جب شاہ شجاع الملک کوکابل کے تخت سے محروم کیاگیاتو پہلے وہ ایران پھر بلو چستان پناہ کے لیے پہنچے۔
میر محراب خان نے انہیں پناہ دی اور کابل میں بر سر اقتدار بادشاہ کے اسرار کے باوجوداسے اسکے حوالے کرنے سے انکار کر تے ہوئے میر محراب خان نے یہ مو قف اختیار کیا کہ کسی کو پناہ دیکر پھر اسے اسکے دشمن کے حوالے کرنابلوچی اقدار کی منافی ہے۔
کچھ عرصے بعد شاہ شجاع رنجیت سنگھ کے پاس لاہور پہنچا۔رنجیت سنگھ نے مدد دینے کا وعدہ کیا اوربدلے میں’’ کوہ نور ہیر‘‘ اس سے ہتھیا لیا۔پھرشاہ شجاع نے انگریزوں سے تعلقات استوار کیئے۔تخت واپس ملنے کی شرط پربرطانوی سر پرستی قبول کرنے پر راضی ہو گئے۔
23 جون 1838 کو آنک لینڈ (Anck-Land ) نے شملہ میں حکومت ہند،رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کے ما بین ایک معا ہدے کا اعلان کیاجس کے تحت ’’کسی ایک کا دوست یا دشمن تینوں کا دوست یا دشمن تصورہوگا‘‘۔یہ افغانستان پر حملے کی ابتدا تھی۔اخراجات کے لیئے امیر سندھ پردباؤ ڈال کر 15 لاکھ روپے سابقہ خراج جو افغا نستان کو ملنے تھے شاہ شجاع نے وصول کیئے، بدلے میں شاہ نے آئندہ کے لیئے سندھ کی مکمل آزادی تسلیم کی۔
رنجیت سنگھ شاہ شجاع کی مدد کے لیئے اپنی 5000 ریگولر فوج کابل بھیجنے پر راضی ہو گیا،بدلے میں دولاکھ روپے سالانہ اسے دینے کا وعدہ ہوا۔شاہ شجاع کی کرائے کی فوج جو زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل تھی اسکے بیٹے تیمور کی سرکردگی میں رنجیت سنگھ کی فوج کے ساتھ پشاور سے اور بر طانوی فوج بولان سے کو ئٹہ کے راستے کا بل روانہ ہوئی۔انگریز کی فوج سخت مشکلات سے دوچار ہوئی،خان کے احکامات کے باوجود بلوچ قبائل نے ان پر حملے کئے اور لوٹ مار کی۔
انکے لیئے راشن اور جانوروں کے چارے کا حصول محال ہوگیا۔شاہ شجاع اور برنز (Burns ) نے خان کودھمکی آمیز خطوط لکھے اور شجاع نے کہا کہ تمہارا بھائی شہنواز خان ہمارے کیمپ میں ہے۔خان نے برنز کو جواب میں لکھا ،شاہ شجاع ایک فضول اور احسان فراموش شخص ہے۔وہ غیر ملکی فوج کے سہارے بر سر اقتدار تو آ سکتا ہے لیکن انگریز فوج کی غیر موجودگی میں اسے جلد نکال دیا جائے گا۔خان نے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیئے اپنے دو وزیرملا حسن اور سید محمد شریف کو مامور کیا۔
میر محراب خان کوبر طانوی عزائم کا اس وقت علم ہوا جب بر طانوی فوج شاہ شجاع کو کابل کے تخت پر بٹھا نے کے بعد4نومبر1839 کو کو ئٹہ سے بولان کی بجائے قلات روانہ ہو ئی۔خان نے مقا بلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور سرداروں کو قبائلی لشکر مدد کو لانے کا حکم دیا۔جھالاوان کے کئی رنجیدہ سرداروں نے حکم کی تعمیل نہیں کی۔مغربی بلوچستان کے سردار بر وقت مدد کونہ پہنچ سکے۔
