لالہ صدیق بلوچ بلاشبہ ہمارے عہد کے عظیم ترین بلوچ صحافی تھے۔ جب پیر چھ فروری کو وہ 78سال کی عمر میں کراچی میں سرطان سے چار سالہ جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے انھوں نے بلوچستان میں اپنے پیچھے سینکڑوں ایسے سوگوار صحافی چھوڑے جوان کی تقلید کرتے ہوئے صحافت کے شعبے میں داخل ہوئے تھے۔
صدیق بلوچ تیس سال تک کراچی میں “ڈان” اخبار سے وابستہ رہنے کے بعد جب بلوچستان گئے اور وہاں انگریزی اخبار “بلوچستان ایکسپریس” کا اجرا کیا تو انھوں نے وہاں کی صحافت کا رخ ہی بدل دیا۔
اگرچہ بلوچستان کئی دہائیوں سے پسماندگی اور آپریشنوں سے دوچاررہا تھا،صدیق بلوچ نے پہلی مرتبہ ملکی پالیسی سازوں ، غیرملکی سفارتکاروں اوربلوچستان سے باہر مقیم لوگوں کو انگریزی زبان میں صیح معنوں میں بلوچستان کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے پہلی مرتبہ بلوچستان کا مقدمہ انگریزی زبان میں پیش کیا۔
چونکہ انھوں نے جامعہ کراچی سے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اورانھیں بلوچستان کے معاشی مسائل پر غیرمعمولی عبور حاصل تھی تو انھوں نے اپنے اداریوں اور مضامین میں قارئین کو ایسی معلومات فراہم کیں جو بمشکل کہیں اور دستیاب ہوتیں۔
انھیں بلوچستان کے چپہ چپہ، گاؤں گاؤں کا پتہ ہوتا۔ جس طرح وہ بلوچستان کی جغرافیہ اور ثقافت سے واقف تھے شاید ہی کسی صحافی کو بلوچستان کے بارے میں اتنا پتہ ہو۔ وہ بیک وقت گوادر پورٹ، سیندک، ریکوڈک، دودر سے لے کر بلوچستان میں پانی، آبپاشی اور امن و امان کے امور کے ماہر تھے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ بلوچستان کے ہر معاشی منصوبہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور فوری طور پر یہ بتا سکتے تھے کہ آیا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا یاناکام۔ حکومت بلوچستان میں خزانہ اور پلاننگ کے محکمہ جات کے اعلیٰ آفسران ان سے مشورہ لیتے تھے۔
،بی بی سی سے لے کر وائس آف امریکہ جیسے بڑے عالمی نشریاتی اداروں سے وابستہ صحافی کئی سالوں سے بلوچستان کی معیشت ،سیاست اور ثقافت کو سمجھنے کی خاطر ان کے انٹرویوز پر انحصار کرتے آرہے ہیں۔ ان کی تحریر ہر طرح سے بلوچستان میں حکومتی پالیسی پر اثراانداز ہوتی رہی ہے۔ سیاست دان اور بیوروکریٹ یکساں طور پر ان کی رائے کو سنجیدگی سے سنتے تھے۔
میری صدیق بلوچ سے پہلی ملاقات اگست 2004 میں کوئٹہ میں ہوئی۔ تحفظ ماحولیات کے عالمی ادارے آئی یو سی این نے بلوچستان کے صحافیوں کے لئے دو ہفتوں پر ایک مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا تھا۔میں اپنے آبائی گاؤں پنجگور سے بلوچستان ایکسپریس میں ایڈیٹر کے نام خطوط اور مضامین لکھتا تھا۔
یوں کبھی کبھار ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔ (لکھاری بھلا ایڈیٹر صاحب کو کس مقصد کے لئے فون کرتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے۔ ہم سب کا ایک ہی سوال ہوتا ہے: “سر میرا مضمون کب چھپے گا؟”)۔
اسی سال جولائی میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار سے کراچی میں نوجوانوں کی ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی اور میں نے انھیں کہا کہ میں مستقبل میں صحافی بننا چاہتا ہوں تو انھوں نے فوری طور پر کہا’’ اگرصحافی بننا ہے تو صدیق بلوچ جیسا بنو۔”۔”ڈان” میں ان کا “ڈیٹ لائن کوئٹہ‘‘ اور پھر ’’بلوچستان ایکسپریس‘‘ میں اداریے اور مضامین پڑھ کر میں نے انھیں اپنا آئیڈیل بنایا۔
میں بے صبری سے ان سے ملنا چاہتا تھا اور سب سے پہلے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ اتنا کیسے لکھتے ہیں؟ جب آئی یو سی این کے مطالعاتی دورے پر مجھے ان کے ساتھ اسلام آباد، پشاور، ایبٹ آباد، گلگت، اسکردو اور دیگر شمالی علاقہ جات میں جانے کا موقع ملا تو اس موقع سے ہمارے درمیان استاد شاگرد کے ایک ایسے تعلق کا آغاز ہوا جسے میں اپنی زندگی میں سیکھنے کا بہترین موقع سمجھتا ہوں۔
