بلوچستان کی سیاسی صورتحال پاکستان میں وفاقی سیاست اور باقی ماندہ صوبوں سے قدرے مختلف ہے بلوچستانء کے سیاست، وزارت و مشاورت میں یہاں کے سرداروں نوابوں و دیگر قبائلی شخصیات کا کنٹرول عام آدمی سے زیادہ مظبوط اور مستحکم ہے۔ لیکن بنیادی طور پر بلوچستان کی اندرونی سیاست پر اثر و نظر وفاقی قوتوں کا کچھ زیادہ مظبوط دکھائی دیتا ہے۔
اس کی واضح مثال نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خلاف اچانک تحریک عدم اعتماد کا آنا اور بعد ازاں منتخب وزیر اعلیٰ کو استعفی دینے پر مجبور کر دینا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی منتخب وزراء4 اعلیٰ کو استعفی دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ 1998 میں سردار اختر جان مینگل کو بھی کچھ اسی نوعیت کے سیاسی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بلوچستان دیگر صوبوں اور وفاق کے مقابلہ میں تعلیمی، معاشی اور سیاسی میدان میں کافی پیچھے ہے یہاں سرکاری اسکول اور ہسپتال اپنی زبوں حالی خود ہی بیان کرتے ہیں۔پولیس عوام کے لیے پریشانی، بے چینی اور خوف کا سبب بنا ہے اس کے برعکس خواص کے لیئے ایک کارگر آلہ کار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ پولیس کے حربوں، عدالتوں میں سالوں سال چلنے والی کیسوں کی وجہ سے اپنے فیصلے زیادہ تر قبائلی و سیاسی رہنماؤں کے اٹل فیصلوں سے حل کراتے ہیں۔ علاوہ ازیں سرکاری ترقیاتی کاموں میں کمیشن اور کرپشن کا سن کر تو عام آدمی کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔
الغرض 70 سالوں میں بلوچستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جسے آئیڈیل قرار دیا جا سکے۔
عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لئے کوئی ایسی پالیسی بنائی گئی اور نا ہی ایسا کام کیاگیا جسے سنہری الفاظ میں لکھا جا سکے۔ لیکن مسائل… مسائل اتنے کہ جن کی انبار لگائی جائے تو بادلوں کو چو لیں۔
نوجوان نسل کو جانے انجانے میں مایوس اور ذہنی دباؤ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔اخلاقیات اور اقدار سیکھنے کی بجائے نوجوان نسل جھوٹ، دھوکہ، نشہ، سستی اور کاہلی جیسے معاشرتی خرافات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
غربت، افلاس اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کھیل اور معیاری تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ قابل قدر سیاسی، سماجی اور فکری رہنمائی نا ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل کا بیشتر حصہ کسی مثبت مقصد کے بغیر ہی زندگی جی رہا ہے پھر یہی نوجوان یا تو دہشت گرد بن جاتا ہے یا حقوق کیلئے ملک اور معاشرے کے بے حس نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آتا ہے۔ مقصد یہ کہ آج صوبہ کے ہر ہر طبقہ، ہر شعبہ اور ہر حصے میں انقلابی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
آج بلوچستان میں حکومت نوجوان نسل کے زمہ آئی ہے جسکی سربراہی و رہنمائی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اپنی کابینہ میں زیادہ تر وزارت کے قلمدان نوجوانوں کو ہی سونپ دیئے ہیں۔ جنکی سوچ فکر اور طرزِ سیاست روایتی سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر ہے۔ جو وطن، حقوق کے لیے جدو جہد، عوام کی ترقی اور خدمت کے جذبے سے سر شار ہیں۔
ان ناموں میں سرفہرست صوبائی کابینہ کے وزراء جن میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی، وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی میر عامر رند، وزیر بلدیات غلام دستگیر بادینی، وزیر مائنز اینڈ منرلز محمد اکبر آسکانی، وزیر ریونیو منظور احمد کاکڑا، وزیر قانون و پارلیمانی امور سید محمد رضا و دیگر شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے نوجوان مشیروں میں میر ضیاء اللہ لانگو، مشیر اطلاعات انوار الحق کاکڑ اور کہدا اکبر شامل ہیں۔
بنیادی طور پر بلوچستان کی سیاست قبائلی لسانی اور مذہبی نظریات پر مبنی ہے۔ بلوچستان میں وفاقی سیاسی قوتیں بھی اپنا قابل قدر وجود رکھتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا تعلق وفاقی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) سے ہے۔
وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد گزشتہ دنوں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا وزیر اعلیٰ بلوچستان سیکیورٹی خدشات اور سرکاری پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئیٹہ کے معروف شارع پر پہنچے اور شہریوں میں گھل مل گئے تمام شہریوں کے مسائل سنے اور کوئیٹہ شہر میں سڑکوں اور صفائی کی ابتر صورتحال پر برہم دکھائی دیئے انہوں نے موقع پر موجود متعلقہ محکموں کے افسران کی سرزنش کی اور احکامات جاری کیئے۔
وزیر اعلی کوٰ اہم شارع جناح دوڑ میں موجود ہر طبقہ اور سیاسی جماعتوں کے لوگ گھیرے ہوئے تھے اور کوئیٹہ شہر کو درپیش مسائل سے آگاہ کر رہے تھے وزیر اعلیٰ بلوچستان حقیقی معنوں میں ایک قومی لیڈر کی طرح سب کے مسائل سن رہے تھے لوگ یوں وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اپنے درمیان موجود دیکھ کر ورطہ حیرت میں تھے اور اپنی خوشی پر قابو نہ پاتے ہوئے سب نے یکا یک بلند آواز میں نعرہ لگایا “وزیر اعلیٰ بلوچستان زندہ باد”۔
