|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2018

بلوچستان رقبے کے لحاظ ملک کا آدھا حصہ ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔قدرتی۔معدنی اور ساحلی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو سیاسی حوالے سے بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔

بلوچستان مشرقی اور مغربی علاقوں پر مشتمل صوبہ ہے جہاں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ قبائلی شخصیات کا سیاست پر کافی اثر و رسوخ ہے خاص کر بلوچستان کا مشرقی علاقہ جہاں نسل درنسل سے ایک ہی خاندان کے لوگ اقتدار پر براجمان نظر آتے ہیں۔

بلوچستان کے مشرقی اضلاع میں قبائلی اور سرداری نظام چونکہ مضبوط ہے اس لئے وہاں سے زیادہ تر نواب اور سردار الیکشن میں نسل درنسل کامیاب ہوتے آرہے ہیں جبکہ پشتون بیلٹ میں مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمود خان اچکزئی کی پارٹی پشتوانخوامیپ بھی سیاسی حوالے سے مضبوط ہے۔جبکہ صوباہی دارلحکومت کوئٹہ میں مختلف جماعتوں کی ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے۔

بلوچ بیلٹ میں بگٹی۔مری۔جمالی۔مگسی۔رئیسانی۔لانگو۔زہری۔مینگل اور بزنجو قبائل سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ کی وجہ سے الیکشن جیتتے آرہے ہیں۔ ساحلی بیلٹ جو کہ مکران اور لسبیلہ کے چند اضلاع پر مشتمل ہے۔ لسبیلہ ڈسٹرکٹ میں جام اور بھوتانی خاندان نسل درنسل سے ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی منتخب ہوتے آرہے ہیں۔

مکران ڈویژن بلوچستان کے دیگر اضلاع سے اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں قبائلی اور سرداری نظام کا وجود نہیں ہے بلکہ میر و معتبر موجود ہیں مگر انکا ووٹ بینک تقسیم ہے۔

مکران تین اضلاع کیچ۔گوادر اور پنجگور پر مشتمل ہے جو کہ چھ صوبائی اور دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل قوم پرست سیاست کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور 2013کے الیکشن میں شورش زدہ ہونے کی وجہ سے یہاں ووٹ ماضی کی نسبت بہت کم کاسٹ ہوئے ہیں اور سیاسی حوالے سے یہ علاقہ اس لئے اہم ہے کہ یہ مڈل کلاس سیاسی کارکنوں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

موجود حکومت کے پہلے دور میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک مکران سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعلیٰ بنے تھے اور بلوچستان کے تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ صوبے کی وزارت اعلیٰ کسی نواب یا سردار کی بجائے کسی مڈل کلاس سیاست دان کو ملا تھا۔

مکران کا قریبی علاقہ جھاؤ آوارن جو کہ موجودہ وزیر اعلیٰ کا حلقہ انتخاب ہے یہ علاقہ بھی شورش زدہ ہے جس کا اندازہ سابقہ الیکشن سے لگایا جاسکتا ہے جب میر عبدالقدوس بزنجو544 ووٹ لیکر یہاں سے ایم پی اے منتخب ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انکے والد میر عبدالمجید بزنجو بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔

مشرف دور حکومت میں جب صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر بننے کے لئے گریجویشن کی شرط رکھی گئی تو بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس حلقے سے میر عبدالمجید بزنجو کو اپنے نوجوان صاحبزادہ میر عبدالقدوس بزنجو کو میدان میں اتارنا پڑا جو کہ انگش لٹریچر میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

2013کے الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کے ممبر بننے والے میر عبدالقدوس اسی حلقے سے بہت کم ووٹ لیکر جیت گئے۔مشرف دور حکومت میں جام یوسف کی کابینہ میں صوبائی وزیر اور حالیہ حکومت کے ابتدائی ادوار میں ڈپٹی اسپیکر بھی رہے ہیں۔

بلوچستان کو سینٹ یعنی ایوان بالا کے الیکشن میں دوسرے صوبوں سے کافی فوقیت حاصل ہے کہ یہاں سینٹ کی جنرل سیٹ کے لئے کامیابی کے لئے نو ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی دوسرے صوبوں سے کم ووٹ درکار ہوتے ہیں کیونکہ سینٹ میں تمام صوبوں کی برابر کی نمائندگی ہے اور بلوچستان اسمبلی کے ممبران کی تعداد سب سے کم 65 ہے ۔

اسی فارمولے کے تحت باقی صوبوں میں الیکشن ہوتے ہیں۔ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ بلوچستان میں سینٹ کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے بعض ممبران پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ حالیہ سیاسی تناظر میں جہاں سینٹ کے الیکشن بہت قریب ہیں بلوچستان کی سیاست مزید اہمیت اختیار کرچکی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین کا اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت اور ان ہاؤس تبدیلی کے بعد اب بلوچستان میں حالیہ مجوزہ سینٹ کے الیکشن میں بھی گروپ بندی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے حب بلوچستان کے جلسہ عام سے خطاب کو بھی آنے والے الیکشن کے لئے اہم قرار دیا جارہا ہے۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس صوبے میں کوئی بھی ایک پارٹی بھاری اکثریت حاصل نہیں کر پاتی جس کی وجہ سے یہاں زیادہ تر مخلوط حکومت بنتی ہے۔جبکہ بلوچستان میں حکومت سازی میں آزاد امیدواروں کا اہم رول ہوتا ہے۔

ماضی کی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آنے والے مجوزہ الیکشن میں بھی بلوچستان میں کسی ایک پارٹی کے لئے بھاری اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں کیونکہ بلوچستان میں سیاست زیادہ ترشخصیات کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سیاسی پارٹیوں کے۔