شہید سکندر آباد : سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ قوم کو تعلیم وترقی کے نام پر دھوکہ دیا جارہاہے، بلوچ اور پشتون محب وطن ہیں.
حسب روایت جدید سائنسی دور میں بھی بلوچ قوم کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھا جارہاہ ے، تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کو کرپشن اور کمیشن کے سوا کچھ نہیں، آج بھی اگر بلوچ قوم بیدار نہ ہوئی تو پچھتاوا ہمارا مقدر ہوگی ۔
سوراب میں قومی تعمیر وترقی میں تعلیم اور بلوچ نوجوانوں کے کردار کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر ملک ولی کاکڑ، بی این پی عوامی کے آصف بلوچ ، ملک نصیر احمد شاہوانی ، ناصر بلوچ ، رؤف مینگل، طاہرہ احساس ، علی محمد ریکی، میر علی اکبر گرگناڑی، امان اللہ مینگل، حاجی خیر جان ریکی کا خطاب ،گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ قوم کو تعلیم وترقی اور تعمیر کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے۔
تعلیم کے ترقی کے نام پر لفاظی ایمرجنسی کے باتیں ہورہے ہیں مگر میدان میں عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا ، البتہ تعلیم کی منزلی تعلیمی پسماندگی جہالت ناخواندگی کے فروغ میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اس جدید سائنسی ٹیکنالوجی دور میں بلوچ قوم تعلیم جیسے زیور سے محروم ہے، ماحول ایسا بنایا ہے کہ لوگ تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں، جس کے تحت یہاں کے ساحل وسائل کو بے دریغ لوٹا جارہا ہے، بلوچ اور پشتون کسمپرسی کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، آج بلوچ اور پشتونوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہاہ ے، بلوچ اور پشتون ملک دوست اور وطن دوست ہیں۔
تعلیم کے ذریعے ترقی سے انکار ممکن نہیں ہمارے لوگوں کو کھانے کیلئے روٹی نہیں ، صاف پانی پینے کا دستیاب نہیں، ایسے میں ہمارے بچے کیسے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، قوم کو از خود بیدار ہونا ہوگا، تعلیمی ترقی کیلئے اداروں کا ہونا لازمی ہے، ہمارے تعلیمی ادارے تباہی کے دیہانے پر ہیں۔
ہم سب کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، نوجوانوں کو تعلیمی میدان میں بھر پور کردارادا کرنا چاہئے، جتنے بھی پیغمبر آئے سب نے تعلیم اور علم کی دعوت دی ہے، صوبے میں پندرہ ہزار سکولوں میں پینے کے پانی نہیں، بیس ہزار سکولوں میں لیٹرین اور پچیس ہزارسکولوں میں چار دیواری تک نہیں۔
بجٹ میں مختص تعلیم کیلئے رقم کہاں خرچ ہورہے ہیں، آپس کے اختلافات سے بالاتر ہو کر تعلیمی پسماندگی جہالت ناخواندگی کے دلدل سے نکالنا ہوگا، ہمیں اسلام آباد کے ساتھ احتساب کرنا چاہئے، ہم وہ ترقی چاہتے ہیں جس میں ہمارے قومی تشخص نفس محفوظ ہو تعلیم کے ترقی کیلئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو کردار ادا کرنا چاہئے