|

وقتِ اشاعت :   February 1 – 2018

سہولیات سے آراستہ یہ معاشرہ منفیت میں مبتلا ہوکر گمراہی کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔حقائق سے عاری یہ معاشرہ اخلاقیات اور انسانیتی اقدار سے دور جا چکا ہے ۔

یہ بے راہ روی پہلے بھی تھی لیکن اب معاملات بے شرمی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کا زمانہ ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے ہی معاشرے کے عیب بے پردہ ہونے لگے ہیں۔

حالیہ دنوں میں جو کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کر دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں اور ان واقعات کو مد نظر رکھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نوجوان نسل میں جو تکنیکی جدت کی سہولیات عام ہوتی جا رہی ہیں ان سے منفی تاثر لیتے ہوئے اور ان جدید آلات کا غلط استعمال کرتے ہوئے نوجوان نسل معاشرے میں بدکرداری اور فحاشیت کے دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔

مغربی سازشیں تو پہلے سے ہی مسلم معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہیں لیکن انٹر نیٹ کے ذریعے جدید قسم کے نت نئے ایپلی کیشنز نوجوان نسل کی ذہنوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہوئے اخلاقیات سے بھٹکا کر گمراہ کر رہی ہیں.بہرحال ان جدید آلات کا استعمال منفی اور مثبت دونوں طرح سے ہو رہا ہے اور یہ سب بنیادی تعلیم اور تربیت پر منحصر ہوتا ہے.اصل اور واضح بات یہ ہے کہ پچھلے کئی واقعات جو پاکستان میں پیش آئے۔

ان سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کو صحیح تعلیم و تربیت دینے میں ناکام ہو چکے ہیں. اپنی اولاد کو نت نئی سہولیات فراہم تو کر رہے ہیں لیکن ان پر نظر نہیں رکھتے کہ کیا اولاد ان سہولیات کا غلط استعمال تو نہیں کر رہی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں ایک افسوسناک بات یہ لکھ رہا ہوں کہ چند دن پہلے کوئٹہ کے علاقے کلی اسماعیل میں ایک بھائی نے اپنی بہن کیساتھ مبینہ زیادتی کے بعد اسے قاتل کر دیا. ٹی وی اور اخبار میں اس واقعے کے بارے میں دیکھتے اور سنتے ہوئے میرے ہوش حواس کھو گئے اور دماغ سُن سا ہو گیا۔

کے پی کے میں شادی سے انکار کرنے کے بعد ایک لڑکی کو لڑکے نے قتل کر ڈالا. زینب کا واقعہ اور قصور شہر اور دیگر شہروں میں اس طرح کے گھناؤنے واقعات کو آپ سب نے دیکھے سنے اور پڑھے ہونگے۔ کوئٹہ کے مختلف گلیوں اور بازاروں میں شاپنگ سینٹرز بنے ہوئے ہیں. ان شاپنگ سینٹرز میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا جم غفیر لگا ہوا ہوتا ہے. ہر روز ان خواتین کی کوئی نہ کوئی چیزختم ہو جاتی ہے یا انھیں خریداری کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ روزانہ خریداری کے لیے نکل پڑتی ہیں۔

اور شاپنگ سنٹرز میں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین تعلیم و تربیت کے حوالے سے غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں اور تباہ کاریوں کا یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے.نوجوان نسل کی بے راہ روی میں تعلیمی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں.جدید سہولیات یعنی انٹرنیٹ پرفحاش سائیٹس اخلاقی بے راہ روی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی حدیں پار کرتا جا رہا ہے اور ذمہ دار حضرات یا ادارے ان گھناؤنے حرکات کوقابو کرنے میں پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں. ان معاملات کا ذمہ دار بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ ہے۔