پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مسلح تنظیموں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے بعد ٹرانسپورٹروں اور ہاکروں نے اخبارات کی ترسیل اور تقسیم سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد قارئین کی اکثریت گذشتہ دو روز سے اخبار پڑھنے سے محروم ہے۔
روزنامہ ‘انتخاب’ کراچی کی ایڈیٹر نرگس بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرانسپورٹروں نے بلوچستان میں سکیورٹی کے مسئلے کی وجہ سے اخبارات اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔
بلوچستان کے ترقی پسند اخبار ‘آزادی’ کے چیف ایڈیٹر صدیق بلوچ نے بتایا کہ ان کے اخبار کی ترسیل نہیں ہو سکی۔ ‘ہم نے اخبار شائع کیا تاہم وہ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔’
صدیق بلوچ کے مطابق ’ہاکر ڈرا ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر ہم اخبار کے بنڈل کو بوری میں چھپا کر لے جائیں تو فوج پکڑے گی کہ اس میں بم ہے اگر ویسے لے جائیں تو جو سیاسی کارکنان اس بائیکاٹ کی حمایت کر رہے ہیں وہ چھین لیں گے اور تشدد بھی کریں گے۔ اب اس صورت حال میں کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
صدیق بلوچ ان کا کہنا ہے کہ دو طرفہ دباؤ ہے، ’ایک طرف حکومت کی کارروائی ہے تو دوسری جانب عسکریت پسند ہیں۔‘
‘مسلح تنظیمیں اس سے پہلے بھی اخبارات کا بائیکاٹ کرتی تھیں تاہم وہ علامتی ہوتا تھا اور ان کی تھوڑی بہت خبریں شائع ہوجاتی تھیں لیکن اب تو ان کی خبریں بالکل ہی بند ہیں۔ ان تنظیموں کی جو پریس ریلیز آتی تھی وہ غیر واضح جگہ پر شائع ہوتی تھیں، لیکن حکومت نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا کہ آپ ان کی تشہیر کر رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ بلوچستان کی مسلح تنظیموں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نے دو ہفتے قبل اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے پرنٹ میڈیا سے وابستہ تمام صحافیوں اور دیگر ملازمین کو پریس کلبوں سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔
ان تنظیموں کی جانب سے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں جاری آپریشن اور حملے سنگین صورت حال اختیار کرچکے ہیں، عالمی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں جبکہ مقامی میڈیا ریاست کے کنٹرول میں ہے اور صحافت سول و عسکری بیانیہ تک محدود ہے۔
دوسری جانب کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے وفد نے وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری سے ملاقات کی اور اخبارات کو درپیش صورت حال سے آگاہ کیا۔
اس موقعے پر بات کرتے ہوئے ثناللہ زہری کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند اپنی بےبسی کا غصہ میڈیا پر نکال رہے ہیں۔
‘میڈیا کو قومی یکہجتی کو فروغ دینا چاہیے، اس کا مرکز نگاہ دہشت گردی کے متاثرین نہیں بلکہ اس میں ملوث عناصر ہوتے ہیں۔’
بلوچستان میں مقامی میڈیا کو محدود اور بین الاقوامی میڈیا کو صفر رسائی حاصل ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں صوبے میں جبری گمشدگیوں اور آپریشن سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی رہی ہیں لیکن میڈیا آزادانہ طور پر ان کی تصدیق یا تردید کرنے سے قاصر ہے۔