موجودہ ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی مختلف ٹی وی چینلوں پر ملک کے مایا ناز تجزیہ کاروں کو تجزیہ کرتے ہوئے روز وشب عوام دیکھتی اور سنتی ہے. مختلف اخبارات کے صفحے سرخیوں اور کالموں سے بھرے ملکی ناقص نظام اور صورتحال کو بیان کرتے رہتے ہیں. جن میں لفظ بہ لفظ صرف جرائم, بد عنوانی, سیاسی اتار چڑھاؤ اور مختلف مسائل دیکھنے, پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر نوجوان طبقہ ان حالات پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں. اسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے موجودہ نظام اور پولیس کی کار کردگی کے حوالے سے یہ تحریر لکھنے کی کوشش کی ہے۔
ماضی میں جو پولیس کی کار کردگی رہی اس پر تو کئی مختلف کالم نگاروں, صحافیوں اور دانشوروں نے بہت کچھ لکھا. لیکن موجودہ صورتحال پر میں چند ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہوں جو کہ ہماری عوام کی عقل و خرد کو یہ واضح پیغام ملے کہ ہمارے اس ملک پاکستان کا نظام عدل, سیاست اور محافظ ادارے ہمارے لیے انصاف اور تحفظ کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں کہ ان پر ہمارا اعتماد قائم رہ سکے۔
گزشتہ چند ہفتے قبل میں نے ٹی وی چینل پر یہ سنا تھا کہ پاکستان میں جنسی زیادتی اور ایسے مختلف جرائم کی شرح بڑھتی ہوئی %82 تک پہنچ چکی ہے. ان جرائم میں کمسن بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے انھیں قتل کیا جاتا ہے. ان جرائم کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ پولیس اپنی کار کردگی میں کمزور اور نا اہل ہو چکی ہے.حال ہی میں قصور میں 11 کمسن بچیوں کیساتھ جنسی زیادتی کر کے انھیں قتل کر دیا گیا. اور مجرم کا پولیس کو پتہ تک نہ چل سکا۔
خیبر پختونخواہ میں بھی اس طرح کے واقعات حال ہی میں ہوئے اور ماضی میں بھی ہوتے رہے. لیکن پولیس ان وحشی درندوں کو پکڑنے کے لیے ٹس سے مس نہیں ہوئی. پنجاب میں تو آئے ہر روز ایسے گھناؤنے واقعات ہوتے آرہے ہیں لیکن پنجاب پولیس سیاسی چاپلوسیوں سے فارغ نہیں اور انکو مچھر تک نہیں کاٹتا. بلوچستان کے حالات بھی کوئی مختلف نہیں. بلوچستان میں بھی آئے روز اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن یہاں میڈیا ان واقعات پر ایک نظر تک نہیں ڈالتی. یہاں حکومتی اداروں سے تو بلوچستان کے عوام کو توقع ہی نہیں.دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے. اسی سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہی زینب کا واقعہ سامنے آیا. اسکے بعد ملک کے تمام الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی. تب ہی جا کر حکومتی اداروں اور پولیس کی دیواروں کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی۔
تب کیا ہونا تھا کہ رد عمل تو دکھانا ہی تھا. ورنہ ن لیگی حکمران تو عمران خان اور طاہرالقادری کے جھمیلے میں ہی اٹکے رہے. زینب کے اس واقعہ نے پاکستان کے شرق و غرب میں ایک زلزلہ برپا کیا. زینب کا واقعہ پاکستان کے اسلامی مہذب معاشرے کی بے حس منہ پہ ایک زور دار طمانچہ تھا. زینب کا واقعہ چونکہ بہت ہی زیادہ افسوسناک تھا لیکن اسکے علاوہ ایسے واقعات جو ہو چکے تھے وہ بھی افسوسناک تھے. ان واقعات کو پنجاب پولیس نے تو اگنور ہی کیا تھا۔
میڈیا پر زینب کے واقعے کی خبر اور زینب کی قربانی نے تمام سیاسی, سماجی اداروں اور عوام کو گہری بے حس نیند سے بیدار کیا. واقعہ ہونے کے بعد پولیس اور حکومتی ادارے ایکشن میں آگئے. لیکن مجرم تک پہنچنے میں انہیں کافی وقت لگا۔
حکومت اور پولیس کی اس بپھرے صورتحال کو دیکھ کر چیف جسٹس نے مجرم کو پکڑنے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تو اسکے اگلے ہی دن اداروں نے ایک جادو کی چھڑی استعمال کر کے عمران نامی ایک شخص کو ڈی این اے میچ ہونے پر گرفتار کر لیا اور کہا گیا کہ یہ سیریل کلر ہے۔
حکومتی اداروں کی اس انوکھی کامیابی کے بعد اداروں نے چین کا سانس لیتے ہوئے پریس کانفرنسز کیے اور اس مجرم عمران کے بارے میں پورا کچا چٹھا میڈیا کے سامنے کھولنے لگے.
