|

وقتِ اشاعت :   October 24 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبے میں منشیات کے پھیلاؤ کی صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات کی لعنت معاشرے بالخصوص نوجوان نسل کیلئے بڑا خطرہ بن گئی ہے لیکن حکومت اور انسداد منشیات فورس کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ ریمارکس گزشتہ روز بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے ممبر شاہ محمد جتوئی کی درخواست کی سماعت کے دوران دیئے۔ درخواست میں محکمہ داخلہ اسلام آباد اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

سماعت کے دوران سینئر وکیل ساجد ترین ایڈووکیٹ، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ظہور احمد بلوچ، سپیشل پراسکیوٹر برائے اے این ایف شمس الدین اچکزئی ،بحالی منشیات مرکز کے ایڈمنسٹریٹر جاوید بلوچ اور ڈپٹی سیکریٹری سکولز جوڈیشل ہارون رشید پیش ہوئے۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی مرکز کے ایڈمنسٹریٹر نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے تناظر میں منشیات کے عادی افراد کے مرکز کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن مرکز میں مسائل بھی درپیش ہیں جسے متعلقہ حکام حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عدالت نے مرکزکی انتظامیہ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ حکومت مرکز کو درپیش مسائل حل کرکے اس کو بہتر انداز میں چلانے کی راہ ہموار کرے۔

اے این ایف کے سپیشل پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اے این ایف نے عدالتی احکامات پر منشیات کے عادی افراد کیلئے ایک بحالی مرکز بنایا ہوا ہے ۔

وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ مرکز کیلئے درکار فنڈز اور پوسٹس فراہم کی جائیں۔ اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں منشیات کا مسئلہ خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے لیکن حکومت اور اے این ایف کی جانب سے منشیا ت کی اسمگلنگ کی روک تھام، اس لعنت کے خاتمے اور متاثرہ افرا دکی بحالی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی۔

حکومت، قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور انٹی نارکوٹیکس فورس کو اس سلسلے میں تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ عدالت نے کہا کہ سیکریٹری کالجز اور سیکریٹری سکولز تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے تدارک کیلئے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

عدالت نے دونوں سیکریٹریز کو اس سلسلے میں کام کرنے کی ہدایت کی ۔ عدالت نے حکم دیا کہ دونوں سیکریٹریز منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مرکز کے منتظمین سے ملاقات کرکے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ انٹی نار کوٹیکس فورس صوبے میں منشیات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ عادی افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے کی پابند ہے ۔

اگرچہ اے این ایف کی جانب سے حال ہی میں ایک بحالی مرکز بنایا گیا ہے لیکن اب بھی اس سلسلے میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

عدالت نے ڈائریکٹر اے این ایف کو چاہے کہ وہ نہ صرف وفاقی حکومت پر قائم کردہ بحالی مرکز کیلئے آسامیوں کی منظوری اور فنڈز کی فراہمی کیلئے دباؤ ڈالے بلکہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں اس طرح کے مزید مرکز بھی بنائے۔

عدالت نے قرار دیا کہ منشیات کی لعنت معاشرے اور بالخصوص نوجوانوں کیلئے خطرہ بن چکی ہے ۔

اس لعنت پر صرف حکومت قابو نہیں پاسکتی۔ اس سلسلے میں عوام اور والدین کی حمایت بہت اہم ہے ۔

معاشرے کو اس لعنت کے خلاف متحرک کرنے کیلئے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔

سیاسی جماعتوں اور ان کی طلباء تنظیموں کا کردار ادا سلسلے میں بہت اہم ہے ہم تعاون کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے میں دلچسپی لے گی۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ ساجد ترین نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرکے اس سللسے میں ہونیوالی پیشرفت پر عدالت کو آگاہ کرینگے۔

عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اوراے این ایف کے اسپیشل پراسکیوٹر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔

عدالت نے حکم پر عملدرآمد کیلئے حکمنامے کی کاپی سیکریٹری سکولز، کالجز ، ڈائریکٹر اے این ایف، انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان کو بھی بھیجنے کی ہدایت کی۔