کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلہ کان میں پھنسے مزید چھ کانکنوں کی لاشیں نکالی لی گئیں۔جاں بحق کانکنوں کی تعداد آٹھ ہوگئی جبکہ مزید ایک کانکن گزشتہ دو اڑتالیس گھنٹوں سے سولہ سو فٹ گہرائی میں پھنسا ہوا ہے۔
لیویز کے مطابق ہرنائی کی تحصیل شاہرگ میں جمعرات کی شام چار بجے کے قریب پہاڑ کا ایک حصہ بیٹھنے کے بعد تین مختلف کوئلہ کانوں میں مٹی کے تودے گر گئے تھے جن میں مجموعی طور پر اب تک آٹھ افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ ایک کانکن اب تک کان میں پھنسا ہوا ہے۔
تفصیل کے مطابق تودے گرنے سے عبیداللہ کول مائنز کمپنی میں دو کانکن پھنسے جن میں سے افغانستان کے رہائشی محمد عمر ولد عبدالحکیم کومردہ حالت میں نکالا گیا جبکہ ایک کانکن کو زخمی حالت میں زندہ باہر نکالا گیا۔
اسی طرح صمد کول مائنز کمپنی کی کان میں تودے گرنے سے ملبے تلے دب کر سوات کا رہائشی کانکن حضرت حسن ولد مرزا خان کی موت ہوگئی۔ ان کی لاش جمعہ کو نکال لی گئی۔
تیسرا حادثہ الگیلانی کول مائنز کمپنی کی کان میں پیش آیا جہاں ملبے تلے دب کر دو کانکن پھنس گئے۔
ساتھیوں کو بچانے کیلئے گہری کان میں اترنے والے آٹھ کانکن بھی تودے گرنے سے پھنس گئے جن میں سے تین کانکنوں عمران، باچا اسلام اور امین اللہ کو زخمی حالت میں نکال لیا گیا جبکہ باقی سات کانکن تقریبا سولہ سو فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے۔
حادثات کی اطلاع ملنے پر قریبی کوئلہ کانوں میں کام کرنیوالے سینکڑوں کانکن، پھنسے ہوئے کانکنوں کے رشتہ دار، لیویز اور ایف سی اہلکار اور کوئٹہ سے محکمہ مائنز کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
امدادی سرگرمیوں جمعہ کو سوات کے رہائشی ممتاز ولد میر عالم نامی کانکن کی لاش نکالی گئی۔ جبکہ چار کانکنوں نور محمد ولد معتبر خان ، بادشاہ ولی ولد محمد ،انور علی ولد محمد اور بہادر زیب ولد سلیق جان کی لاشیں جمعہ اور ہفتہ کی نصب شب نکالی گئیں۔
جمعرات سے پھنسے ہوئے کانکن عبداللہ ولد خائستہ رحمان کی لاش ہفتہ کی شام نکالی گئی جبکہ ایک کانکن انور زادہ ولد عمر زادہ گزشتہ جمعرات کی شام چار بجے سے پھنسا ہوا ہے۔
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کانکنوں نے انوزادہ کی لاش ڈھونڈ لی ہے جو سولہ سو سے سترہ سو فٹ گہرائی کے اندر موجود ہے لیکن مٹی کے تودے مسلسل گرنے کے باعث لاش کو نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کانکنوں کا کہنا تھا کہ محکمہ معدنیات کی جانب سے تجربہ کار ریسکیو ٹیم اور مشنری کی عدم فراہمی کے باعث امدادی سرگرمیوں میں دقت پیش آئی۔
اگر تجربہ کار ریسکیو ٹیم اور مشنری ہوتی تو پھنسے ہوئے کانکنوں کو نکالنے کیلئے کان میں جانیوالے امدادی کانکنوں کی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔
اسسٹنٹ کمشنر ہرنائی حبیب نصیر نے تصدیق کی کہ ریسکیو آپریشن کے دوران تینوں کوئلہ کانوں سے آٹھ کانکنوں کی لاشیں نکالے جانے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ایک کانکن تاحال پھنسا ہوا ہے جن کے زندہ بچ جانے کی امید انتہائی کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی کانکن اور انتظامیہ کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ جن کانکنوں کی لاشیں نکال لی گئیں وہ آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئی ہیں۔
جاں بحق کانکنوں میں چھ کا تعلق سوات، ایک کا تعلق اپر دیر خیبرپشتونخوا جبکہ ایک کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔
کان میں پھنسے عمر زادہ کا تعلق بھی اپر دیر سے ہے۔ ایف سی حکام کے مطابق ایف سی کے بیس جوانوں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی ہرنائی کے ضلعی جنرل سیکریٹری عبدلباقی ترین نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہرنائی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا کہ کان میں جاں بحق ہونیوالے کانکنوں کے ورثاء سے لاشیں حوالے کرنے کیلئے رشوت مانگی گئی۔
ورثاء کی مدد کی بجائے تحصیلدار نے راہداری کے نام پر پانچ پانچ ہزار روپے رشوت لی۔ انہوں نے امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو کیکام میں تاخیر کے باعث کانکنوں کی اموات میں اضافہ ہوا۔
اے این پی کے رہنماؤں نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے تحصیلدار شاہرگ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