مشرقی بلاچستان کے قبائل پہلے سے برطانوی قافلوں پر حملوں میں مصروف تھے۔خان نے اپنے کمسن ولی عہد محمد حسن کو نوشکی دروغہ گل محمد کی حفاظت میں بھیج دیااور اخوند محمد صادق کے ہمراہ انگریز کمانڈر میجر جنرل ویلشائر(Major General Willshire )کو مفا ہمت کا پیغام بھیجااور کہاکہ ’’ حملہ روک دو ، میں صلح کے لیئے تیار ہوں ، دوبدوبات چیت کریں گے ، دوسری صورت میں آپ مجھے قلعہ کے داخلی دروازے پر ننگی تلوار ہاتھ میں لیئے پا ئیں گے۔
انگریز جنرل کو خطرہ پیدا ہوا کہیں نوشکی سے خان کے بیٹے کے ہمراہ کمک پہنچ نہ جائے اس نے بات چیت کا عمل رد کردیا۔اسی دوران انگریز فوج میں افواہ پھیل گئی کہ خان نے اعلان کیاوہ مظلوم ہندوستا نیوں کی بجائے صرف انگیریزوں سے نپٹے گا۔
اخوند محمد صادق نے خان کو بھاگنے کا مشورہ دیا لیکن محراب خان نے اس مشورہ کو ٹھکرادیا۔خان نے ہندو کمیو نٹی سے کہا غیر مسلم ہونے کے ناتے آپ پر جہاد فرض نہیںآپ جنگ میں حصہ نہ لیں، اس کے باوجودکئی ہندو تلواریں سونت کر خان کے فوج میں شامل ہوگئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔
خان نے ایک قا صد اپنے بیٹے کے پاس نوشکی بھیجا،اسکے ہمراہ ایک ’’ مسکٹ (Musket ) بندوق جس پر23 پشتوں تک اسکے آباؤ اجداد کے نام سونے سے کنندہ تھے بھیجا تاکہ کمسن شہزادہ ضرورت پڑ نے پر اپنی شناخت ثابت کر سکے۔
پیغام میں خان نے بیٹے کو نصیحت کی کہ انگریزوں سے جلد صلح نہ کرو،اور نہ ان غدار سرداروں پراعتبار کرو، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دیا،تمباکو نوشی سے پرہیز کروکیونکہ یہ شراب نوشی کی جانب لے جاتا ہے، شراب نے تمہارے چچا میر اعظم خان کوتباہ کیا وہ کوئی عوامی عہدہ سنبھا لنے کے قا بل نہیں رہا، اگر تم نے میرے آ خری وصیت پر عمل نہ کی تو میں ،محراب خان قبر سے نکلوں گا اور تمہاری سر زنش کرونگا۔‘‘
اس جنگ میں میر محراب خان کی فیلڈ فورس 2000 تھی اور چند سو لوگ نزدیکی گاؤں سے جمع ہوئے تھے،اور 5گنیں تھیں۔بر طا نوی فوج میں 2000 آفیسر اور سپاہی تھے۔جس میں دو برطانوی فوجی یونٹس،سیکنڈ (کوئین)سترویں پیادہ رجمنٹ اور اکیسویں بنگال نیٹو انفنٹری ،ہر ایک 300 سو سپا ہیوں پر مشتمل تھا شامل تھے۔اس کے علاوہ گھوڑ سوار دستہ دو سکواڈرن پر مشتمل تھی ۔توپ خانہ میں دو9 انچ ہووٹزر،4 چھ پی آر ڈی(6-prd )لا ئیٹ فیلڈ گن شامل تھے۔
13 نومبر 1839 کو برطا نوی فوج قلات پہنچ گئی۔ خان کی تو پیں شمال کی جانب تین پہا ڑیوں کے اوپر مور چوں کے پیچھے تھیں، جہاں فوج کا بڑا حصہ بھی تعینات تھا۔بلندو بالا قلعہ کے سا منے والے حصے میں فوجیں اور پچھلے حصے میں لوگ ٹو لیوں میں تھے جن میں خوا تین بھی شامل تھیں جو اپنے باد شاہ اور فرنگی کے ما بین جنگ کا منظر دیکھ رہے تھے۔خان کے تو پوں نے گولہ باری شروع کی۔
ویلشائر نے تینوں پہا ڑیوں پر ایک بار حملے کا فیصلہ کیا۔اس نے ہر بٹا لین کو علیحدہ پہا ڑی الاٹ کی میجر جون پنچک (Major John Pennyeuick ) نے دو کمپنیوں ،کو ئین اور لا ئیٹ انفنٹری کی قیادت کی۔بر طا نوی توپخا نے نے گولے برسانا شروع کیئے ،اور پیدل فوجیں بھی آگے بڑھنے لگیں۔
