|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان کی مذہبی وسیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صوبائی امیر اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولانا علی محمد ابو تراب اور انکے ساتھیوں کے اغوا ء کو پورے صوبے کیلئے المیہ قراردیا ہے ۔

انکی باحفاظت بازیابی اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت اور اداروں سے کرداراد کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہاہے کہ امن وامان کی مخدوش صورتحال میں بہتری اور بدامنی کے واقعات کی روک تھام کیلئے مشترکہ اور دیر پا لائحہ عمل طے کیا جائے ۔

یہ بات مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر وسینیٹر علامہ ساجد میر ،سابق نگراں وزیراعلی بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی ،نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ،سابق اسپیکر سید مطیع اللہ آغا ،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء وڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمر ک خان اچکزئی ،جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی مولوی معاذ اللہ ،جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ،نیشنل پارٹی کے رہنماء نصیراحمد شاہوانی ،مولانا عبدالرحیم رحیمی ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء ساجد ترین ایڈوکیٹ ،پاکستان پیپلز پارٹی کے ربانی کاکڑ ،مولانا عبدالرزاق خارانی ،سردار تیمور شاہ موسی خیل ،انجمن تاجران کے رہنماء حضرت علی اچکزئی ،عبدالرحیم کاکڑ ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رضا وکیل ،وزیراعلی کے کواڈینیٹر علاو الدین کاکڑ ودیگر نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس وقبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر وسینیٹر علامہ ساجد میرنے کہاکہ مولانا علی محمد ابو تراب کا واقع افسوس ناک ہے ہمیں بہت سے لوگوں پر شکوک وشبہات ہیں کہ وہ ان کے اغواء میں ملوث ہیں لیکن مجھے اپنے دوست اور بھائی کی خیریت اور جان عزیز ہیں اس لئے میں کسی پر وثوق سے الزام عائد نہیں کرونگا ۔

انہوں نے کہاکہ اغواء برائے تاوان پورے ملک اور خصوصاً کا بلوچستان مسئلہ ہے جبری گمشدگیاں ہوں اغواء ہوں یا مسخ شدہ لاشیں ہوں یہ کام کوئی بھی کریں خواہ وہ ادارے ہوں یا جرائم پیشہ افراد ہوں یہ تمام ذمہد اری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کا تدراک کرے انہوں نے کہاکہ حکومت اور ادارے اغواء کاروں کے مقابلے میں کمزور ہیں اس کا دیر طلب حل نکالنا چاہیے میرے خیال میں جس دن ملک میں سول حکومت طاقت ور اور مضبوط ہوگی ایسے واقعات خود بخود کم ہوجائیں گے ۔

سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت یا ایک دوسرے سے سیاسی جنگ ووٹ او رانتخابات میں لڑیں نہ کہ اداروں کو اس میں ملوث کرے جب منتخب حکومتوں کو گرانے کیلئے فوج میں کو اقتدار میں لایا جائے گا اور فیصلہ کن کردارا دا کرنے کا کہاجائیگا او رہم ان کی طرف دیکھیں گے تو اس سے حکومتیں کمزور ہوتی ہے جس دن ہم نے یہ کام ترک کیا اور سیاسی جنگ آپس میں انتخابات او رووٹ سے لڑی اس دن پاکستان میں جمہوریت کی ایک مضبوط بنیاد رکھ دی جائے گی ۔

انہوں نے کہاکہ سول حکومت کی بالادستی تمام مسائل کا حل ہیں ہمیں ایک نیا میثاق جمہوریت لانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہیں انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جو بھی عناصر مولانا علی محمد ابو تراب انکے ساتھیوں اور دیگر افراد کی گمشدگیوں اور اغواء میں ملوث ہیں حکومت انہیں بازیاب کروائے اور یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق نگراں وزیراعلی نواب غوث بخش باروزئی نے کہاکہ ہمیں کئی دہائیوں سے قبائلیت یا ذاتی دشمنیوں میں الجھادیا گیا ہے جس کے بعد جرائم پیشہ عناصر مضبوط ہوئے اور معاشرے میں جرائم بڑھ گئے ہیں ریاست کو چاہیے کہ وہ عوام کو محفوظ ماحول فراہم کریں جبکہ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر باہمی مشاورت سے ایک لائحہ عمل طے کریں ۔

