اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کی ٹیم کے رخائن ریاست کے ان کے دورے کو بغیر وجہ بتائے اچانک منسوخ کر دیا ہے۔
پچیس اگست کو رخائن ریاست میں روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے مبینہ طور پر حملوں کے بعد سے شروع ہونے والی فوجی کارروائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد اور نقل مکانی کے بعد اقوامِ متحدہ کا علاقے کا یہ پہلا دورہ ہوتا۔
میانمار فوج کی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی کے بعد وہاں موجود اقوامِ متحدہ کی امدادی کارکنوں کو جبراً نکال دیا گیا تھا۔
رنگون میں اقوامِ متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومت کی جانب سے اس دورے کی منسوخی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
پچیس اگست سے لےکر اب تک تقریباً چار لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان میانمار سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
سرحد عبور کرنے والے روہنگیا کا کہنا ہے کہ بودھ مشتعل ہجوم اور میانمار کی فوج مار پیٹ اور تشدد کی انتہائی وحشیانہ کارروائیوں اور ان کے دیہات کو آگ لگا کر ان کی آبادی کو نکالنا چاہ رہے ہیں۔ صحافیوں کی جانب سے لی گئی تصاویر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ بہت سے دیہات کو آگ لگائی گئی ہے۔
تاہم فوج کا موقف ہے کہ وہ صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس ہفتے کے آغاز میں ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے 45 ہندؤوں کی ایک اجتماعی قبر ملی ہے۔
رخائن میں حالات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ وہاں تک رسائی کو انتہائی محدود رکھا گیا ہے۔پچیس اگست کے بعد سے روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیںان تصاویر میں شمالی رخائن میں فوجی آپریشن کے دوران جلائے گاؤں کی تباہی کا منظر دیکھا جا سکتا ہے
تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش بھاگ کر جانے والوں کے علاوہ رخائن میں ہی بہت سے لوگوں بے گھر ہیں اور لاکھوں کو خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
روہنگیا اقلیت میں زیادہ تر مسلمان شامل ہیں اور انھیں میانمار شہریت نہیں دیتا اور انھیں غیر قانونی تارک وطن قرار دیتا ہے۔ رخائن میں بودھ لوگوں کی اکثریت ہے اور ماضی میں بھی یہاں مذہبی فسادات ہوتے رہے ہیں۔
بدھ کے روز اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیوفن دوجارک نے کہا تھا کہ اس دورے پر اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے سربراہان شرکت کرنے والے ہیں اور انھیں امید تھی کہ یہ اس علاقے تک قدرے آزادانہ رسائی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اس معاملے پر بحث کرنے کے لیے نیو یارک میں اجلاس بلا رہی ہے۔
میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو عالمی برادری کی جانب سے ان کی حکومت کے اس معاملے پر رویے کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جمعرات کو برطانوی وزیرِ خارجہ مارک فیلڈ نے ان سے ملاقات کی اور ان سے استدعا کی کہ وہ رخائن میں تشدد ختم کرنے کی کوشش کریں۔