فوجوں پر مسلسل توپخا نے اور توڑیدار بندوقوں سے فا ئرنگ ہو رہی تھی۔خان کی فوجیں توپخانے کی شدید فائرنگ اور سرخ کوٹ والوں کی مسلسل پیش قدمی سے بددل ہو کر واپس شہر کے شمالی دروازے(قندھاری دروازہ )کی جانب پسپا ہو گئیں اور کوشش میں تھیں کہ زیادہ سے زیادہ کار آمداسلحہ ساتھ لے جا ئیں۔
ویلشائر نے اوت رام کو حکم دیا کہ کوئین رجمنٹ پہاڑی کی بجائے اب شہر کی جانب بڑھے تاکہ پسپا ہوتی فوج بھاگ کر جب قلعہ میں دا خل ہو تودروازہ بند ہونے اور ان کے سنبھلنے سے پہلے پہنچا جائے ۔
لیفٹیننٹ تھا مس ہولڈورتھ کے مطا بق ہم پہاڑی سے نیچے منظم سپاہیوں کی بجا ئے شکاری کتوں کی مانند پسپا ہو تی فوج کی جانب دوڑے،ہم پر قلعہ کی فصیلوں سے سخت فائرنگ ہو رہی تھی اچا نک آگے والے سپا ہیوں نے چلایا ’دروازہ بند ہے‘پھر ہر ایک پناہ کی تلاش میں بھاگا۔ غیر متوقع طوررجمنٹ کی اکثریت نے ایک پرانے کھنڈر کی جانب دوڑ لگائی جہاں مشکل سے بیس آدمی سما سکتے تھے، لیکن یہ پناگاہ بھی دوبرجوں کے فائرنگ کے زد میں تھی۔
اسطرح کوئین رجمنٹ کے لیفٹیننٹ تھا مس گریواٹ(Leutenant Thomas Gravat )بمعہ 8 سپا ہیوں کے مارے گئے۔اور مزید 7 بری طرح زخمی ہوئے۔ہولڈ ورتھ (Holdworth ) اور دوسروں نے ایک چھو ٹی دیوار کے نیچے پناہ لی وہ شدید فائرنگ میں پھنس کے رہ گئے۔
پنی کو ئیک کی دو کمپنیاں 300 گز سے ایک دیوار کی جانب بھا گئیں جو گیٹ سے 30 گز کے فا صلے پر تھیں ، اس پیش قدمی سے تین سپاہی اور ایک بہشتی مارے گئے۔جب خان کی فوج نے بلند مقام کو خالی کیا تو بر طانوی توپوں نے قندھاری دروازے کی حفا ظتی بر جوں پر گو لے برسانے شروع کیئے اور کسی حد تک توڑیدار بندوقوں کی فائرنگ کم ہو گئی ،پھر دروازے پر گولہ باری ہوئی لیکن وہ پرانا دروازہ پھر بھی نہ گرا۔
بمبئی ہارس آر ٹیلری کے کیپٹن ہنری گریڈاپنے رہ جانے والے گنوں کیساتھ تیزی سے گیٹ سے صرف 150 گز کے فا صلے پر پہنچے اور گو لوں کی بو چھاڑ کر کے گیٹ کو گرادیا۔اس دوران جنرل ویلشائر بھی دو کمپنیوں کے ساتھ پہنچ گئے ، اوت رام (Outram )نے کوئین کوپیش قدمی کا حکم دیا۔
اس کے پیچھے جنرل ویلشائر ٹوپی لہراتے پیش قدمی کے نعرے لگا رہا تھا۔گیٹ سے گزرتے ہوئے کچھ اور سپاہی کام آئے۔تو ڑیدار بندوق برداروں نے پسپا ہو تے ہوئے آخری بو چھاڑ کردی تھی۔جب فوج قلعہ میں داخل ہوئی تو چھو ٹی گلیوں میں تقسیم ہو گئی ،ہر کوئی لوٹ مار کی کو شش میں تھا۔
ہولڈ ورتھ(Holdworth ) کو ایک گولی لگی اور وہ گر گیا، خوش قسمتی سے اسے چند سپا ہیوں نے دیکھ لیااسے ڈولی میں ڈال کر با ہر پہنچا دیا۔بلوچ تلوار وں اور اسپر (Shield )استعمال میں لا کر ہر جگہ ہمارا مقابلہ کر رہے تھے۔پھر فوج کوایک تاریک سرنگ سے گزرنا تھاجس کے دوسرے سرے پر تلوار برداروں سے مقابلہ تھا،ایک بار فوج واپس پلٹی پھر منظم ہو کر آگے بڑھی اور سرنگ عبور کر نے میں کا میاب ہو گئی۔
