کوئٹہ: ممتاز قبائلی وسیاسی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کہاہے کہ شفاف سیاسی عمل کے ذریعے منتخب حکومت ہی ملک کو معاشی بحران سے نکال کر امن بحال اور بہتر انداز میں مسائل حل کرسکتی ہے۔
ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت پر کام نہیں کرسکتی اور نہ ہی آئین میں اس کی گنجائش ہے مضبوط پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو احتساب کا موقع ملے گا سینٹ کے اختیارات میں اضافے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان بداعتمادی میں کمی ہوگی،سیاسی جماعتوں کے اندر مداخلت ختم کرنے سے موروثی سیاسی کلچر ختم ہوجائے گا ۔
بیرون ملک جانے والے اگر واپس آرہے ہیں تو ان کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے مذاکرات کئے جائیں تاکہ بیرون ملک اچھا تاثر جائے اور دوسرے لوگ بھی واپس آسکیں ملک میں حالات کی بہتری کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر بنایاجائے مضبوط سیاسی جماعت ہی بلوچستان کے عوام کو حقوق دلاسکتی ہے ۔
سی پیک کے حوالے سے قانون سازی کی جائے ار اس یں صوبے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے اور اس میں صوبے کے اختیارات کے بارے میں بتایاجائے نوجوانوں کو فنی تعلیم دے کر سی پیک میں ملازمتیں دی جائیں۔
ان خیالات کا اظہارانہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب پروگرام آگاہی میں کیااس موقع پرسابق صوبائی وزیر حاجی اسماعیل گجر کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضاء الرحمان ،جنرل سیکرٹری عبدالخالق رند ،بی یو جے کے صدر خلیل احمدبھی موجود تھے،نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہاکہ 1947کے بعد سے پاکستان مختلف بحرانوں کا شکارہے۔
ہم نے بعض جگہ فرنٹ لائن سٹیٹ کا کام کیا جس کا نقصان ملک کو جبکہ فائدہ مخصوص طبقے کو ہوا آج بھی ملک سخت دور سے گزررہا ہے ایسے میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی بات ہورہی ہے جس کی 1973کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسے نازک دور میں یہ خطرناک اقدام ثابت ہوسکتا ہے ۔
پاکستان کے تمام بحرانوں کا حل پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ اور بااختیار بنانے میں ہے جہاں عوام کے ووٹوں اور پرامن سیاسی جدوجہدسے عوامی نمائندے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں اگر عوام سٹیبلشمنٹ سیاست دان ملکر یہ فیصلہ کریں کہ طاقت کا منبع پارلیمنٹ کو بنانا ہے تو اس سے کرپٹ اور موروثی سیاسی کلچر خود بخود ختم ہوجائیگا اور ایسا کرنے سے احتساب کا موقع عوام کو ملے گا ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات میں بھی ہاتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ ہی حکمران بنتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ سینیٹ کے مالی وانتظامی اختیارات میں اضافہ ہونا چاہیے اس سے صوبے اور فیڈریشن میں بے اعتمادی کے خاتمے میں مدد ملے گی میں صوبے کی تمام پارٹیوں سے اس پر مشاورت کرونگا اور اسکے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے بھی بات چیت کی جائے گی ۔
انہوں نے ترکی کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ ترکی ،یورپ کا بحران زدہ ملک تھا لیکن وہاں کی عوام اور سیاسی قائدین نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا اور آج وہی ترکی کسی عالمی ادارے کا قرض دار نہیں اگر بااختیار اور حقیقی طورپر پرامن سیاسی پراسس کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ ہوگی تو لوگ کسی بھی غیر آئینی ،غیر جمہوری اقدام کا اسی طرح دفاع کرینگے جیسے ترکی نے کیا پاکستان میں بھی اگر مستقبل میں ایسی پارلیمنٹ کا قیام ہوگا تو یہاں کی عوام بھی اپنے دفاع کیلئے ضرور باہر آئینگے ۔
انہوں نے کہاکہ جب میں نے قومی سیاسی جماعتوں میں شرکت کی تو میری یہی خواہش تھی کہ میں بلوچستان کے لوگوں اور فیڈریشن کے درمیان دوری کو کم کروں لیکن آج بھی بلوچستان میں بدستور استحصال جاری ہے بلوچستان کو طاقتور منظم سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو یہاں کے لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کریں ۔
انہوں نے کہاکہ 1940کی قرارداد پاکستان ،خان آف قلات اور محمد علی جناح ،1973کے آئین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ مایوسی کا شکار ہوئے اور پہاڑوں اور بیرون ملک چلے گئے ۔
بلوچستان کے مسائل کا حل آپریشن نہیں سوشو،اکنامک ،سائیکو لوجیکل ،ٹریٹمنٹ ہے ایسا کرنے سے اعتماد کی فضاء قائم ہوسکتی ہے اور معاملات درست ہونگے بصورت دیگر حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں بلوچستان میں عام آدمی اور ریاست میں عدم اعتماد کی فضاء ہے۔