|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ جمہوریت ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے ،ٹیکنوکریٹ حکومت سمیت کسی بھی غیر آئنی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔

بلوچستان کے مسئلے کو بندوق کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اس لئے دونوں جانب سے اس پر لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا،بلوچ خواتین کو حراست میں لئے جانے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ پریس کلب میں سابق صوبائی وزیر غلام جان بلوچ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کیا۔

اس موقع پر صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ ،ارکان اسمبلی حاجی اسلام بلوچ، یاسمین لہڑی، یاسمین لہڑی ،مرکزی سیکرٹری اطلاعات جان محمد بلیدی، میر صالح محمد بلوچ، حاجی عطاء محمد بنگلزئی، عبدالخالق بلوچ، ڈاکٹر اسحاق بلوچ، نیاز احمد بلوچ،علی احمد لانگو، بی ایس او پجار کے چیئرمین اسلم گہرام بلوچ اور دیگر پارٹی عہدیداران بھی موجود تھے۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ نیشنل پارٹی کا شروع سے موقف رہا ہے کہ جمہوریت ہی سے ملک میں ترقی اور استحکام آئے گا اور نفرتیں ختم ہوں گی ہم جمہوریت اور پالریمنٹ کی پشت پر ہیں کسی بھی غیر آئنی اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ وسیع رقبے کے پیش نظر بلوچستان کیلئے قومی اسمبلی کی نشستیں کم ازکم پچاس ہو نی چاہئے ۔

تین نشستیں بڑھانے سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے یہ ملک کے نصف رقبے کے ساتھ ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہ اکہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے میڈیا اور اخبارات کو دھمکیاں دینا تشویشناک ہیں حکومت کا فرض ہے کہ وہ میڈیا ہاؤسز اور کارکنان کو تحفظ فراہم کریں اگر کالعدم تنظیموں کا یہ رویہ جاری رہا تو ہم قرون وسطیٰ میں چلے جائیں گے۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے ہم مظلوم قوموں اور طبقات کی برابری کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ،

ہماری کوشش ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مستحکم کیاجاسکے بلکہ ہم جمہوری نظام کی مضبوطی ،عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی مثبت آزادی کیلئے بھی جدوجہد کررہے ہیں ،

ملک اور صوبے میں نفرتوں کا خاتمہ جمہوریت کے استحکام کے ذریعے ممکن ہے بلکہ جمہوریت مضبوط ہوگی تو معاشی خوشحالی کو دوام ملے گا۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنی دور حکومت میں لاپتہ افراد کو بازیاب اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے سلسلے کو ختم کرنے کی حتی وسع کوششیں کی اور اس میں کمی لانے میں بھی کسی حد تک کامیاب ہوئے ۔

انہوں نے بلوچ خواتین کی حراست میں لئے جانے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس سے حالات اچھے نہیں بلکہ مزید خراب ہونگے۔

اس سلسلے میں نے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سے بھی بات کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ مثبت انداز میں کام کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے اس مسئلے کو ختم کیاجائے ۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے حکومت سنبھالی تو صوبے کی حالات کو بہتر کرنے کیلئے آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ نہ صرف شروع کیا بلکہ اس میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی مسئلہ حل ہوگا ۔

اس وقت بھی درپیش مسائل اور مشکلات کاحل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے ،انہوں نے کہاکہ ہم عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ہم نے صرف یہ کہاتھاکہ ایک جمہوری وزیراعظم کو اس طرح سے نہیں ہٹاناچاہئے ۔

انہوں نے کہاکہ میں عوام میں سے ہوں ،ہمیں بھی کالعدم تنظیموں کے حملوں اور دیگر کاسامناہے گزشتہ دنوں بھی ہمارے سینئر پارٹی رہنماء جان بلیدی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس سے ان کے خاندان کا ایک نوجوان زخمی جبکہ دیگر محفوظ رہے ان کے ایک چچازاد کو اس سے قبل بھی شہید کیاگیابلکہ تربت میں دستی بم حملے میں بھی ان کے ایک کزن زخمی ہوئے ہم فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کرے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں نظرآرہاہے کہ بلوچستان میں میڈیا دباؤ کاشکارہے بلکہ بلوچ علاقوں مکران ،تربت ،گوادر،پنجگور سمیت مختلف علاقوں میں مجھے اپنے دوست صحافی نظر نہیں آتے اگر اخبارات اور چینلز بند ہوگئے تو یہ ہمارے لئے قرون وسطیٰ کے دورمیں چلے جانے کے مانند ہوگا اس وقت جو صورتحال ہے یہ صحافت ،میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور دیگر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کو اس مسئلے کا فوری حل نکلا لیناچاہئے ،انہوں نے کہاکہ ہم پارلیمنٹ کااستحکام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت آئین کے مطابق اپنی مدت پوری کرے،

