|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان میں کوئلہ کانیں موت بانٹنے لگیں۔ رواں سال50سے زائد کانکن مختلف حادثات میں جان کی بازی ہار گئے ۔ درجنوں زخمی بھی ہوئے۔

کانکن کہتے ہیں کان مالکان اور حکومت کو مزدوروں کی جانوں کی فکر نہیں جبکہ چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ کانکنوں کی جانب سے حفاظتی انتظامات کی پرواہ نہ کرنا ہے۔حفاظتی انتظامات کی خلاف ورزی پرچند ماہ کے دوران20کانوں کو بند کیا جاچکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں پہاڑوں کا سینہ چیر کر ہزاروں فٹ گہرائی سے کوئلہ نکالنے والوں کی زندگیاں حفاظتی آلات اور انتظامات نہ ہونے کے باعث خطرے سے دوچار ہیں۔

اعدادو شمار کے مطابق کوئٹہ،ہرنائی،دکی اور مچھ میں روال سال جنوری سے 18اکتوبر تک کوئلہ کانوں میں مٹی کے تودے گرنے، گیس بھر جانے سے دھماکے ، دم گھٹنے ، کرنٹ اور ٹرالی لگنے جیسے حادثات میں 41کانکن جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ۔

جبکہ 19اکتوبر کوہرنائی کی تحصیل شاہرگ میں تین کوئلہ کانوں میں مٹی کے تودے گرنے سے اب تک 9کانکنوں کی اموات ہوچکی ہے۔

اسی طرح رواں سال اب تک50کانکنوں کوئلہ نکالتے نکالتے جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ 21کانکنوں کی اموات گزشتہ دو ماہ کے دوران ہوئی۔

سب سے زیادہ اموات دکی میں ہوئیں جہاں کوئلہ کانیں 22کانکنوں کی زندگیوں کو نگل گئیں ۔

21کانکنوں کی اموات ہرنائی جبکہ 8کانکن کی اموات کوئٹہ کے علاقے سورینج میں ہوئیں۔ فروری کی 5اور13تاریخ کو دکی اورہرنائی میں بالترتیب ایک اور دو کانکنوں کوئلہ نکالتے ہوئے گیس بھر جانے سے دم توڑ گئے۔

مارچ میں دکی میں تین حادثات میں تین کانکن لقمہ اجل بنے۔ اپریل میں دکی میں چھ حادثات کے دوران چھ کانکن،مئی میں ہرنائی ،دکی اور کوئٹہ کے علاقے سورینج میں چار حادثات میں 7کانکن جاں بحق ہوئے۔

ان میں صر ف چار کی اموات ایک ہی حادثے میں سورینج کی ایک کوئلہ کان میں گیس بھرنے سے ہوئی۔ جولائی میں دکی ،ہرنائی اور مچھ میں 6حادثات میں 9کانکنوں کی موت ہوئی۔

8ستمبر کو کوئٹہ کے علاقے سورینج سنجدی میں گیس بھرنے سے چار کانکن، 11ستمبر کو ہرنائی میں3کانکن، 12اور 20ستمبر کو دکی میں ایک ایک کانکن کی،2اور3اکتوبر کو ہرنائی میں دو کانکنوں کی جبکہ10اکتوبر کو دکی میں دو کانکنوں کی موت ہوئی۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہیں۔

یاد رہے کہ پی ایم ڈی سی کی کان میں2011ء میں گیس کے دھماکے سے پیش آنیوالے ایک ہی حادثے میں43مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔

محکمہ معدنیات کے ذرائع کے مطابق بلوچستان کے ضلع کوئٹہ،بولان،ہرنائی، لورالائی اور دکی میں کوئلہ کی پانچ ہزار سے زائد کانکنوں سے سالانہ 30لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ نکالا جاتا ہے۔

کوئلہ کی صنعت سے30ہزار سے زائد مزدور وابستہ ہیں جو 18، 18 گھنٹے تک دن رات اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کان کنی کرتے ہیں۔

