|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2017

کراچی: انٹرنیشنل سینٹرفارپولیٹکل وائلنس اینڈٹیررازم ریسرچ سنگاپورکے سربراہ ڈاکٹرروہن گنارتنہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں داعش سمیت دہشت گردوں کے 14گروپس کام کررہے ہیں۔پاکستان سے2ہزارسے زائدافرادداعش میں شمولیت اختیارکرچکے ۔

تین ہزارسپورٹرزموجودہیں۔سندھ میں کراچی،شکارپور،حیدرآباداور بلوچستان میں مستونگ،قلات اور خضدار میں داعش بھرپورطریقہ سے سرگرم ہے۔

ان خیالات کا اظہارانہوں نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے تحت’’ساؤتھ ایشیاء میں امن‘‘ کانفرنس میں’’دہشت گردی سے مقابلہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیشن میں ویڈیولنک خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹرروہن گنارتنہ کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان ،شدت پسندگروہوں داعش میں بھرتیاں اوران کیلئے فنڈزاکٹھے کررہے ہیں۔

داعش میں بھرتی بیشترافرادڈاکٹرز،انجینئرز،سافٹ ویئرایکسپرٹ ہیں۔جن میں بیشترکاتعلق متوسط طبقہ سے ہے۔جو سریا،عراق،یمن اور لیبیامیں داعش کیلئے کام کررہے ہیں۔

داعش بھارت،کشمیر،سری لنکا، مالدیپ میں بھی بھرپورسرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے لیڈراور داعش کے پہلے علاقائی سربراہ حافظ سعیدخان افغانستان میں 2016میں ڈرون حملے میں ماراگیا۔

اسلامک اسٹیٹ لیڈرمولوی عبدالحسیب 27اپریل2017کوافغانستان کے علاقے نگرہارمیں ڈرون حملے میں ماراگیا۔

اس کاتعلق بھی پاکستان سے تھا۔داعش پاکستان اور افغانستان میں محدودنہیں ہوئی بلکہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔پنجاب میں لاہوراوردیگرشہروں میں کام ہورہاہے۔

سینئرصحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے طالبان ڈائیلاگ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں2002سے 2017 تک 16ملٹری آپریشنزہوئے۔

پرویزمشرف دورمیں طالبان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔یہ آپریشن اردو،پشتو،انگلش ناموں سے مشہورہیں۔

راہ نجات،راہ راست،ضرب عضب،راہ حق،کوہ سفید،المیزان،آپریشن زلزلہ،آپریشن شیردل،صراط مستقیم ودیگرشامل ہیں۔

طالبان سے بات چیت کے درجنوں پیس ایکارڈموجود ہیں۔ان میں سے بیشتر معاہدے طالبان لیڈرزاور کچھ ان کے ایلڈرز لیڈروں سے طے پائے۔

2005میں بیت اللہ محسود سے معاہدہ کیاگیا۔اس وقت200فوجی نوجوان ان کی قیدمیں تھے،جس میں یہ طے پایاکہ سرکاری عمارتوں،حساس تنصیبات ،فورسزکونشانہ نہیں بنایاجائیگا۔طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی،آپریشن بندش سمیت متعددکام لئے گئے۔

کچھ معاہدوں کی طالبان کی جانب سے پاسداری نہیں کی گئی،سیاستدانوں کے کچھ فیصلوں کوآرمی نے نہیں مانا۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے 2013کے انتخابات کے بعدامن مذاکرات کیلئے طالبان سے بات چیت کاسلسلہ شروع کیا۔جوزیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

آرمی پبلک اسکول سانحہ کے بعدفوجی قیادت نے بھرپورطریقہ سے طالبان قیادت کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔

امریکانے ڈرون حملوں میں پاکستان میں طالبان کمانڈرملانذیر،حقانی نیٹ ورک،تحریک طالبان کمانڈربیت اللہ محسود،حکیم اللہ محسود،افغان طالبان کمانڈرملااخترمنصورسمیت اہم طالبان رہنماؤں کونشانہ بنایاہے۔

پاکستان میں ہونے والے 80فیصدامریکی ڈرون حملے پاکستانی ایجنسیوں اور امریکی سی آئی اے کے درمیان انفارمیشن شیئرنگ کے ساتھ ہوئے۔

ڈرون ٹیکنالوجی اس ضمن میں کارآمدثابت ہوئی ہے،پاکستان امریکاسے ڈرون ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئے کوشش کررہاہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے سابق وزیراعلی ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے مذاکرات کئے،وہ خان آف قلات سے اس سلسلے میں ملاقات کیلئے لندن بھی گئے۔سوئٹزرلینڈمیں براہمداغ بگٹی سے بھی بات چیت کی۔ڈاکٹراللہ نذربلوچ بلوچستان میں ہی موجودہیں۔

گزشتہ دنوں ان کے اہلخانہ کوگرفتارکیاگیاپھربعدمیں انہیں رہاکردیاگیا۔پاکستان کوعلیحدگی پسندوں،لسانی،مذہبی بنیادوں پرچیلنجزکاسامناہے۔

اس وقت فاٹاسنگین مسئلہ ہے۔بعض جماعتیں اس کے انضمام پرمتفق اور چندمخالف ہیں۔ان مسئلہ کوحل نہ کیاگیا تودہشت گردی سمیت خطے میں حالات سنگین ہوجائیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر)طارق کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہزاروں افراد کی قربانیاں دیں۔

170بلین کامعاشی نقصان پاکستان میں نائن الیون کے بعددہشت گردی شروع نہیں ہوئی۔لیاقت علی خان کے قتل کے وقت سے پاکستان کودہشت گردی کا سامناہے۔

کشمیراورفلسطین میں مزاحمت کودہشت گردی کارنگ دینادرست نہیں ہے۔مزاحمت کرناکوئی دہشت گردی نہیں ہے۔

افغانستان میں دنیابھرکی فوجیں موجودہیں۔امریکا،نیٹوسمیت عالمی طاقتیں اور فوجیںآج تک افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہیں۔

افغانستان میں جنگ سے متاثرہ3.5ملین مہاجرین کوکسی ملک نے نہیں اپنایا،پاکستان نے تین ماہ میں انہیں اپنے ملک میں جگہ دی،آج 40سال ہوگئے ہم ان کابوجھ اٹھارہے ہیں۔

ملٹری آپریشن دہشت گردی کے خاتمہ کاحل نہیں ہے۔بات چیت کے ذریعے ہی معاملات ہوسکتے ہیں۔