نوابزادہ میر حاج لشکری رئیسانی نے کہاکہ بلوچستان سے جنتے بھی لوگ اغواء یا گمشدہ ہوئے ہیں ان سے اظہار ہمدردی کرتاہوں جب بااختیار لوگ بے اختیار ہوجاتے ہیں تو لوگ احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں جن لوگوں کو ریاست نے امن وامان کی ذمہ داری سونپی ہے وہ اپنی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کو جو لوگ اغواء کرنے آئے تھے اور بعد میں جرگے بھیج رہے تھے وہ سب کو معلوم ہیں زور آور لوگ ہمارے محافظ نہیں ہے اگر آج ہم نے اس پر آواز بلند نہیں کی تو کل کوئی اور اغواء ہوگا ۔

ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ پوری دنیا میں اغواء کے واقعات ہوتے ہیں لیکن گزشتہ 15سال سے بلوچستان میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں مولانا علی محمد ابو تراب کا اغواء ایک خاندان یا پارٹی نہیں بلکہ پورے صوبے کیلئے دلخراش واقع ہے آخر کب تک حکومت ایسے خاموش رہے گی صوبائی حکومت ساڑھے چار سال سے اسمبلی میں فنڈز پر جھگڑرہی ہے جب حکومت مضبوط ہوگی تو ادارے مضبوط ہونگے حکومتی ارکان خود تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت ناکام ہے تو پھر استعفی کیوں نہیں دے ۔

دیتی بیس دن میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اغواء کار کون ہیں اور مغوی کہاں ہیں ۔سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اللہ آغا نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام نے مولانا علی محمد ابو تراب اور انکے ساتھیوں کیلئے ہرفورم پر آواز اٹھائی جہاں واقع رونما ہوا اور اس وقت کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج ہی غائب ہیں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغویوں کو بازیا ب کروائے جمعیت علماء اسلام آل پارٹیز کانفرنس سے تمام فیصلوں کی حمایت کرتی ہے ۔

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہاکہ صوبہ دلخراش واقع کے بعد غم میں مبتلا ہیں اہل بلوچستان اغواء کی پے درپے واقعات سے قرب میں مبتلا ہیں جہاں بااختیار لوگ بے بس ہوں تو یہ بات لمحہ فکریہ ہے ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے رہنما ساجد ترین ایڈوکیٹ ،پیپلز پارٹی کے ربانی کاکڑ ،ایچ ڈی پی کے رضا وکیل ،سردار تیمور شاہ موسی خیل ،مولانا عبدالرزاق خارانی ،علاو الدین کاکڑ ،نصیر شاہوانی ،عبدالرحیم کاکڑ ودیگر نے کہاکہ مولانا علی محمد ابو تراب کے اغواء کا معاملہ تمام سیاسی پارٹیوں وقبائل اور صوبے کے باشندوں کیلئے تشویش کا باعث ہے سیاسی جماعتوں اس معاملے پر واضح الفاظ میں آواز بلند کرنی ہوگی ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے ۔

بلوچستان کا کوئی بھی شہری اپنے آپکو محفوظ محسوس نہیں کرتا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مغویوں کو باحفاظت بازیاب کروایا جائے ۔اس موقع پر کانفرنس کا اعلامیہ اور قرار داد بھی پیش کی گئی جس میں کہاگیا کہ آل پارٹیز کانفرنس او رقبائلی جرگہ میں شریک تمام سیاسی جماعتیں ،قبائلی عمائدین ودیگر مولانا علی محمد ابو تراب کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت اور ادارے اپنا کردار ادا کریں ۔امن وامان کے مخدوش صورتحال میں بہتری اور افسوس ناک واقعات کی روک تھام کیلئے مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری کے بارے میں سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی کے افراد کے درمیان رابطوں کو بہترکرنا ہوگا ۔