انہیں نہ جدید آلات میسر ہیں اور نہ ہی حفاظتی قوانین سے آگاہی دی جاتی ہے۔بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں ایک ہزار فٹ سے لیکر چھ ہزار فٹ تک کان کنی ہورہی ہے۔ محکمہ معدنیات کے حکام زیادہ گہرائی میں کان کنی کو ہی حادثات کی اہم وجہ بتاتے ہیں۔

کانوں میں حفاظتی انتظامات کا کوئی وجود نہیں اور مزدور روایتی طریقوں سے کھدائی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات کانوں کے اندر حادثات پیش آتے ہیں۔ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔

کان کنی کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے مزدوروں کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور ہر وقت جان سولی پر لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

کول مائنز لیبر فیڈریشن کے سربراہ بخت نواب کے مطابق کوئلہ کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 80 کان کن ہلاک ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حادثات کی ذمہ داری کان مالکان اور حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔کان مالکان حفاظتی انتظامات پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔

کان میں اترنے سے پہلے گیس چیک کی جاتی ہے اور نہ کانکنوں کو حفاظتی آلات اور اوزار دیئے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر اموات کانوں میں گیس بھر جانے سے ہوتی ہے۔ کی کانوں کے اندر جان لیوا گیس اْس وقت پیدا ہوتی ہے جب کان میں داخل ہونے والے راستے کے علاوہ زہریلی گیس کے اخراج اور تازہ ہوا کے داخل ہونے کا متبادل راستہ نہ ہو۔

گیس کان کے اندر جمع ہونے کی صورت میں جب کان کن، کان کے اندر گھینتی سے کام کرتے ہیں تو اس سے اسپارک پیدا ہوتا ہے جس سے اکثر کان کے اندر دھماکہ ہو جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض کانیں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں۔ بعض کانوں کے مالکان اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ ان کی کانیں نو گو ایریاز ہیں اور وہاں کوئی بھی سرکاری اہلکار معائنے کے لیے نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مائنز ایکٹ تقریباً ایک سو سال پرانا ہے ،نئی ترامیم لاکر اس قانون کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے ۔مزدور رہنماء سلطان لالہ نے بتایا کہ کوئلہ کانوں میں حادثات زیادہ ہونے کی ایک اور وجہ ٹھیکیداری نظام ہے ۔

جن لوگوں کے نام کانیں الاٹ ہوتیں ہیں وہ بعد میں ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کرتے ہیں ۔

ٹھیکیدار اپنے آپ کو حفاظتی انتظامات کرنے سے مبرا سمجھتے ہیں اور کانکنوں کو پیسوں کا لالچ دے کر زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا انسپیکٹوریٹ آف مائنز کی ہے لیکن وہ ان کو یقینی بنانے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی ۔تاہم چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمد خان کا دعویٰ ہے کہ کوئلہ کانوں کے معائنہ وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حفاظتی اقدامات کو یقینی نہ بنانے پرچند ماہ کے دوران20سے زائد کانوں کو بند کیا جاچکا ہے۔ افتخار حمد خان نے بتایا کہ کوئلہ کانوں کی حادثات کی وجہ جاننے کیلئے کورٹ آف انکوائریز بھی تشکیل دی جاتی ہے۔

ستمبر میں سورینج میں پیش آنیوالے حادثے کی تحقیقات بھی جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حادثات کی بڑی وجہ کانکنوں کی جانب سے حفاظتی انتظامات کی پرواہ نہ کرنا ہے۔

کانکنوں کو اتنی آگاہی نہیں ہوتی کہ ایک معمولی غلطی سے ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ زیادہ تر حادثات اس وقت ہوتے ہیں جب جب مائنز کچھ دنوں کے لیے بند ہوتے ہیں توان میں گیس جمع ہوجاتی ہے۔

اس صورتحال میں یہ لازمی ہوتا ہے کہ کان میں جانے سے پہلے اس کا معائنہ کرایا جائے مگر کان کن لاعلمی یا جلد بازی کی وجہ سے یہ معائنہ نہیں کراتے ۔