کوئٹہ: ممتاز قبائلی وسیاسی رہنماء سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے ساتھیوں سمیت بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت، باقی صوبوں اور قومی کہلانے والی جماعتوں نے بلوچستان کو نظر انداز کر رکھا ہے ۔ بلوچستان کے لوگوں کو فرقہ، زبان و نسل اور دیگر بنیادوں پر اختلافات ختم کرکے وسیع تر مفاد میں صوبے اور اس کے عوام کو با عزت مقام اور حقوق دلانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، عوامی حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے والی قوتوں کے خلاف بھی پرامن ، جمہوری اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے ، مسلط شدہ مصنوعی قیادت کونکال باہر کرنا ہوگا۔ وہ اتوار کو کوئٹہ کے علاقے سریاب کے ایک میرج حال میں بی این پی میں شمولیت کے اعلان کے موقع پر خطاب کررہے تھے۔
اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، جنرل سیکرٹری سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ،بی این کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ،رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی ،آغا حسن بلوچ ،موسیٰ بلوچ ،بی ایس کے چیئرمین نذیر بلوچ سمیت سینکڑوں کارکنان موجود تھے۔
نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے ہمراہ سیاسی وقبائلی عمائدین نے بڑی تعداد میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ۔نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہاکہ پاکستان کو 1940کی قرارداد کے مطابق نہیں چلایا جارہاہے ملک کی اکائیوں کے درمیان فرق کیا جارہاہے ۔
ستر سال سے کسی منتخب حکومت کو نہیں چلنے دیا گیا چھوٹی قومیتوں کو انکے وسائل پر حق اور تشخیص کا فیصلہ نہیں کرنے دیا جارہاہے کبھی غیر جمہوری سول حکومت تو کبھی مارشل لاء کی صورت میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کوتسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے چھوٹی قومیتوں میں احساس محرومی نے جنم لیا اور ون یونٹ بناکر جلتی پر تیل چھڑک نے کا کام کیا گیا اور اس وقت کے دانشور اور دوسرے طبقوں نے دلیل کیساتھ اس کا تحفظ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا ۔
انہوں نے کہاکہ وہ قوتیں جو اپنے آپ کو طاقتور سمجھتی ہیں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنے رویوں کو آگے بڑھاتے گئے جو سمجھتے ہیں کہ ملک کو کالونی کی طرح چلایا جاسکتا ہے اور چھوٹی اکائیوں کو پسماندہ رکھ سکتے ہیں انکے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہاکہ میں فیڈریشن کی پارٹیوں کیساتھ سیاست کی اور بلوچستان کے حقوق کی آواز بلند کی مگر جو لوگ اسلام آباد جاتے ہیں انکے ضمیر مر چکے ہیں وفاق میں بلوچستان کے لوگوں کیساتھ کوئی باعزت روئیہ نہیں رکھا جاتا بین الااقوامی ادارے نے بھی بلوچستان کو خطے کا کرپٹ ترین علاقہ قراردے دیا ہے ۔
یہاں پچاسی فیصد بجٹ کرپشن کی نظر ہوجاتاہیں جعلی الیکشن کے تحت صوبائی اور قومی اسمبلی میں لوگوں کو لایا جاتا ہے اور وہ اپنے آقا کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں انہیں بلوچستان کیساتھ کوئی دلچسپی نہیں یہاں قوتیں ایسے لوگوں کو آگے لاتی ہیں جو بلوچستان کے لوگوں کی ترقی نہیں چاہتے اور اپنے معاملات کو آگے بڑھا نا چاہتے ہیں ہم آئین کو اٹھارویں ترمیم کے مطابق بحال کرینگے صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی بنائیں گے اور بلوچستان میں خوشحالی لائیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ وہ سوچ جو بلوچستان میں مسلط ہے او ربلوچستان کے لوگوں کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتی کو ختم کرنے کیلئے قومی یکجہتی ،ذاتی مفادات ،مذہب ،نسل ،رنگ سے بالادست ہوکر پرامن سیاسی جدوجہد کریں اور بلوچستان کو وفاق میں باعزت مقام دلوائے ۔
