|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2018

پنامہ سے لیکر اکامہ تک میاں صاحبان کو بد عنوانی کے داؤ نے پچھاڑ دیا. اسی صورتحال اور میاں صاحبان اور ن لیگ کی کمزور رگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے اہم پہلوان عمران خان نے ن لیگ سے کشتی لڑنے کے لیے بہت سارے داؤ پیچ سیکھے اور اکھاڑے میں اپنے رانوں کو تھپکی دیتے ہوئے پہنچ گئے۔

سندھ میں پی پی پی کے پہلوان سیاسی خواراک کی کمی کی وجہ سے بہت کمزور پڑ گئے تھے۔ ن لیگ کی شکست در شکست سے پی ٹی آئی کے پہلوانوں کا حوصلہ بڑھتا رہا اور پی پی پی نے بھی اسی اکھاڑ پچھاڑ کو دیکھ کر اپنے پہلوانوں کو کمر کسنے کی تیاری کروائی اور کشتی میں حصہ لینے لگے۔ن لیگ کا اہم پہلوان جو کہ پہلوانوں کا سربراہ یعنی میاں نواز شریف بڑے داؤ کے بعد تو چت ہو گئے لیکن انہوں نے یہ کہا کہ یہ داؤ کشتی میں غلط تھا جسکی بنا پر مجھے رنگ سے باہر کر دیا گیا. ۔

ریفری نے غلط فیصلہ دیا جسکی وجہ سے مجھے رنگ سے آؤٹ کر دیا گیا. اب میاں صاحب نے وائلڈ کارڈ انٹری کا سہارا لینا چاہا مگر نہ مل سکا. اسی سیاسی اکھاڑے کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے شیخ رشید نے بھی کمر کس دی اور اپنی سیاسی کشتی کا آغاز کرنے کے لیے عمران خان کی ٹیم سے ٹریننگ لی. سیاسی کشتی کا اکھاڑا بہت سر گرم تھا اور تماشائی یعنی عوام کشتی سے لطف اندوز ہو رہی تھی. ہر پہلوان کے پرستار اپنے پسندیدہ پہلوان کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے.۔

اسی اکھاڑے میں ایک اور موڑ آیا اور پاکستانی عوامی تحریک کا پہلوان طاہر القادری ماڈل ٹاؤن والے داؤ پہ کمر کس لی۔بہر حال اس سیاسی اکھاڑے میں ن لیگ کی سیاسی کشتی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا تھا کیونکہ ن لیگ 2013 کا چمپیئن تھا. اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی پی پی کا لائحہ عمل کار آمد ثابت ہوا۔ ن لیگ کی ایک اور کمزوری کرنے کی تیاری اور انکی اکھاڑے میں اپنے مخالف کو شکست دینے کے لیے سر کرداں ہو گئی ۔

اسی طرح سب نے مل کر وہ داؤ استعمال کرنے کا سوچا اور اکٹھے ہو گئے. یہاں ن لیگی پہلوان پریشانی کے عالم میں اپنی شکست در شکست سے دو چار ہوئے وہاں مخالفین نے اپنی تیاری بھر پور رکھی. مخالفین نے ماڈل ٹاؤن والا داؤ تو پہلے سے ہی تیار کیا تھا لیکن قصور والا داؤ یعنی سانحہ انہیں چیمپینز کے خلاف بہت تگڑا مل گیا۔بہرحال بات یہاں آجاتی ہے کہ بلوچستان میں جو ن لیگی پہلوان تھے انہیں بھی ریفری نے رنگ سے باہر کر دیا۔

پی پی پی کا اس ساری صورتحال میں پلڑا پی ٹی آئی کے ساتھ برابر رہا. جبکہ پی ٹی آئی کا پلڑا بہت بھاری تھا لیکن جہانگیر ترین کی صورت میں انکا ایک پہلوان کا کیریئر ختم ہو گیا۔تماشائی صرف معاجرہ دیکھتے رہے۔

تحریر سیاست کے اکھاڑے کی اس لیے ہے کہ سارے سیاسی حریف ایک دوسرے پر تنقید گالم گلوچ اور اپنے سیاسی مفادات میں ڈوبے ہوئے ہیں. ہر کوئی کہتا ہے تم غلط میں صحیح. بھئی ملک چلا رہے ہو یا نوٹنکی لگا رکھا ہے. عوام کو سب پتہ ہے کہ کون ہمارے لیے صحیح ہے۔

کون غلط. تم سیاسی لوگ اپنا نورا کشی ختم کر و. لیکن عوام بھی صرف تماشہ ہی دیکھ رہی ہے اور انہی نمائندوں کا ساتھ دے رہی ہے جنہوں نے ملک کو بہت گمبھیر حالات میں مبتلا کیا ہے. اور ریفری اپنی مرضی سے عوام اور پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کر رہا ہے. آخر کب تک یہ سلسلہ چلتارہیگا.