|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کانسٹیبلری کے گیارہ ہزار اہلکاروں میں صرف پانچ ہزار ڈیوٹی دیتے ہیں اور باقی اہلکار رشوت دے کر گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ منگل کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نصف گھنٹے کی تاخیر سے پینل آف چیئرمین کے رکن ولیم برکت کی زیر صدارت شروع ہوا۔ 

اجلاس میں محرکہ عارفہ صدیق اوروزیرصحت رحمت بلوچ کی عدم موجودگی کی بناء پر وقفہ سوالات موخر کیا گیا۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی پرنس احمد علی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ 2004میں بھرتی ہونیوالے بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار اپنے اضلاع کے بجائے اب تک دیگر اضلاع میں کیوں ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ بلوچستان کانسٹیبلری کے لیے پالیسی سامنیلائی جائے۔ 

بلوچستان کانسٹیبلری کیاہلکاروں کوآبائی اضلاع میں تعینات کیاجائے۔ اس موقع پر حکومتی رکن عبدالمجید اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں کانسٹیبلری کیاہلکاروں کی تعدادتقریبا11ہزارہے جن کو کوآدھی تنخواہ دی جاتی ہے اور باقی تنخواہ ہڑپ کرلی جاتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ بتایا جائے لوچستان کانسٹیبلری کا امن کے قیام میں کیا کردار ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کانسٹیبلری کے 11ہزارمیں سے5 ہزار اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں اور باقی اہلکار اپنی تنخواہ میں سے آٹھ ہزار روپے بھتہ دیتے ہیں اور گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ 

ارکان اسمبلی نے کہا کہ تنخواہوں کی مد میں4کروڑروپے سے زائد رقم ادا کرنے کے باوجود کسی کو بلوچستان کانسٹیبلری کی ذمہ داریوں کا علم نہیں،آئی این پی کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کو چالیس منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئر مین کے رکن ولیم جان برکت کی زیر صدارت شروع ہوا ۔

اجلاس میں وقفہ سوالات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے رکن پرنس احمد علی نے بلوچستان کانسٹیبلری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس دیتے ہوئے سوال کیا کہ 2004ء میں بلوچستان کانسٹیبلری میں تعینات ہونے والے سپاہی اب تک اپنے اضلاع میں ڈیوٹیاں سرانجام دینے کی بجائے دیگر اضلاع میں ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں اگر یہ بات درست ہے تو وزیر داخلہ بتائیں کہ ان سپاہیوں کوا ن کے اپنے اضلاع میں نہ بھیجنے کی کیا وجوہات ہیں ۔ 

پرنس احمد علی کا کہنا تھا کہ آج تک ہم نے بلوچستان کانسٹیبلری کے حوالے سے اپنی پالیسی بھی درست طریقے سے وضع نہیں کی آج بھی ایک ضلع کے اہلکار دوسرے ضلع میں تعینات ہیں انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ اگر انہیں ان کے اپنے اضلاع میں تعینات نہیں کیا جاتا تو کم از کم انہیں ان کے قریبی اضلاع میں بھیجنے کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے ۔ 

جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بلوچستان کانسٹیبلری میں تعینات اہلکاروں کی بھلا کیا تنخواہ ہوگی انہیں اپنے ضلع کی بجائے دیگر اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے اگر وہ دو مہینوں میں ایک بار بھی اپنے گھروں کو جائیں تو تنخواہ آنے جانے کے اخراجات میں اٹھ جاتی ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ میں ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ گیارہ ہزار اہلکاروں میں سے پانچ یا ساڑھے پانچ ہزار اہلکاربھی باقاعدگی سے ڈیوٹی نہیں کرتے آدھی تنخواہ وہ اوپر دے دیتے ہیں اور ماہانہ تین سے چار کروڑ روپے جمع ہوکر اوپر جاتے ہیں ۔ 

انہوں نے چیئر مین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے آپ کی رولنگ آنی چاہئے نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ رولنگ اگر قوانین سے متصادم ہوئی تو کیا ہوگا بلوچستان کانسٹیبلری کو صوبے میں ہر اس وقت بھیجاجائے گا جہاں مسئلہ ہو ۔ 

چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجیدخان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کانسٹیبلری کے گیارہ ہزار ملازمین ہیں وہ اپنی آدھی تنخواہیں پولیس افسران کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں ڈیوٹیاں نہیں کرتے ہمارے علاقے میں تو ہم بی سی اہلکاروں کو صرف پہلی تاریخ کو دیکھتے ہیں جب وہ تنخواہ لینے آتے ہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ کے میر عبدالکریم نوشیروانی نے محرک سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ کانسٹیبلری کو صوبے میں کہیں بھی بھیجا جاسکتا ہے ۔ ہمارے صوبے میں پہلے سے بے روزگاری بہت زیادہ ہے جس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ خاران میں لیویز کی پندرہ پوسٹوں کے لئے 3ہزار درخواستیں آئیں جن میں گریجوایٹس بھی تھے ۔

پشتونخوا میپ کے پارلیمانی رہنماء وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بلوچستان کانسٹیبلری بی ایریا کی فورس ہے جس کے لئے اے ایریا سے بھرتیاں کی گئیں یہ طریقہ کار غلط تھا مگر اب ہم بہتر کررہے ہیں آج کابینہ نے بھی اس حوالے سے الائیڈ فورس بنانے کی منظوری دے دی ہے بعدازاں وزیر داخلہ و قبائلی امورمیر سرفراز بگٹی نے ایوان کو بتایا کہ بلوچستان کانسٹیبلری جب بنی تب اس کے لئے اے یا بی ایریا کی کوئی بات نہیں اس حوالے سے قواعد میں بالکل واضح طو رپر لکھا ہے ۔

یہ فورس کہیں بھی ڈیوٹی کرسکتی ہے اور متعلقہ حکام انہیں کہیں بھی بھیج سکتے ہیں اب ہم کابینہ نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے کہ ہم بلوچستان کانسٹیبلری سے جوان لے کر انہیں اے ٹی ایف کی ٹریننگ دلائیں گے اور ضروری وسائل مہیا کریں گے جہاں تک بی سی کا تعلق ہے تو اس کے لئے کہیں کوئی قدغن یا پابندی نہیں یہ کسی مخصوص ضلع میں ڈیوٹی کی پابند نہیں بلکہ پورے صوبے میں جہاں ان کی ضرورت ہوگی یہ ڈیوٹی دیں گے۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی رکن یاسمین لہڑی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر صوبے کے معذور افراد کے حوالے سے حال ہی میں نافذ العمل ہونے والے قانون کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ بلوچستان کے معذور افراد کا ایکٹ جو کہ بیس مئی2017ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے کیا یہ بات درست ہے کہ متعلقہ ایکٹ کے تحت قواعد و انضباط کار محکمے نے اب تک وضع نہیں کئے اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے Delegated Legislationوضع نہ کرنے کی وجوہات بتائی جائیں ۔

یاسمین لہڑی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں سے قانون سازی کرتے ہیں قانون پاس ہوجاتا ہے مگر متعلقہ محکمے اس ضمن میں ضروری کام نہیں کررہے جس کی وجہ سے معاملات بہتر نہیں ہورہے حتیٰ کہ ہم نے اب تک ضروری حکمت عملی تک وضع نہیں کی اس طرح سے تو ہم بلوچستان کی تقدیر نہیں بدل سکتے ۔

نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے بھی پاس ہونے والے قوانین کی روشنی میں متعلقہ محکموں کی جانب سے قواعد وضع نہ کرنے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سے بلوچستان اسمبلی قانون سازی کے حوالے سے باقی صوبوں سے پیچھے ہے جو قوانین ہم نے پاس کئے ان پر آگے مزید ضروری کام ہونا چاہئے ۔

ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ معذور افراد معاشرے کا اہم طبقہ ہے جو اپنے مسائل کے حل کے لئے ہماری ہی طرف دیکھتے ہیں ہمیں ان کے مسائل حل کرنے چاہئیں یہاں حکومتی اراکین سے میری گزارش یہی ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل پر بات کرنے سے قبل خودحکومتی اراکین سے بات کریں متعلقہ وزیر سے بات کریں اور جب یہاں اسطرح کے مسائل اٹھائیں تو بتائیں کہ ہم نے فلاں وزیر سے بات کی ہے وہ اس حوالے سے یہ کہتے ہیں۔

وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اسمبلی کاکام قانون سازی کرنا ہوتا ہے وہ ہم نے کردیا آگے اس حوالے سے جو متعلقہ کمیٹی ہے وہ چیف سیکرٹری کی قیادت میں کام کرتی ہے ہم ان سے بات کریں گے کہ جتنے بھی قوانین ہیں ان پر ضروری عملدرآمد یقینی بنائیں ۔ 

