|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سابق سینیٹر ثناء بلوچ نے سیندک سے متعلق چینی کمپنی کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں پانچ سال کی توسیع کو چیلنج کردیا۔ 

بلوچستان ہائی کورٹ نے آئینی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومت اور چینی کمپنی کو نوٹسز جاری کردیئے۔ وفاقی کابینہ نے گزشتہ ماہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع سیندک کاپر گولڈ پراجیکٹ کے لیز معاہدے میں مزید پانچ سال کی توسیع کی منظوری دی تھی۔ 

بی این پی کے سابق سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے ایڈووکیٹ نوید بلوچ کے توسط سے معاہدے میں توسیع کے اس فیصلے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔انہوں نے اپنی آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ قدرتی وسائل سے متعلق منصوبوں کے معاہدے کرے۔ اس ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے چینی کمپنی کو معاہدے میں پانچ سال کی توسیع دینا غیر قانونی عمل ہے۔ 

صوبائی حکومت نے جنوری میں فیصلہ کیا تھا کہ اکتوبر 2017ء میں چینی کمپنی سیندک میٹل لمیٹڈ کے ساتھ دس سالہ معاہدہ ختم ہونے پر نئے معاہدے کیلئے عالمی سطح پر بولی دی جائے گی لیکن اب خاموشی سے معاہدہ کرکے بلوچستان کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

قومی نوعیت کے اس اہم منصوبے کے لئے عالمی سطح پر بولی طلب کرنے کی بجائے خاموشی سے پرانے معاہدے میں پانچ سال کی توسیع کرکے طے شدہ اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے ، بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کو معاہدے میں توسیع کی این او سی دے کر صوبے کے عوام کے مفادات کا سودا کیا ہے۔ 

درخواست میں وفاقی حکومت، بلوچستان حکومت، چیف سیکریٹری بلوچستان، سیکریٹری معدنیات اور چینی کمپنی ایس ایم ایل کو فریق بنایا گیا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔ 

درخواست کی آئندہ سماعت 26اکتوبر کو ہوگی۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک کے مقام پر 1970ء میں کاپر کی دریافت ہوئی اور حکومت پاکستان نے 1995ء میں ساڑھے تیرہ ارب روپے کی لاگت سے سیندک میٹل لمیٹڈ کے نام سے کمپنی بنائی۔ 

اس منصوبے کو چلانے کیلئے 2002ء میں حکومت پاکستان اور چینی کمپنی ایم سی سی کے درمیان دس سال کیلئے ففٹی ففٹی منافع کی بنیاد پر معاہدہ ہوا۔ 2012ء میں یہ معاہدہ ختم ہوا تو اس میں مزید پانچ سال کی توسیع کر دی گئی تاہم بلوچستان کو 2002ء سے 2009ء تک حکومت پاکستان کے حصے سے صرف پانچ فیصد رائلٹی ملی۔ 

اسی لئے قوم پرست اس منصوبے کو صوبے کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 2010ء میں آغاز حقوق بلوچستان پیکج میں سیندک منصوبے کو صوبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ وفاق کے شیئرز میں سے تیس فیصد آمدنی بلوچستان کو دی جائے گی۔ 

صوبے کو اس فیصلے کے بعد 2010ء سے 2013ء تک چار ارب 36 کروڑ روپے ملے مگر اس کے بعد اس رقم پر انکم ٹیکس کے نفاذ سے یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا اور صوبے کو دو سال سے کوئی رقم نہیں ملی۔