مولانا علی محمد ابو تراب کے اغواء کی جتنی مذمت کی جائے کم ہیں مغویوں کی عدم بازیابی کی صورت میں مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے اسے حکومت اور اداروں تک پہنچایا جائے گا ۔

امن کی بحالی اور مغویوں کو بازیاب کرنے کیلئے اجتماعی تحریک کی بابت کوشش ہونی چاہیے ۔کامیاب شٹراڈاؤن ہڑتال اس بات کی غمازی ہے کہ عوام مولانا علی محمد ابوتراب اور دیگر کے اغواء کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حکومت قیام امن کیلئے کردار ادا کریں ورنہ اسکے پاس حق حکمرانی نہیں ہوگا ۔

سیاسی ومذہبی جماعتیں اورقبائلی شخصیات عوام کے درمیان تفروکات کے خاتمے کیلئے کردارا دا کریں اور موجودہ حالات کے پیش نظر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا ورنہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔مولانا علی محمد ابو تراب ایک محب وطن شخیصت انکا اغواء لمحہ فکریہ ہے اعلامیہ اور قرار ادا کو کانفرنس کے شرکاء نے منظور کرلیا گیا ۔

دریں اثناء مرکزی جماعت اہل حدیث کے مرکزی امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے تمام سیاسی جماعتوں پر زوردیاہے کہ وہ نئے میثاق جمہوریت لانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو،جب تک سیاسی جماعتیں ،عوام ،جمہوریت اور ووٹرز کی بجائے اداروں کی طرف دیکھیں گے اس وقت تک سویلین حکومت مضبوط نہیں ہوگی ،اغواء برائے تاوان ہو یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ سمیت دیگر کا حل حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے مرکزی جماعت اہل حدیث بلوچستان کی جانب سے مولانا محمد علی ابو تراب کی ساتھیوں سمیت اغواء اور عدم بازیابی کے حوالے سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس وقبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سینیٹرپروفیسر ساجد میر نے تمام سیاسی ،مذہبی ،قوم پرست جماعتوں ،تاجر تنظیموں اور قبائلی شخصیات کا اے پی سی اور جرگے میں شرکت سمیت مولانا علی محمد ابو تراب کی اغواء کے بعد کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال پر شکریہ ادا کیا اور کہاکہ ان کے دست راست اور مرکزی جماعت اہل حدیث بلوچستان کے امیر مولانامحمد علی ابو تراب کی اغواء کے نشانات اور اشارے کئی اطراف کو جاتے ہیں ۔

لشکر ی رئیسانی سمیت بعض دیگر رہنماؤں کا کہناہے کہ میں اغواء کاروں کی نشاندہی سمیت دیگر پر کھل کر بات کروں ،مولانا علی محمد ابو تراب کا اغواء پورے ملک اور خاص کر بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے ،ویسے تو ملک کے تمام صوبوں میں ناانصافی اور زیادتیاں ہوتی رہی ہے تاہم بلوچستان میں اس کے زیادہ اثرات نظر آتے ہیں ہمیں اغواء برائے تاوان ،جبری گمشدگیوں سمیت دیگر مسائل کا ایک جامع حل ڈھونڈنا ہوگا اگر چہ جامع حل موجود ہیں تاہم اس پر عمل کرنا آسان کام نہیں۔

انہوں نے کہاکہ اغواء برائے تاوان ہو یا پھر جبری گمشدگیوں سمیت امن وامان کی مخدوش صورتحال سے متعلق سب سے پہلی ذمہ داری حکومتوں کی بنتی ہے کہ وہ ان لوگوں کو پر ہاتھ ڈالیں جو اس میں ملوث ہے ۔

انہوں نے کہاکہ سچ یہ ہے کہ حکومتیں ،اغواء کاروں اور اداروں کے مقابلے میں کمزور ہے یہ ایک دیرپا اور دیر طلب منصوبہ ہے جس دن سول حکومت صحیح معنوں میں طاقت اور مضبوط ہوگی حالات میں بہتری کے اثرات سب محسوس کرینگے ۔