|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2017

کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،کسی بھی غیر آئینی اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہیں جسے دور کر نے کی ضرورت ہے ،چین دونوں ممالک میں ضامن کا کردار ادا کرے ، نیب بلاتفریق تمام آف شور کمپنیوں کے مالکان سے تحقیقات کرے ،بلوچستان کے راستے سے سی پیک کا روٹ گزرتا تو صوبہ میں احساس محرومی کم ہوتا سی پیک کے روٹ کی تبدیلی سے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے ہفتے کو اے این پی کے صوبائی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ااسفند یا ولی خان کا کہناتھا کہ موجودہ حالات میں ملک میں قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے مگر انہیں اس بارے میں کوئی خوف نہیں اگر ایسا ہو ا تو یہ ملک کیلئے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔

اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ منتخب حکومت کی آئینی مدت پانچ سال ہو تی ہے ملک میں جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک ہیں جن میں سے تین کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں ملک کی خارجہ پالیسی کا ازسر نو تعین کر کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ٹھیک کئے جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتوں نے دستخط کئے تھے بتایا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا ۔دہشت گردی صرف ملٹری آپریشن سے ختم نہیں ہو تی بلکہ اس کے بنیادی وجوہات کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ 

اسفند یار ولی خان نے کہاکہ آج کل ملک کے جو نازک حالات ہیں اس میں بڑے سوچ سمجھ سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں پر قانون کی حکمرانی اور پارلیمان کی بالادستی صرف کاغذات میں نہیں بلکہ عملی طور پر ہونی چاہئے اگر کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا تو پھر اس ملک کے حالات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔

یہاں پر ملک کے ہر شہری کیلئے قانون ایک جیسا ہونا چاہئے خاص کر نیب کو اس جانب خاص توجہ دینی چاہئے کہ نیب کی نظر میں بھی سب برابر ہونے چاہئے نیب کو پہلا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ آف شور کمپنیوں کی جولسٹ چھاپی گئی ہے اس کو انویسٹی گیٹ کرے کہ آیا وہ صحیح بھی ہے کہ نہیں نیب کا جو نیاچیئرمین آیاہے ان کا جو نام اور رپوٹیشن ہے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ یہ قدم اٹھائینگے انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں فاٹا اور سی پیک اہم ایشوز ہے ۔

سی پیک کے حوالے سے سابق وزیراعظم محمدنوازشریف نے ہمارے ساتھ جو وعدے کئے تھے اس نے تو پورے نہیں کئے اب ہمیں موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے توقع ہے کہ وہ اپنے لیڈر وسابق وزیراعظم محمدنوازشریف کے وعدوں کو پورا کرینگے ۔

انہوں نے کہاکہ فاٹا کاانضمام کی حکومت سمیت تمام جماعتیں اور فاٹا کے عوام حمایت کررہے ہیں جبکہ دو سیاسی جماعتیں ایک طرف ہوکر اس کے مخالف ہیں اور ان کی مخالفت بھی سمجھ سے بالاتر ہے ۔

فاٹا کے عوام پر انگریزوں نے ایف سی آر کا کالا قانون نافذ کیا اور گزشتہ 70سال میں پاکستان نے فاٹا کے شہریوں کو یہ تاثر بھی نہیں دیاکہ آپ بھی پاکستان کے شہری ہو ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت فاٹا میں اگر کوئی آدمی جرم کرتاہے تو اس جرم میں ان کے خاندان کو سزا مل سکتی ہے اور فاٹا بدر بھی کیاجاتاہے یہاں تک کے انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں ہے ہم فاٹا کے عوام کو اس کالے قانون سے نجات دلائینگے ۔

انہوں نے کہاکہ سی پیک کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں حکومت کی طرف سے ہمیں بتایاگیاکہ اس میں مغربی روٹ جو پشتون اور بلوچ علاقوں سے ہوکر گوادر جائیگی اس مغربی روٹ کو ترجیح دی جائیگی اور اس سی پیک منصوبے سے کافی حد تک پشتونوں اور بلوچوں کی احساس محرومی بھی ختم ہوگی ۔

