلاء ہوا ہے۔

سیکورٹی کی انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظر زیادہ تر لوگ کراچی، سندھ ،پنجاب اور کوئٹہ کارخ کیا، ان تمام علاقوں میں مردم شماری نہیں ہوئی ، اس لئے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے مردم شماری کو یکسر مسترد کردیا، چونکہ بلوچستان میں مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے وہ نواب رئیسانی کی دلیرانہ موقف کی حمایت نہیں کرسکتے ۔

بلوچستان میں مردم شماری کو بلوچ اور پختون کے تنازعہ اور مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہے، بلوچ نے کبھی بھی افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچ سرزمین کا حصہ تسلیم نہیں کیا، مفتوحہ علاقوں کے علاوہ سبی ،لورالائی اور موسیٰ خیل کے بعض علاقے بلوچ سرزمین کا حصہ ہیں۔

اس طرح سے تمام ثقافتی اقلیتیں وسیع بلوچ سماج کا حصہ ہیں، پہلے سازشی عناصر براہوی زبان کو بلوچ سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے، سابق گورنر اویس احمد غنی نے اس کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلائی ، اب اگر آبادی کو شمار کریں تو اس میں براہوی بولنے والے بلوچوں کو بھی شامل کیا جائے۔

اس طرح بلوچ سرزمین کو آبادی کے دباؤ کا کوئی خطرہ نہیں ہے، بلوچ اس بات کے حق میں ہیں کے پختونوں کیلئے متحدہ صوبہ ضروری ہے جس میں افغانستان کے مفتوحہ علاقے جو اس وقت انتظامی طور پر بلوچستان کا حصہ ہیں وہ ضم کرکے پختون صوبہ میں شامل کئے جائیں۔

اگر اس میں دیر ہو تو افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو فاٹا میں ایک ایجنسی کے طور پر شامل کیا جائے، وفاق میں صرف اور صرف بلوچ سرزمین کی نمائندگی ہونی چاہئے، ان افراد کا وفاق میں نمائندگی نہیں ہونی چاہئے، جو بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں، ان میں تمام ثقافتی اقلیتیں شامل ہیں۔

لہٰذا اس کو بلوچ پختون تنازعہ بنانے کی کوشش نہ کریں ، مقتدرہ نے اس سے قبل بلوچستان کی 6سب تحصیلوں کو صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر اضلاع کادرجہ دیا، چند دیہاتوں پر مشتمل شیرانی سب تحصیل کو مولانا شیرانی کی وجہ سے ضلع کادرجہ دیاگیا ۔