|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2018

نواب ثناء اللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی نے ایک نیا قائد ایوان منتخب کرلیا۔ نئے قائد پاکستان مسلم لیگ قائداعظم سے تعلق رکھتے ہیں اس طرح سے اب بلوچستان کی حکومت نواز شریف اور اس کی پارٹی کی نہیں رہی۔

نواب ثناء اللہ زہری کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا اور ق لیگ کے اراکین اتحادی حکومت کا حصہ تھے۔ عبدالقدوس بزنجو کو قائد ایوان منتخب کرلیا گیا ۔

ن لیگ کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی اور پی ایم اے پی بھی حکومت کا حصہ نہ رہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلم لیگ ن کے ساتھ نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو اقتدار سے الگ کردیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نیشنل پارٹی کے دوبارہ حکومت میں شامل ہونے کے امکانات موجود رہیں گے اور اکثریتی گروہ ان کو قبول کرنے کو تیار ہوگا۔ حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک نواز شریف کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں کوئی تلخی لانا نہیں چاہتے جس سے نواز شریف ناراض ہوں۔

حاصل خان بزنجو 1990سے نواز شریف کے ساتھ ہیں اور اب بھی تعلقات کا وہی معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پختونخوا کا معاملہ دوسرا ہے شاید اس کے لئے موجودہ حکومت میں کوئی ہمدردی نہ ہو اس لئے ان کی حکومت میں شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، موجودہ حالات میں اس کا امکان نہیں کہ ان کو دوبارہ اقتدار میں شامل کیا جائے ۔ بلوچستان کی تین طاقتور قوتیں حکومت سے الگ ہوگئیں۔

ڈاکٹر مالک اور نواب ثناء اللہ زہری کی حکومتوں میں عبدالرحیم زیارتوال اپنے آپ کو نائب وزیراعلیٰ نہ صرف سمجھتے رہے بلکہ انہوں نے یہی طرز عمل اپنا بھی لیا تھا۔ ایک بار جب سرکاری بینچوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ اراکین اسمبلی نے ایک قرر داد پیش کی کہ چاغی، خاران، نوشکی اور واشک پر مشتمل نیا انتظامی ڈویژن بنایا جائے۔

پوری پارلیمنٹ نے اس کی حمایت کی سوائے پشتونخواہ میپ اراکین کے ۔ چونکہ وزیراعلیٰ ایوان میں موجود نہیں تھے تو فلور پر زیارت وال نے قبضہ کرلیا اور اس قرارداد کو ویٹو کردیا یوں بلوچوں کو ایک اضافی انتظامی ڈویژن سے محروم رکھا۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب ثناء اللہ زہری نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا مگر اس بار وہ اقتدار سے باہر ہوں گے تاوقتیکہ آئندہ انتخابات نہ ہوں بلکہ عارضی حکومت میں بھی ان کی نمائندگی نظر نہیں آتی۔

ان تمام حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اصلاح احوال کے لئے بہت سارے اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ان میں فنڈ زکا صحیح استعمال اور گھٹیا اسکیموں پر پابندی جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ بنائے گئے ہیں۔

آزاد ماہرین معاشیات کے مطابق صوبائی ترقیاتی پروگرام کا 80فیصد اس قسم کے گٹر اور گھٹیا اسکیموں پر مشتمل ہے۔ بہر حال بلوچستان کی بڑی اور اہم پارٹیاں حکومت سے باہر ہوئی ہیں،دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کی یہ اہم پارٹیاں دوبارہ کب اقتدار میں واپس آئیں گی۔