یہ راستہ قلعہ کے زنانہ حصے کو جاتا تھا جہاں خود محراب خان نے پوزیشن سنبھا لی ہوئی تھی۔ خان تلوار سونت کر لڑائی میں شامل ہو گئے،جیسا کہ اس نے ویلشائر سے کہا تھا کہ وہ کریگا۔اسے کئی زخم آئے اور ایک درجن کے قریب گولیاں لگیں لیکن وہ بر ابرلڑ رہے تھے۔آخری گولی ایک توڑیدار بندوق کی تھی جس سے وہ گر گئے۔خان کے ساتھ 7-8 سرداراور کئی دوسرے بھی وہیں شہید ہو ئے۔
خان کے پیچھے وزیر ملا حسن ،اخوند محمد صادق اور رحیم داد (نائب کو ئٹہ)تقریباً 80 آدمیوں کے ساتھ پوزیشن سنبھا لے ہوئے تھے۔ان تک سیڑھی کا ایک تنگ راستہ جاتا تھا جہاں توڑیدار بندوق برداروں نے پوزیشن سنبھا لی ہوئی تھی۔
ناکام کو ششوں میں کئی سپاہی کام آئے، آخر جب وزیرنے دیکھا کہ محراب خان شہید ہو چکے ہیں تو جان بخشی کے وعدے پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔لڑائی ختم ہو نے پرمحراب خان کی نعش مسجد پہنچائی گئی اور اسلامی رسوم کے مطابق اسی دن ،13 نومبر، کو دفنا دی گئی۔خان کے 400 سو آدمی مارے گئے۔ برطا نوی فوج کا ایک افسر اور32 سپاہی مارے گئے اور 8 آ فیسر اور107 سپاہی رخمی ہوئے۔
کو ئین رجمنٹ کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔یہ مشہور غزنی کی لڑائی سے زیادہ سخت لڑائی تھی۔مال غنیمت میں کافی غلہ ،ایرانی قالین اور ساٹھ ہزار کی جیولری ملی۔نقدی بہت کم ملی تھی حالانکہ اسکی زیادہ امید تھی۔
ویلشائر نے اوت رام (Outram ) کو سومیانے سے بمبئی جانے کا حکم دیا وہ افغان پیر کا روپ دھار کرکوئٹہ کے دو سیدوں کے ساتھ 15 نومبر کی رات قلات سے نکلا ، راستے میں کئی دیہاتوں میں محراب خان کی شہا دت کے سوگ کی رسومات میں شرکت بھی کر تے رہے۔سومیانی میں ایک ہندو تاجر نے اوت رام کو کشتی مہیا کی وہاں سے وہ کراچی پھر بمبئی پہنچ گئے۔
میر شہنواز خان کو قلات کے تخت پر بٹھایا گیا۔ایک معاہدے کے تحت اس نے شاہ شجاع کی سر پرستی قبول کی شال اور مستونگ شاہ شجاع کے حوالے کیئے جہاں سے سب سے زیادہ ریوینیو اس غریب ملک کوحا صل ہوتی تھی۔بولان برطا نیہ اور ہڑند سکھوں کے حوالے کی۔
ویلیم لو دے(William Loveday )کو قلات میں شہنواز کی مدد اور رہبری کے لیئے بٹھایا گیا۔لودے شہزادہ محمد حسن کی گرفتار ی کے لیئے پہلے نوشکی پھر پنجگور گئے لیکن شہزادہ خاران چلا گیا۔ان تمام اقدامات سے بلوچ سرداروں نے جانچ لیاکہ شہنواز انگیزوں کاایک کھٹ پتلی ہے۔اور کھٹ پتلی بننے کے عوض وہ انکے ملک کو انگریزوں کے حوالے کرنے کو بھی تیار ہے۔
مستونگ کے سردارمحمد خان شہوانی نے شاہ شجاع کی ما تحتی اور ٹیکس دینے سے انکار کیا،اس پر لودے نے اپنے منشی کو پچیس سپا ہیوں کے ساتھ مستونگ بھیجا،سردار محمد خان نے منشی کو بمعہ سپا ہیوں کے قتل کردیا۔
سردار محمد خان نے ساراوان کے سرداروں کوبغاوت کی دعوت دی اور شہزادہ محمد حسن کو مستونگ آکر قبا ئل کی قیادت کر نے کی درخواست کی۔شہزادہ ،انکے ہمیشہ سے وفادار درو غہ گل محمد،سردار آزاد خان نوشیروانی (جنہوں نے اپنی پیاری بیٹی شہزادے کو بیاہی تھی)،شہزادہ کی والدہ بی بی گنجان مستونگ پہنچ گئے۔ قبا ئلی لشکر کے ہمراہ کو ئٹہ قلعہ پر قبضے اور خزانہ لوٹنے روانہ ہوئے۔لیکن وہاں انہیں ناکا می ہوئی۔پھر قلات کے لیئے روانہ ہوئے۔