اس پہلے روٹ پر 12انڈسٹریل زون بھی اس منصوبے میں شامل تھے مگر شروع میں تو مغربی روٹ کو نظر انداز کردیاگیا اور اب تو ایسا محسوس ہورہاہے کہ حکومت اس منصوبے سے اور بلوچ علاقوں کو نکالنا چاہتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان کے اپنے چار میں سے تین ہمسایہ ممالک ایران ،بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنے تعلقات بہتر ہونگے وہ ملکی مفاد میں ہوگا ۔

لہٰذاء اس کیلئے ضروری ہے کہ ملکی پالیسیوں کا از سر نو تعین کیاجائے ملک کے جو اندرونی حالات ہے اس پر اے پی سی بلائی گئی تمام جماعتیں اس میں شریک ہوئیں اور نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور ساری جماعتیں اس پر متفق ہوئی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا سوال یہ ہے کہ آخر کیوں نیشنل ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں کیاجارہا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کے آئین میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے حکومت کیلئے ایک جمہوری طریقہ کار موجود ہے اگر کوئی حکومت ناکام اور عوام ان سے ناخوش ہے تو عوام انتخابات کے ذریعے اس کو خود مسترد کردیگی کسی کو غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو ہٹانے کی اجازت نہیں ہے۔

اس حوالے سے اگر کوئی غیر آئینی اقدام اٹھا تا ہے تو ہم اس کی مخالفت کرینگے فی الحال تومجھے ایسا کوئی خوف نظر نہیں آرہا اگر خدانخواستہ ایسا ہوتاہے تو اس سے اس ملک کو بہت بڑا دھچکا لگے گا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سی بدگمانیاں ہیں دونوں ممالک ایک دوسرے پر وعدے پورے نہ کرنے کے شکوے کرتے ہیں ۔

ان حالات میں چائنا کو دونوں ممالک کے درمیان اس حد تک ضامن کا کردارادا کرنا چاہئے کہ ان کے درمیان جو وعدے ہوتے ہیں ان پر عمل درآمد کیاجاسکے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سی پیک کو صرف پاکستان کی نظر سے نہیں بلکہ چین کے نظر سے بھی دیکھ لیں ۔

چین نے سنکیانگ اورتبت کے حالات کے پیش نظر اس منصوبے کو شروع کیا چین کے ان صوبوں میں جو حالات تھے وہی حالات پاکستان کو بلوچستان میں بھی درپیش ہے اس لئے دونوں ممالک کے اس منصوبے میں اپنے مفادات ومقاصد بھی ہے ۔

ڈیورنڈ لائن پر خاردار تار لگانے اور اس بارے افغانستان کی تحفظات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسفند یار ولی خان نے کہاکہ دوسرے مسائل کی طرح اس کا بھی سیاسی حل نکالاجاسکتاہے اور کسی کو بھی اس میں ضد نہیں کرناچاہئے 1965کی جنگ میں تو ڈیورنڈ لائن سے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔

اسی طرح 71ء میں بھی ڈیورنڈ لائن کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی تو پھر اب کیوں اس کی ضرورت پیش آئی ڈیورنڈ لائن پر تو حالات جنرل ضیاء الحق کے دور میں خراب ہونا شروع ہوگئے جب جنرل ضیاء نے مداخلت کرنا شروع کی اب بھی میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ جو بھی قوتیں افغانستان کو اسٹریٹجک ڈیپتھ سمجھتے ہیں انہیں یہ سوچ ترک کرنا ہوگی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو معاملات ہے اور جو موجودہ حالات ہے اس میں شاید کچھ تلخ فیصلے بھی ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان روس اور چین ماسکو میں بیٹھ کر اجلاس اور فیصلے کرتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرینگے اور اس میں افغانستان نہ شریک ہیں اور نہ ہی پوچھا گیاہے ۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کل امریکہ ایران اور افغانستان تہران میں بیٹھ کر اجلاس اور فیصلہ کرے کہ ہم نے کشمیر کے مسئلے کو حل کرناہے تو کیا یہ کسی کو یہ فیصلے اور اجلاس منظور ہونگے؟ ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میرا ملک جبکہ افغانستان میرے آباؤاجداد کی وطن و سرزمین ہے اور ہمیں اس کا تحفظ کرناہوگا انہوں نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے اور غلط فہمیاں دور کرنے میں نے پہلے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اب بھی اگر ضرورت پڑے تو ہم انہیں مذاکرات اور قریب لانے کیلئے اپنا مخلصانہ کر دار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ۔