خادم اعلیٰ نے بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بہت جزباتی باتیں کہہ گئے اور سکون کی سانس لی. اسی نئی سنسنی خبر کو لیکر میڈیا پر تجزیے تبصرے شروع ہو گئے. پھر سوشل میڈیا پر بھی عوام کا ری اکشن آتا رہا.۔
بحر حال, اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے پولیس کی کارکردگی تو ہمیشہ سے ہی ناقص رہی ہے, لیکن مجرموں کا ساتھ دینے کو بھی سننے کو ملتا ہے. اور رشوت کا دھبہ بھی تو ان پر ہے.
اب آتے ہیں پولیس کے ایسے کردار پر جہاں مختلف مقامات پر پولیس پر قتل و غارت کے الزامات بھی لگے اور ان الزامات کے چند واقعات ایسے ہیں کہ چار سال قبل ماڈل ٹاؤن میں احتجاجی مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسا کر انہیں موت کی نیند سلا دی گئی. 13 لوگ پولیس کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہوئے۔
زینب کے واقعے کے بعد قصور کے شہریوں نے اشتعال میں آکر احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے پولیس کی سیدھی گولی کا نشانہ دو مظاہرین بنے اور موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے.
کراچی میں پولیس افسر راؤ انوار نے فیک انکاؤنٹر میں نقیب اللہ محسود نامی ایک نوجوان کو دہشت گرد قرار دیکر قتل کر دیا. اور جب یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ نوجوان دہشت گرد نہیں ایک بے گناہ سا نوجوان تھا تو راؤ انوار پر قتل کاالزام لگا اور آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے چھپنے کی کوشش کی۔
اسکے علاوہ کراچی میں ایک اور واقعہ ہوا. انتظار نامی 19 سالہ نوجوان پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا. پھر کراچی میں ہی ایک اور 7 بہنوں کا اکلوتا بھائی پولیس اور دہشت گردوں کے جھوٹے مقابلے میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا.
اب آتے ہیں اگلی بات پر. بلوچستان میں جو کشیدہ حالات ہیں انکو مد نظر رکھتے ہوئے ہم پولیس کو مظلوم بھی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر پولیس والوں کو دہشت گردوں نے ٹارگٹ کر کے بے رحمی سے قتل کیا۔
یہاں پولیس والے خود انصاف کے طلبگار ہو کر رہ گئے. گزشتہ دو سال قبل پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ پر بھاری بھرکم اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے حملہ کیا. جس میں 61 پولیس کیڈٹس شہید ہو گئے اور 165 زخمی ہوئے. 2009 میں لاہور پولیس اکیڈمی پر حملہ ہوا.
اس طرح کے کئی واقعات ہوئے جن میں پولیس والوں کو نشانہ بنایا گیا. کوئٹہ میں آئے روز پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی کے دوران ہی دہشت گرد ٹارگیٹ کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے جو کہ عوام کو انصاف اور تحفظ دینے میں ناکام ہو چکے ہیں, کیا عوام کا بھروسہ اپنے ہی حکمرانوں اور عدالتوں اور محافظ اداروں سے اٹھ چکا ہے. سیاسی نمائندے اپنی کرپشن کو بچانے کہ چکر سے فارغ ہی نہیں ہوتے. عدل کا ترازو ٹوٹ چکا ہے. ہمارے محافظ ہی ہمارے خون کے پیاسے بن چکے ہیں. ۔
کہاں ہے عدل کہاں ہے انصاف. ہم اپنے محافظوں سے اپنی حفاظت کی توقع رکھیں یا ان سے ڈریں کہ کہیں ہمارا محافظ ہمیں قتل نہ کر دے.ملک کا ہر ادارہ بد عنوانی اور بد نظمی کی ضبط میں آکر کمزور ہو چکا ہے. سیاسی نظام تباہ ہے, عدل و انصاف کی فائلوں پر دھول مٹی چمٹ گئی ہے, اب عوام یا تو بیٹھ کر تماشا دیکھتی رہے یا کہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھائے اور بد عنوان سیاسی نمائندوں کو ووٹ نہ دیں۔
عوام اپنا فیصلہ خود کرے. عوام کا محافظ صرف اللہ پاک ہی ہے. ایسے نظام سے عدل و انصاف اور تحفظ کی توقع نہیں رکھ سکتے. لکھتے لکھتے قلم کی نبیں ٹوٹتی جا رہی ہیں لیکن عدل و انصاف اور امید کی شمع روشن ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ عام آدمی تو ویسے ہی غربت کی بھٹی میں جل بھن رہا ہے. لیکن ہائی کلاس آدمی بھی اس بد نظامی کو دیکھ کر ملک چھوڑ کر کہیں اور سکون تلاش کرنے چلے جاتے ہیں. اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر رہے.