|

وقتِ اشاعت :   October 12 – 2017

گوادر سی پیک کا مرکز ہے پورٹ سٹی اور جغرافیائی لحاظ سے سینٹرل ایشیا کا تجارتی گیٹ وے بھی ہے۔نہ صرف بلوچستان کی سیاسی حلقوں کے لئے بلکہ ملکی سیاسی حلقوں کے لئے گوادر کی صوبائی نشست حلقہ پی بی 51نہایت اہم تصور کی جاتی ہے ۔

2018 کے ممکنہ الیکشن جوں ہی قریب آتے جارہے ہیں سیاسی پارٹیاں اس نشست پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ اور کہا جارہا ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد عوام سے دور رہنے والے گوادر کے نمائندے ایک بار پھر عوام کو سبز باغ دکھانے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔

تاریخی طورپر یہ نشست گوادر کے تین سیاسی خاندانوں کے پاس رہی ہے۔1985کے غیر جماعتی انتخابات سے 2013کے عام انتخابات تک یہاں تین خاندان کے لوگ کامیاب ہوتے آرہے ہیں جو کبھی سیاسی حلیف تو کبھی حریف ہوکر بھی یہ نشست اپنے پاس رکھتے آرہے ہیں۔

1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں گوادر دو صوبائی نشستوں پر مشتمل تھا جہاں سیدداد کریم اور میرعبدالغفور کلمتی کامیاب رہے۔1988 او ر90 کے عام انتخابات میں اشرف حسین یہاں سے منتخب ہونے کے بعد وزیر فشریز رہے۔

1993میں سیدخاندان کے سید شیرجان بلوچ یہاں سے کامیاب ہوئے، 1997میں ایک بار پھر میری عبدالغفور منتخب ہوکر وزیر کھیل و ثقافت رہے۔ 2002کے انتخابات میں یہ نشست سید شیرجان بلوچ نے جیتی۔ 2008کے الیکشن میں بلوچستان میں قوم پرست حلقوں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد میرحمل کلمتی منتخب ہوکر وزیر فشریز رہے جبکہ 2013میں بھی یہ نشست میری حمل کلمتی کے پاس رہا۔

گوادر کی صوبائی نشست زیادہ تر کلمتی خاندان کے میرعبدالغفور کلمتی اور انکے نوجوان بیٹے میرحمل کلمتی کے پاس رہاہے یعنی باپ بیٹا دو دو مرتبہ یہاں سے منتخب ہوئے جبکہ میر عبد الغفور کلمتی گوادر کے ضلعی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔

2013 کے انتخابات میں میرحمل کلمتی بی این پی میں شامل ہوگئے جہاں ماضی کے حریف سید عیسیٰ نوری کے ساتھ ملکر گوادر کی صوبائی نشست پر کامیاب رہے اور کیچ کم گوادر کی قومی نشست بھی بی این پی کے سید عیسیٰ نوری کے پاس رہا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کیچ کم گوادر کی نشست گوادر کے پاس رہا۔

گوادر پر حکمرانی کرنے والوں نے آج تک گوادر کے عوام کو سیاسی نعروں کے ذریعے دھوکے میں رکھا کیونکہ یہ لوگ منتخب ہونے کے بعد پھر دوبارہ عوام کے پاس جانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ علاقے کے عوام سے ملنا دور کی بات انکی شکایات تک نہیں سنتے ۔۔۔۔باوجود اس کے آج بھی گوادر کے عوام کی تقدیر نہ بدل سکی۔

سی پیک کے شہر میں آج بھی پینے کے لئے پانی نہیں۔کرپشن اور اقربا ء پروری عروج پر ہے۔ پسنی فش ہاربر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے مقامی نوجوانوں کی ملازمت اور ترقیوں کو روکا جارہا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے رشتہ ختم کرنیوالے نمائندے اب پھر باہر نکل آئے ہیں۔۔

لوگ منتخب نمائندوں کی دیدار کو ترس رہے ہیں، گوادر کی نشست پر اس مرتبہ توقع ہے کہ نیشنل پارٹی مضبوط امیدوار کے ساتھ مخالفین کو ٹف ٹائم دے گا۔

مقامی سیاسی ذرائع اس حوالے سے کہتے ہیں کہ نیشنل پارٹی کے مقامی قائدین نے عوامی مسائل کے حل کیلئے ہر فورم پر عوام کا ساتھ دیا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گوادر کے منتخب نمائندے چونکہ عوام کی بجائے چند مخصوص لوگوں کو نوازنے میں لگے ہوئے ہیں اورعام لوگوں کے لئے ان سے ملاقات کرنا بھی ناممکن رہاہے اور عوام کے لئے انکے دروازے گزشتہ کئی عرصے سے بند ہیں۔

جبکہ انکے مقامی قائدین بھی عوام سے دور ہونیکی وجہ سے نیشنل پارٹی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس وقت گوادر میں پارٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنیوالا والے انتخابات میں نیشنل پارٹی گوادر میں ٹف ٹائم دے گا جبکہ دوسری جانب بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل کی اتحاد کے حوالے سے بھی خبریں آرہی ہیں اور اگر انکا اتحاد ہوگیا تو پھر نیشنل پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔

مگر دوسری جانب مقامی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیا گوادر کی سیاسی تاریخ بدلے گی یا پھرانہی تین خاندانوں میں سے کسی ایک کی کامیابی متوقع ہے کیونکہ نیشنل پارٹی کے میراشرف حسین اور بی این پی مینگل کے میرحمل کلمتی اس وقت سیاسی دوروں پر ہیں اور بی این پی عوامی نے بھی الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے۔۔۔۔

گوادر کی نشست میں چند اہم شخصیات کے ووٹ اہم رول ادا کرتے ہیں اور اب تک ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوادر ضلع کی چند اہم شخصیات نے اب تک باقاعدہ طور پر کسی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔

سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اورماڑہ کے سیاسی ماحول میں سید مہیم جان کی حمایت کسی بھی امیدوار کی جیت میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔۔۔۔گوادر میں بی این پی مینگل کی عوامی پذیرائی میں مسلسل کمی کے باوجود مقامی قائدین اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے آرہے ہیں۔۔۔۔۔