زند اکیڈیمی نوشکی کے زیر اہتمام بلوچی زبان و ادب کے نامور دانشور پروفیسرعبداللہ جان جمالدینی کی پہلی برسی کے مناسبت سے نوشکی کے ٹاؤن ہال میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں مقررین نے عبداللہ جان جمالدینی کی ادبی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جبکہ عبداللہ جان جمالدینی پر یار جان بادینی کا مرتب و تدوین کردہ بلوچی زبان میں کتاب کی تقریب رونمائی بھی کی گئی ۔
بلوچی زبان میں عبداللہ جان جمالدینی کی شخصیت پر ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر کوئی عبداللہ جان جمالدینی پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کیلئے یہ کتاب بہت مددگار ثابت ہوگی کیونکہ اس کتاب میں عبداللہ جان جمالدینی کے فن و شخصیت پر کافی مواد موجود ہے ۔ اس تقریب کی صدارت بلوچ محقق و دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کی جبکہ اس ادبی تقریب کے مہمان خاص عبداللہ جان جمالدینی کے قریبی دوست سرور آغا تھے ۔
تقریب میں شرکت کرنے کیلئے کوئٹہ سے خصوصی طور پر ڈاکٹر شاہ محمد مری ، سرور آغا، معروف صحافی سلیم شاہد ، ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو ، پروفیسر جاوید اختر، وحید ظہیر ، نور خان محمد حسنی ، مبارک علی بلوچ ، عابد میر اور منیر عیسیٰ بلوچ خصوصی طور پرنوشکی تشریف لائے تھے۔
صدر مجلس ڈاکٹر شاہ محمد مری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بڑے آدمی کے جانے کے خلاء بہت بڑا ہوتا ہے ۔ یہ خلا آسانی سے پُر نہیں ہوتا۔ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔ عبداللہ جان جمالدینی کے جانے کا اصل نقصان یہ ہے کہ وہ اس رہنما نسل کے آخری نمائندہ تھے اب ہم نے اپنی رہنمائی خود کرنی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں، ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اور تنظیم کاری کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوشکی کے سرزمین بہت زرخیز ہے، نوشکی نے بہت سے نامور شخصیات پیدا کئے ہیں جن میں عبداللہ جان جمالدینی ، آزات جمالدینی ، میر گل خان نصیر اور بہت سارے دوسرے نام شامل ہے ، اور اگر نوشکی کو بلوچی زبان و ادب کا وٹیکن سٹی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
پروگرام کے مہمان خاص سرور آغا نے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی پر بات کرنا چھوٹا منہ بڑی بات کی مانند ہے وہ ایک ایسا شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہمیشہ انسانوں کو اپنی چھاؤں سے فیض یاب کیا۔
وحید ظہیرنے عبداللہ جان جمالدینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی ایک ادارہ تھے جنہوں نے کئی نسلوں کی تربیت کی اور ان کا یہ پیغام آج شاہ محمد مری اور یار جان بادینی کی صورت میں زندہ ہے اور جاری رہے گا۔
نور خان محمد حسنی نے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی ایک ایسا سائبان تھے جن کی چھاؤں کا احساس اس کے چلے جانے کے بعد ہوا۔ لیکن زند اکیڈیمی کے اس پروگرام کو دیکھتے ہوئے کہ عبداللہ جان جمالدینی کا ادبی فکر جاری ہے ۔
پروفیسر جاوید اختر نے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی بنا کسی تعصب کے انسانوں کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ۔ ان کا پیغام اسی صورت مکمل ہوگا جب ہم ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام عمل میں لائیں گے۔
نامور صحافی سلیم شاہد نے عبداللہ جان جمالدینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی زبان وادب کے حوالے سے ایک بڑے دانشور تھے عبداللہ جان جمالدینی سے میری ملاقاتیں کم رہی لیکن ان سے پیر و مُرشد جیسا رشتہ رہا ۔ ہمیشہ ان کی محفل میں بہت کچھ سیکھا نوشکی میں زند اکیڈیمی کا ادبی ریفرنس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نوشکی زبان و ادب کے حوالے سے ایک زرخیز سرزمین ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یار جان بادینی نے عبداللہ جان جمالدینی پر ایک اچھی کتاب شائع کی ہے اب ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کتاب کو اردو اور انگریزی زبانوں میں بھی شائع کریں تاکہ جو لوگ بلوچی نہیں پڑھ سکتے ان کیلئے آسانی ہو۔
ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی ایک عہد کا نام ہے جو ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی شروع ہوا ہے ان کے اثرات آئندہ کی نسلوں تک جاری رہیں گے ۔ انہوں نے زند اکیڈیمی نوشکی اور خاص طور پر یار جان بادینی کی کوششوں کو سراہا کہ انہوں نے عبداللہ جان جمالدینی پر ایک تحقیقی کام کر کے اپنا فرض پورا کیا ۔ نوائے وطن ، بلوچی کے ایڈیٹر منیر عیسیٰ نے کہا کہ ہماری نسل کا شاہد ہی کوئی انسان ہوگا جس کی تربیت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ عبداللہ جان جمالدینی کا ہاتھ نہ رہا ہو۔
انہوں نے زند اکیڈمی کی کاوشوں کو سراہا کہ نوشکی جیسے علاقے میں ادبی ریفرنس کر کے نوجوانوں کو عبداللہ جان جمالدینی اور اس کے ہم عصر ادیب اور دانشوروں کے بارے میں معلو ما ت فراہم کئے ۔
بلوچی زبان کے نامور افسانہ نگار مبار ک علی بلوچ نے موجودہ دور کے کرپٹ سیاست کو رد کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی نے بطور نائب تحصیلدار اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا کہ عوام کی حق تلفی ہو رہی ہے ۔
انہو ں نے بلوچستان میں عبداللہ جان جمالدینی کو نظریاتی سیاست کا سرخیل قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نیشنلزم کا ذکر پہلی بار ان کی زبان سے سنا ایسا لگتا ہے نظریاتی سیاست عبداللہ جان جمالدینی کے ساتھ دفن ہوا۔ اب ہر طرف اقرباء پروری، بدعنوانی اور سفارش کا بازار گرم ہے ۔
عابد میر نے عبداللہ جان جمالدینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سنگت اکیڈیمی اپنے پیش رو کے نام پر ہمہ وقت ہر جگہ ہر نوع کے تعاون کیلئے حاضر ہے ۔ آخر میں زند اکیڈیمی کے طرف سے یا رجان بادینی نے تمام مقررین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا کہ وہ کوئٹہ سے خصوصی طورپر اس تقریب کیلئے نوشکی تشریف لائے اور ہماری حوصلہ افزائی کی ۔
انہوں نے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی کے کہنے پر میں نے نوشکی سے اکتوبر 1999 ء سے ماہنامہ ’’بلوچی زند ‘‘ کا پہلا شمارہ نکالا تھا ۔ اگر چہ اس وقت ڈیکلریشن لینا ایک بڑا مسئلہ تھا حتیٰ کہ میں ڈی سی چاغی کو پریس آرڈیننس لاکر دیا تھا ۔
بڑے مشکلات کے بعد مجھے ماہنامہ ’’ بلوچی زند‘‘ کا ڈیکلریشن ملا تھا ۔ جس پر عبداللہ جان جمالدینی بہت خوش ہوئے تھے ۔ ان کا خیال تھاکہ بلوچستان کے ہر شہر سے بلوچی زبان میں رسالے شائع ہوں تاکہ ان کے درمیان مقابلہ ہو اور بلوچی زبان کو فروغ حاصل ہو ۔
ماہنامہ بلوچی زند کے ادارے نے گزشتہ اٹھارہ سال میں چالیس خاص شمارے نکالے ہیں جس میں میر گل خان نصیر ، آزات جمالدینی ، عطاء شاد، سید ظہور شاہ ہاشمی ، غفا رندیم ، حاجی عبدالقیوم ، عنایت اللہ قومی ، غلام محمد شاہوانی ، یوسف عزیز مگسی ، ملک محمد پناہ ، محمد حسین عنقاء ، غوث بخش بزنجو، محمد بیگ بیگل اور بہت سارے دوسرے ادیب اور شائر شامل ہے جنہوں نے بلوچی زبان و ادب کی ہر طرح سے خدمت کی ۔
علاوہ ازیں تقریب کا آغاز عبداللہ جان جمالدینی سے متعلق یا رجان بادینی کی مرتب کردہ کتاب کی رونمائی سے ہوا جسے تمام مقررین نے ہاتھوں میں اٹھا کے شرکاء کے سامنے اس کی رونمائی کی بعد میں لطیف الملک بادینی کے درخواست پر ادباء نے میر گل خان نصیرلائبریری کا دورہ کیا ۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لائبریری کو اپنے ایک ہزار کتابوں کا تحفہ دینے کا اعلان کیا اس کے بعد ادبی وفد نے میر گل خان نصیر ان کی اہلیہ ، صاحبزادی اور میر عاقل خان مینگل کے قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھے ۔ اس کے بعد کلی سردار بادینی میں یار جان بادینی کی طرف سے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا ۔ جس میں زند اکیڈیمی نوشکی کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی ۔
اس کے بعد وفد نے عبدالواحد آزات جمالدینی کے قبر پر فاتحہ پڑنے کی خواہش ظاہر کی چونکہ راستہ خراب ہونے کی وجہ سے آزات جمالدینی کے قبر پر فاتحہ نہ پڑھ سکے اور سیدھے کلی بَٹو گئے جہاں پر عبداللہ جان جمالدینی اور ان کی اہلیہ کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑا اور پھر کوئٹہ کیلئے روانہ ہو ئے ۔
تقریب کے آغاز میں حق نواز شاہ نے تلاوت کلام پاک کی اور نظامت کے فرائض براہوئی زبان کے نامور شاعر ڈاکٹر عالم عجیب نے انجام دئیے۔ یاد رہے جب ادیب اور دانشوروں کا وفد کوئٹہ سے نوشکی پہنچا تو نوشکی میں زند اکیڈیمی کے چےئرمین عبدالباری بلوچ، منظور عالم ، ڈاکٹر عالم عجیب اور دوسرے دوستوں نے نوشکی پہنچنے پر استقبال کیا تھا۔