جولائی 1840 کو شہزادہ محمد حسن جنہیں اب نصیر خان دوئم کا خطاب دیا گیا تھالشکر اور سا تھیوں کے ہمراہ قلات پہنچ گئے۔تین دن کے حملوں کے بعدقلعہ کا دفاع کمزور پڑ گیا۔ساراوان اور جھالاوان کے سرداروں نے ایک معا ہدہ کیاجس کے تحت شہنواز قلعہ خالی کر کے با غوان(Baghwan ) چلا گیا اور نصیر خان دوئم کو قلات کے تخت پر بٹھا یا گیا۔لودے اور میسن (جو ایک برطانوی جاسوس تھا )کو قید کیا گیا۔
میسن کے مطابق انہیں اپنے کیمپ سے قلعہ تک لے جاتے ہوئے ایک ہجوم سے گزرنا پڑا جنہوں نے ان پر پتھراؤ کیا اور تھوکا۔میسن کی کچھ دن بعد دروغہ گل محمد کے سامنے پیشی ہوئی میسن کے مطا بق درو غہ گل محمددراز قد، عمر رسیدہ ، ناگوار خدو خال ،ایک آنکھ سے اندھا اور سچ بولنے والاآدمی تھا۔اسکا سر فالج سے متا ثر تھا۔بر طانوی غلط کاریوں اورتکالیف کی وجہ سے مجھے دیکھ کر اسکے آنکھوں سے خون ٹپکنے والا تھا۔
اس نے کہا ’’ا سی کمرے میں سکندر(Alexander Burn )نے حضرت عیسیٰ کی قسم کھا ئی کہ برطانیہ کے آپ کے ملک کے بارے کوئی برے عزائم نہیں۔محراب خان نے انکی مدد کی، پھر فرنگی نے کس طرح بدلہ چکایا؟ہم پر حملہ اور محراب خان کی نعش کی بے حر متی کی۔اس نے دھمکی دی اگر امن سمجھو تہ نہ ہواتو بلوچ بر طا نیہ کی افغا نستان تک آمدورفت منقطع کر دیں گے‘‘۔پھر میسن کو کوئٹہ جانے دیا گیا تاکہ بین سے ملکر واپس آئے۔بین کا کہنا تھا، لودے محفوظ ہے کیونکہ بلوچ اپنے قیدی قتل نہیں کرتے۔
انگریزوں نے دوبارہ قلات پر حملے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ خان نے شاہ شجاع کے ساتھ معا ہدے کی تجدید سے انکار کیا۔میجر جنرل ویلیم نوٹ(Major General William Nott )کی سرکردگی میں فوج25 اکتوبر 1840 کو قلات سے روانہ ہوئی۔لیکن نصیر خان قلات سے کچھی روانہ ہو چکا تھا۔
3 نومبر1840 کوانگریز فوج بغیر مزا حمت قلات میں داخل ہوئی۔نصیر خان کے لشکر نے ڈھا ڈر میں انگریز چوکیوں پر حملہ کیا، جب کمک پہنچی تو خان نے ڈھاڈر خالی کر کے’ کوٹرا ‘ میں کیمپ کیا ۔ ڈھاڈر ہی میں ’لودے‘ کے گارڈ ،قاسم شہوانی (قا سو شہوانی )نے اسے قتل کردیاکیونکہ وہ تیز دوڑنے پر راضی نہ تھا اور انگریز ی فوج پیچھا کررہی تھی۔
کوٹرا میں خان اور انگریز کے مابین بات چیت شروع ہوئی، 1 دسمبر 1840 کی صبح اچانک برطا نوی فوج نے کوٹرا پر حملہ کیاگوکہ مذاکرات جاری تھے۔خان اس حملے کے لیئے بالکل تیار نہ تھا۔اس لڑائی میں4 سردار اور 500 بلوچ شہید ہوئے8 سردار اور132 زخمی ہوئے۔خان بمع دوسرے لشکریوں کے بچ کر پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔
اس کے بعد انگریز بلوچوں میں ’دھوکہ باز‘ مشہور ہوا۔برطانوی افسروں نے پھر بات چیت شروع کی جس کے نتیجہ میں جولائی 1841 میں نصیر خان دوئم قلات میں داخل ہوا۔وہاں موجود انگریزی فوج نے انہیں سلامی دی۔شال، مستونگ اور ہڑند خان کو واپس مل گئے وہ معاہدہ جو محراب خان سے ہواتھا بحال ہوگیا۔