میں ٹیکنوکریٹ کو مانتاہوں نہ ہی کسی اور بلکہ ہم عوامی ووٹ کے تقدس اور پارلیمنٹ کو مانتے ہیں ،ملک کو صحیح پر گامزن کرناہے تو ہمیں جمہوریت کو مستحکم کرناہوگا۔

انہوں نے صوبے میں قومی اسمبلی کی 3نشستیں بڑھانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہاکہ یہ کچھ بھی نہیں رقبے اور سمندر کو ملایاجائے تو بلوچستان پاکستان کا 60فیصد حصہ بنتاہے ،بلوچستان کی قومی اسمبلی 40سے 50 تک ہونی چاہئے 3سیٹیں بڑھیں گی تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ہمیں پوچھے گا۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اس سلسلے میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی بات کی اور انہیں بتلایا اور کہاکہا گر ہمیں نمائندگی نہیں ملے گی تو بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہونگے میں صو با ئی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھا نے کے حق میں ہوں اس وقت سچ یہ ہے کہ بلوچستان کی قومی نشستوں کی تعداد سے مخصوص نشستیں زیادہ ہیں۔

احتساب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہناتھاکہ جب تک اس ملک میں تمام شعبوں میں بلاامتیاز حتساب نہیں ہوگا اس وقت تک اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہونگے ۔

انہوں نے کہاکہ صرف سیاست دانوں اور بعض ملازمین کے احتساب سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کیلئے ججز ،جرنیلوں ،سیاست دانوں ،بیوروکریٹس سمیت سب کا احتساب ہوناچاہئے ،جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک احتسابی عمل کے مثبت نتائج برآمدنہیں ہونگے ۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کاکہناتھاکہ نیشنل ایکشن پلان پر انہون نے عملدرآمد کرنے کی پوری ،وش کی اس وقت ملک میں سیاست پرلرزہ طاری ہے بلکہ ہمیں بین الاقوامی دباؤ میں اضافے اور اندرونی مسائل کے بڑھنے جیسے مسائل کاسامناہے ،ان حالات میں قومی ایکشن پلان اور پالیسیوں پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا ،انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کی ڈیموگرافی ،تشخص اور وسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ۔

انہوں نے چینی باشندے کو قومی شناختی کارڈ کیا جراء سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہاکہ ہم تو دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھی بلوچستان کے ایڈریسز پر شناختی کارڈ کے اجراء کے حق میں نہیں ۔

بلوچستان میں قومی اسمبلی کے حلقے 3سے 4اضلاع 6سے 7سو کلومیٹر طویل ہوتے ہیں جہاں انتخابی مہم چلانا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا بڑی پارٹیاں ایک دفعہ آکر ہماری نشستوں پر انتخابات لڑے تو انہیں معلوم ہوگا کہ یہاں انتخابی مہم کے دوران کتنی مشکلات کا ہمیں سامنا کرناپڑتاہے ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیرصحت رحمت صالح بلوچ کاکہناتھاکہ پنجگور کے سابق ایم پی اے غلام جان بلوچ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے ہمیں حوصلہ ملاہے بلکہ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ نیشنل پارٹی مظلوم اقوام کی قومی جماعت ہے ہم نے روز اول سے ہی ملکی سیاست میں جاگیردارانہ اور دیگر قوتوں کا مقابلہ کیاہے ،غلام جان بلوچ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت جمہوریت پسند اور سیاسی قوتوں کیلئے باعث اطمینان ہے۔

اختلاف رائے سیاست کی خوبصورتی ہواکرتی ہے ،نیشنل پارٹی نے ہمیشہ پرامن طریقے سے قوموں کے تشخص ،زبانوں ،ثقافت اور دیگر کے احترام کیلئے جدوجہد کی ہے ۔

اس سے قبل سابق رکن بلوچستان اسمبلی میر غلام جان بلوچ نے نیشنل پارٹی میں شمولیت کااعلان کیا اورکہاکہ نیشنل حالات اور واقعات کے باعث وہ نیشنل پارٹی چھوڑ کر بی این پی عوامی اور پھر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے تھے لیکن بعدازاں دوستوں کے صلاح ومشورے اور سوچ وبچار کے بعد وہ واپس نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور پارٹی کے پیغام کو گھر گھر پہنچائیں گے۔