انہوں نے کہاکہ طویل عرصے سے ساتھیوں کیساتھ مشاورت میں تھا اور ایک اہم فیصلہ کیا کہ بلوچستان کو اس کے حقوق دلوانے ،سائل وساحل پر حق ،ماؤں بہنوں کے حقوق اداد کرنے کیلئے سردار اختر مینگل کی قیادت میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت کرکے ان تما م حقوق کیلئے جدوجہد کریں ۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کو میڈیا بلیک آؤٹ کے تحت چلایا جارہا ہے تاکہ وہ لوگ جن وفاقی ادارے یا جو دوسرے صوبوں میں سیاست کرتے ہیں انکو بلوچستان کے عوام کا آئیڈیل بنایا جائے اسلام آباد میں دھرنا ہوا جو نہ بلوچستان نہ آئین قانون اور ووٹ کی بالادستی کیلئے تھا مگر کچھ قوتیں چاہتی ہے کہ اس شخص کو لیڈر بنایا جائے او راپنے مفاد حاصل کریں ۔
بلوچستان میں مذہبی بنیادوں ،وکلاء ،پولیس ،سیٹلر ،پشتون ،بلوچ افراد کا ہزاروں کی تعداد میں قتل ہوا مگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ان مسائل پر بات نہیں کی لیکن وہی سیاسی جماعتیں چودہ آدمیوں کے قتل کو بار بار یاد کرتی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ صوبے کے لوگوں کو اپنا خود کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہاکہ وزیراعلی پنجاب چنیوٹ کے ایک بلین ڈالر کے تانبے کے ذخائر پر قبضے کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں مگر بلوچستان کے تین سو ارب روپے کے سونے ،چاندی اورمختلف دہاتوں کے ذخائر ریکوڈک پر کسی نے کبھی کوئی بات نہیں کی لیکن ہم پر تنقید کرتے ہیں کہ یہاں پر ہم پینے کا پانی نہیں دیتے سیندک کا سودا کرکے جو یہاں کے معدنیات باہر لے جائے جارہے ہیں ۔
وہ کون کرتا ہے کینیڈا والا مولوی صرف چودہ آدمیوں کا ماتم کرتا ہے وہ بار بار کہتا ہے کہ بلوچستان میں سونے کے ذخائر ہیں ہمیں ہمیشہ ان سے پوچھتا ہوں کہ انہیں سونا نظر آتا ہے مگر ہمارے لوگوں کا سرخ خون مولانا صاحب نظر نہیں آتا بار بار بتایا جاتا ہے کہ گوادر ہمارا مستقبل ہے ۔
جب ہم اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمارے ساتھ ظلم ،جبر ،زیادتی اور انتخابی نتائج کو تبدیل کیا جاتا ہے یہاں لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کی وجہ سے گوادر کا 91فیصد چین اور 9فیصد وفاق کو مل رہا ہے اور بلوچستان کیلئے کچھ نہیں بچا ہمیں کہاجاتا ہے کہ یہاں نو لاکھ نوکریاں آئیں گی ہم تو حق ملکیت کی بات کرتے ہیں آپ کیسے ہمیں نوکریاں دیں گے ۔
مزاحمت کی گئی تو یہاں کے سماج کو تقسیم کیا گیا اور ان لوگوں کو مراعات دی گئیں جنہوں نے اپنے مفاد کو ترجیح دی ۔انہوں نے کہا کہ میری سیاسی کارکنوں ،باشعور لوگوں اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھر پور آواز میں آئین ،قانون ،پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے سردار اختر مینگل کی قیادت میں قومی جدوجہد کریں اور 1940کی قرارداد کے تحت حقوق حاصل کریں ۔
انہوں نے کہاکہ یہاں کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں کو دیوار کیساتھ لگا کر دہشتگرد قراردیا جائے اور انکو مارجا ئے اور ہم قطعاایسا نہیں ہونے دینگے اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پرامن سیاسی جدوجہد کرکے ان راستوں کو اپنائیں گے جو ہمارے سیاسی اکابرین نے آئینی جدوجہد کے تحت منتخب کئے ہیں اور ایک ایسا سماج تشکیل دینگے جہاں ہر طبقے کے لوگ باعزت اور باوقار زندگی گزار سکیں گے اور مسلط شدہ جعلی لوگوں کو اقتدار سے باہر نکال دینگے ۔