یہ کوئی سیاسی اور نہ ہی کوئی نظریاتی نعرہ تھا بلکہ یہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے لئے محبت کا اظہار اور شہریوں کے دل سے نکلی آواز تھی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے 13 جنوری کو اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور کابینہ تشکیل دی۔ اگر اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل نہ ہوئی اور اپنی مدت پوری کی تو 13 جنوری سے 31 مئی 2018 تک میر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ 140 کے لگ بگ دن ہونگے۔
بلوچستان کے مسائل کے انبار کے سامنے 140 دنوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ بلوچستان کو درپیش مسائل گزشتہ 70 سالوں میں حل نہ ہو سکے اور نہ ہی 140 دنوں میں حل ہو پائیں گے۔ہاں البتہ عوامی خدمت کے جذبے سے سر شار اور صوبہ کے سیاسی اور
معاشی مسائل کے حل کا مصمم ارادہ کیئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔
انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں ہی واضح کیا کہ عوامی نمائندوں نے ان پر اعتماد کر کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بنایا ہے لہذا وہ امن و امان کی بحالی اور صوبہ کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ عوام اور عوامی نمائندوں کے توقعات پر اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اپنے پہلے خطاب میں صوبہ کے عوام سے وہ سب کہا جو اس پہلے حکمران کہتے رہے آئے ہیں لیکن عبدالقدوس بزنجو نے اتنے پرجوش انداز میں عملی اقدامات شروع کیئے کہ افسر شاہی میں کھلبلی مچ گئی۔
انہوں نے بلوچستان بھر کے چیک پوسٹوں سے بھتہ لینے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے، ہسپتالوں کا دورہ کیا، ڈسٹرکٹ جیل کوئیٹہ اور صدر تھانہ گئے وہاں قیدیوں کے مسائل سنے اور حبس بے جا میں رکھے بے گناہ لوگوں کو تھانوں میں رکھنے پر برہم ہوئے۔
وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں کھلی کچہری لگا کر سائلین کے مسائل تسلی اور خندہ پیشانی سے سنے اور سائلین کے مسائل کے فوری حل کیلئے متعلقہ محکموں کے افسران کو ھدایات صادر کیئے۔
کھلی کچہری کے انعقاد سے عرصہ دراز سے عوام اور حکمران کے درمیان موجود خلیج سمٹنا شروع ہو چکاہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے چند دنوں میں اٹھائے گئے اہم اقدامات میں سے ایک صوبے میں عرصہ دراز سے کسٹم ایکٹ کے تحت فرنٹئیر کور، پولیس، لیویز اور کوسٹ گارڈ کے اختیارات فوری طور پر واپس لے لیئے گئے ہیں تاکہ فورسز کی ساری توجہ صوبہ بھر میں امن و امان کی جانب مرکوز ہو۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی بھی ضلع میں کسی بھی قسم کی واردات یا کسی قسم بے گناہ کے قتل کی زمہ داری ڈسٹرکٹ انتظامیہ یا پولیس ہر عائد ہو گی۔
وزیر اعلیٰ نے ملک کے اندر یا ملک کے باہر رہنے والے بلوچستان کے ناراض فرزندوں کو منانے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کا بھی کہا ہے۔
کوئٹہ کو پر امن اور محفوظ شہر بنانے کے پروجیکٹ “کوئیٹہ سیف سٹی پروجیکٹ” کی بھی منظوری دی ہے جو کافی عرصہ سے تعطیل کا شکار تھا۔
بلوچستان کے عوام کے حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نا کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے سیپیک کے تحت جاری منصوبوں کے ثمرات سے یہاں کے مقامی لوگوں تک پہنچائے جائیں گے۔
سیاسی میدان میں وزیر اعلیٰ نے کسی بھی قسم کے سیاسی محاذ آرائی سے دریغ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے یقین کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ بلوچستان کے تجربہ کار، زیرک اور بزرگ سیاستدانوں کے گھر جا کر ان کی حمایت بھی حاصل کی۔
میر عبدالقدوس بزنجو کو اعلیٰ عہدہ سنبھالے ابھی دو ہفتے بھی نہیں گزرے کہ ہر طبقہ اور شعبہ سے تعلق رکھنے والوں سے تعریف حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ 140 دونوں میں کوئی سیاسی اور معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے نہ کرپشن اور بدعنوانی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو سکتا ہے، نہ ناراض بلوچ نوجوانوں اور رہنماؤں کو منا کر قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محکمہ پولیس، صیحت، تعلیم اور دیگر اداروں کو انقلابی سطور پر استوار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر عزم مصمم ہو اور ارادہ آہنی، 140 دنوں کو آخری پانچ ماہ سمجھنے کی بجائے 3360 گھنٹے سمجھ کر کام کیا جائے تو مذکورہ تمام مسائلِ کے حل کی جانب پیشقدمی ضرور ہو سکتی ہے اور آنے والے منتخب حکومتوں کیلیئے مثال قائم کیا جا سکتا ہے کہ وزارت، صدارت و بڑے عہدوں میں نہیں بلکہ “کام میں نام اور عزت ہے”۔