بعدازاں چیئر مین نے متعلقہ محکمے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلی کے اگلے اجلاس میں اس حوالے سے تحریری جواب دیں ۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالمجیدخان اچکزئی نے بلوچستان میں وفاق و دیگر صوبوں کے باشندوں کو جعلی ڈومیسائل پر صوبے کی ملازمتوں کے کوٹے پر ملازمین دینے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جعلی ڈومیسائل کی نشاندہی اور وک تھام کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کہ اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے ہم نے بہت بڑے بڑے دعوے کئے ہیں ہم نے صوبے کے لوگوں کو ملازمتیں دینے ، وسائل حاصل کرنے اور اپنے صوبے کو وہ تمام حقوق دلانے کے دعوے کئے ۔

جو سابق حکومتوں نے نہیں دیئے ہمارے صوبے میں بے روزگاری کی یہ حالت ہے کہ کلاس فورس کی بیس ملازمتوں کے لئے چار ہزار درخواستیں آتی ہیں جن میں ایم اے پاس امیدوار بھی ہوتے ہیں پورے صوبے میں بے روزگاری عروج پر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ70سال سے صوبے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہا ہے اس وقت وفاق میں بلوچستان کے کوٹے پر مختلف محکموں میں تعینات ملازمین کی تعداد18ہزارایک سو81ہے ہماری حالت یہ ہے کہ پانچ سالوں تک پلاننگ ڈویژن میں ہماری نمائندگی تک نہیں ہے اوراس سال کا جوک آف دی ایئر دیکھیں کہ آئی جی پولیس کو ممبر پبلک سروس کمیشن بنادیا گیا ہے ہمارے پاس وسائل ہیں مگر وسائل کا چوکیدار نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا صوبہ بین الاقوامی یتیم خانہ بن چکا ہے اب بھی جعلی ڈومیسائل ایشو ہورہے ہیں اس حوالے سے کوئی میکانزم نہیں ہے ۔انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس صوبے کے ساتھ مزید زیادتیاں نہیں ہونی چاہئیں ۔

بلوچستان کے کوٹے پر بلوچستان ہی کے لوگوں کا حق ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جو نمائندے مرکز میں بیٹھے ہیں وہ اس حوالے سے بات ہی نہیں کرتے ۔جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے دوسرے صوبوں سے آنے والے افسران یہاں پکنک مناتے اور مراعات لے کر واپس چلے جاتے ہیں۔

قربانیاں ہمارے لوگ دے رہے ہیں جب لوگوں سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ مجبور ہو کر بندوق اٹھاتے ہیں سرفراز بگٹی نے اپنے حلقے میں جعلی ڈومیسائل رکھنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف جس طرح کارروائی شروع کی ہے اسی طرح تمام ارکان کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔

یاسمین لہڑی نے کہا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ جعلی ڈومیسائل کس نے بنوائے ہیں یہ افسر شاہی کا کام ہے وہ بلوچستان میںآ کر ایک ٹکٹ پر دو مزے کرتے ہیں بلوچستان میں تعینات ہو کر آنے والے افسران کی ایک دو سالوں کے بعد پروموشن بھی ہوجاتی ہے اور اس دوران وہ جس ضلع میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات رہتے ہیں اپنے رشتہ داروں کو اس ضلع کا ڈومیسائل بنوا کر دیتے ہیں ۔

ثمینہ خان نے کہا کہ اس مسئلے پر سینٹ میں بھی بات ہوتی رہی ہے مگر ہمیں ہر معاملے پر وفاق یا پنجاب کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہئے بلکہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو بھی ہمیں دیکھنا چاہئے ابھی ہمارے72افسران ڈی سیٹ ہوئے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ ان کے حوالے سے ہم نے کیا لائحہ عمل اپنا یا ۔

صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمدخان شاہوانی نے کہا کہ مذکورہ توجہ دلاؤ نوٹس میرے علم میں نہیں تھا اب ٹیبل ہونے کے بعد میرے علم میں یہ بات آئی ہے اگر پہلے علم ہوتا تو مکمل تفصیلات کے ساتھ بات کرتا یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں یقیناًماضی میں بھی حکومتوں کی جانب سے اس سلسلے میں بات ہوتی رہی ہوگی تاہم میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اب بھی جہاں جہاں نشاندہی ہوگی وہاں پر سختی سے کارروائی کی جائے گی ۔

اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین کے رکن ولیم جان برکت نے کہا کہ یہ مسئلہ سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس موجود ہے جس پر 30اکتوبر کے اجلاس میں غور کیا جائے گا ۔

انہوں نے مجیدخان اچکزئی کو کمیٹی میں شامل کرنے کی بھی رولنگ دی ۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ 2013ء میں جب یہ حکومت بنی تو صحت اور تعلیم اس کے اہم ٹارگٹ تھے مگر صحت کے شعبے میں اس وقت بہت زیادہ مسائل سراٹھارہے ہیں ۔

انہوں نے ایوان میں ایک ڈاکٹر کی ڈگری پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جعلی ڈگری ہے اور جس ڈاکٹر کی یہ ڈگری ہے وہ بلوچستان میں جذام کے شعبے کے سربراہ ہے خدا کے لئے جعلی ڈگری ہولڈرز سے ہماری جان چھڑائی جائے ۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں کچھ ممالک کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے کچھ کو نہیں جن ممالک کی ڈگریوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ان میں افغانستان بھی شامل ہے مگر ان ممالک کے حوالے سے ایک طریقہ کار موجود ہے کہ متعلقہ ڈاکٹر پی ایم ڈی سی کے ڈاکٹروں کی ٹیم کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کی تصدیق ہوتی ہے یہ اہم مسئلہ ہے اسے متعلقہ محکمے کو بھیجا جائے ۔

بعدا زاں چیئر مین نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی نے ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے وزیر صحت متعلقہ رکن اسمبلی کے نکتے پر اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کریں ۔ 

اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں وفاق نے صوبوں کو تیل و گیس کا حصہ دینے کا طریقہ کار وضع کیا ہے تاہم اب تک اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں پریشانی و مایوسی پائی جاتی ہے ۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ آئین کے آرٹیکل 172کی شق (3)پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ صوبہ بلوچستان کو گیس و تیل کی پیداوار کاواجب الادا حصہ مل سکے۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں سے نکلنے والے تیل اور گیس کے پچاس فیصد حصہ صوبوں کا قرار دیا گیا اس ترمیم کے بعد سے ہرنائی میں زرغون کے علاقے سے تیل اور گیس کی پیداوار جاری ہے مگر اب تک اس کی آمدنی میں سے صوبے کو کچھ نہیں ملا سوئی گیس سے متعلق نیا معاہدہ ہوا ۔

اس پر بھی عمل نہیں ہورہا اس سمیت اور بھی بہت سی قرار دادیں ہیں جن پر عمل نہیں ہورہا اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کی قیادت میں ایک کمیٹی بنی تھی جس نے بلوچستان اسمبلی کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لئے وفاق سے رجوع کرنا تھا اس قرار داد کو بھی ان میں شامل کیا جائے تاکہ اس پر وفاق سے بات کی جائے ۔ 

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم کو روکنے کے لئے ہمارے اکابرین نے طویل جدوجہد کے بعد اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی مگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا بلکہ اب تو اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی باتیں ہورہی ہیں یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں فنڈز کے استعمال کی کیپسٹی نہیں ہے اگر ایسا ہے تو وفاق کیپسٹی بہتر بنانے میں مدد کرے نا ں کہ ترمیم ختم کی جائے ۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین مجید خان اچکزئی نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کو ساڑھے چار سال ہوچکے اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں بمشکل چند ماہ باقی بچے ہیں اتنے مختصر وقت میں وفاق ہماری قرار دادوں پر کہاں عملدرآمد کرے گا ساڑھے چار سالوں کے دوران ہمارے پاس کیا میکانزم رہا وفاق نے اربوں روپے ہمیں نہیں دیئے صوبے میں مختلف کمپنیاں قدرتی وسائل پر کام کررہی ہیں ا ن سے پچیس ارب روپے اب تک نہیں ملے ۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی سیندک پراجیکٹ کا معاہدہ وفاقی حکومت نے کیا حالانکہ یہ ہمارا حق ہے جو صوبے کو کرنا چاہئے انہو ں نے کہا کہ لیڈا کاقیام 1982ء میں عمل میں آیا حب بلوچستان کا حصہ ہے مگر وہاں سے سالانہ140ارب کا ٹیکس سندھ میں جمع ہورہا ہے محکمہ انڈسٹریز کے حکام کو یہاں بلا کر ارکان کے لئے بریفنگ کا اہتمام کیا جائے ۔

سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیل اور گیس میں پچاس فیصدحصہ صوبوں کا طے کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل بھی دیگر تمام معدنیات میں وفاق اور صوبے کا حصہ پچاس پچاس فیصد یکساں تھا او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل سے ہونے والے معاہدوں میں کمپنیاں خلاف ورزی کررہی ہیں ۔

آئین کے آرٹیکل172بی کے بعد وفاقی حکومت گیس کی تلاش لائسنس اور ایلوکیشن نہیں کرسکتی لیکن اب بھی وفاق کی جانب سے یہ سلسلہ جاری ہے بلوچستان کے حصے کے حصول کے لئے ہمیں بھرپور محنت کرنی ہوگی بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔

اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ قائدا عظم یونیورسٹی میں بلوچ پشتون طلبہ پر پویس تشدد کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ہمارے طلبہ اپنے جائز مطالبات کے حق میں پرامن احتجاج کررہے تھے ان پر وحشیانہ انداز میں تشدد کیا گیا اس پر قائداعظم یونیورسٹی اور اسلام آباد انتظامیہ سے تفصیلات طلب کی جائیں ۔ 

نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے بھی طلبہ پر تشدد کی مذمت کی انہوں نے گزشتہ روز خالق آباد میں ایک ٹرالر کے بے قابو ہو کر مسافر ویگنوں سے تصادم کے واقعے پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسی جگہ پر تیسرا بڑا واقعہ ہے اس سے پہلے ان حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے ۔

میں نے چیئر مین این ایچ اے کو خط لکھا تھا کہ یہ پندرہ سے بیس کلو میٹر حصہ دو رویہ بنایا جائے بعد ازاں وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو اور وزیراعلیٰ کے توسط سے بھی خطوط لکھوائے مگر اس مختصر حصے کو دو رویہ نہیں بنایا جارہا انہوں نے چیئر مین آف پینل سے استدعا کی کہ وہ اس سلسلے میں این ایچ اے حکام سے بات کریں ۔ 

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ ہمارے لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو حصول علم کے لئے اسلام آباد بھجواتے ہیں مگر وہاں ان پر تشدد کیا جاتا ہے اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو ہمارے مسائل بڑھ جائیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کے واقعے سے پہلے بھی لاہور میں کئی با ر ہمارے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے درحقیقت ہمارے طلباء کو برداشت ہی نہیں کیا جارہا انہیں کلچرل ڈے منانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ۔

ہم نے کبھی ایسے طلباء کی حمایت نہیں کی جو تعلیم اور یونیورسٹی کا ماحول خراب کرتے ہوں مگر اپنے پر امن طلبہ پر تشدد بھی برداشت نہیں کریں گے۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے قائد اعظم یونیورسٹی میں طلباء پر تشدد کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے ارکان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اسلام آباد جارہے ہیں جہاں پر وہ وفاقی وزیر داخلہ سے اس مسئلے پر بات کریں گے اور قائدا عظم یونیورسٹی کے سربراہ سے بھی بات کریں گے کہ یہ زیادتی کیوں اور کس وجہ سے ہوئی ہے ۔

انہو ں نے ایوان کو یقین دلایا کہ وہ بلوچستان اسمبلی کے ایوان کا بھی حوالہ دیں گے کہ اس اہم مسئلے پر بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں بھی بات ہوئی ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ متاثر بچوں سے بھی ملاقات کریں گے۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی شمع اسحاق نے ایوان کی توجہ بلوچستان یونیورسٹی کے طلباء کے احتجاج کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر کے خلاف طلباء کئی ماہ سے سراپا احتجاج ہیں اور شنید میں ہے کہ وائس چانسلر ملازمت میں مزید توسیع کے خواہشمند ہیں انہیں ملازمت میں توسیع نہ دی جائے ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ جہاں تک وائس چانسلر کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے تو اس کااختیار یونیورسٹی کے چانسلر گورنر بلوچستان کے پاس ہے جہاں تک طلباء کے دیگر مطالبات تھے ان پر ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے بعد تمام چاروں بڑے مسائل حل کرادیئے گئے ہیں ۔

اس کے باوجود طلباء کارویہ درست نہیں اور ان کا احتجاج بلا جواز ہے جس کے بعد اجلاس جمعرات26اکتوبر تک کے لئے ملتوی کردیا گیا ۔