اسی ٹور پر مجھے پتہ چلا کہ سب صدیق بلوچ کو ’’لالہ ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔میرے اس مضمون کا بنیادی مقصد تو صدیق بلوچ کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے لیکن اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ میں ان کی ان خوبیوں کا بھی حوالہ دوں جو میں نے ان سے کئی سالوں کی قربت میں دیکھیں۔ ان کی یہ خوبیاں ہم میں سے بہت ساروں کے لئے مددگار ہوسکتی ہیں۔
وقت کی پابندی
اگرچہ لالہ ہمارے آئی یوسی این کے مطالعاتی وفد میں سب سے عمر رسیدہ صحافی تھے، وہ ہمیشہ صبح ناشتہ کی میز پر پہنچے والے پہلے شخص ہوتے تھے۔ صحافی اپنے بارے میں بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وہ صبح دیر سے اٹھتے ہیں۔ صدیق بلوچ ایسے نہیں تھے۔ وہ صبح سویرے اٹھتے تھے،اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے اور اگلے دن کا اداریہ صبح سویرے ہی لکھتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ صبح ان کے دفتر میں (جو ان کے گھر کے نچلی والی منزل پر واقع تھا) خاموشی ہوتی ہے اور وہ تازہ ذہن کے ساتھ اپنا اداریہ لکھ سکتے ہیں۔
وہ سمجھتے تھے کہ جو اداریہ یا مضمون ڈیڈلائن پر جلد بازی میں لکھا جائے اور اخبار میں شائع ہو، اس میں غلطی کا زیادہ امکان ہوسکتا ہے۔ اسی لئے وہ اداریہ کا پہلا ڈرافٹ لکھ کر دن کے دیگر کاموں میں لگ جاتے تھے اور شام کو دفتر آکر دوبارہ اسی اداریے کی ایڈیٹنگ کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پہلے ڈرافٹ اور فائنل ڈرافٹ میں تھوڑا وقفہ ہونا چایئے کیونکہ اس سے لکھنے والے کو اپنے لکھے ہوئے الفاظ پر نظرثانی کا موقع ملتا ہے۔
تعلقات
صحافت میں اچھے تعلقات کی حیثیت ریڈ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے۔ لالہ لوگوں سے اچھے اور برے وقتوں میں رابطہ رکھتے تھے۔ ان کے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے لے کر حزب اختلاف کے بڑے رہنماؤں تک سب سے اچھے تعلقات ہوتے تھے۔ وہ پالیسی ایشوز پر پیشہ ورانہ انداز میں تنقید کرتے تھے۔ ان کی تنقید ذاتیات پر نہیں بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر مبنی ہوتی۔ کئی سالوں تک ان کی عادت تھی کہ صبح اداریہ لکھنے کے بعد اپنا ٹیلی فون اٹھا کر لوگوں سے سلام دعا کرتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ لوگوں سے اس وقت سلام دعا کرو جب آپ کو ان کی ضرورت نہیں۔ اخبار میں چھپنے والی خبروں اور مضامین کے بعد انھیں ہر صبح حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی کالز آتی تھیں اور وہ بڑے خندہ پیشانی اور اطمینان سے لوگوں کی تنقید سنتے اور ان کا جواب دیتے۔اتوار کے روز ان کے گھر میں کوئٹہ کے صحافیوں کے لئے بریانی یا مچھلی کا اہتمام ہوتا تھا جس میں تمام صحافی اپنے اداروں کے اختلافات بالائے طاق رکھ کر جاتے؛ اس موقع پر تمام صحافی بریکنگ نیوز سے بریک لے کر ہنسی مذاق میں اچھا وقت گزارتے۔
عاجزی
صدیق بلوچ عموماً صدر پاکستان اور ویزاعظم کے ساتھ سرکاری دوروں پرسفر کرتے تھے۔ وہ تیس سال تک” ڈان” جیسے بڑے اخبار سے وابستہ رہے۔ دو مرتبہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر رہے۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ( اے پی این ایس) اور کونسل اور پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔بلوچستان کا ہر گورنر اور وزیر اعلیٰ انھیں ذاتی طور پر جانتا تھا لیکن اس کے باوجود لالہ نے پوری زندگی سادگی اور انکساری سے گزاری۔ وہ ہر ایک سے ملتے تھے۔ جہاں عام رپورٹرز قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے تھے وہ ایک اسکوٹر پر سفر کرتے تھے۔وہ اپنا سودا سلف خود خریدتے تھے۔
حوصلہ افزائی
ایک روز لالہ کے پاس بیٹھا تھا تو وائس آف امریکہ کے ایک صحافی کی کال آئی۔ وہ لالہ سے بلوچستان سے متعلق کسی مسئلے پر انٹرویو لینا چاہتے تھے۔ انھوں نے انٹرویو دینے سے معذرت کرتے ہوئے اس صحافی سے کہا کہ اس موضوع پر آپ کو بلوچستان کے ایک ابھرتے ہوئے صحافی سے انٹرویو کرنا چائیے کیونکہ اسے اس موضوع پر مجھ سے زیادہ پتہ ہے۔ انھوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے مذکورہ صحافی کو مجھ سے انٹرویو کرنے کا مشورہ دیا اور فون رکھ دیا اور کہا “ملک تیار ہوجاؤ۔ وی او اے والے تمہارا انٹرویو کرینگے”۔ میں نے اپنی زندگی میں وائس آف امریکہ کو کبھی انٹرویو نہیں دیا تھا۔
میں نے زندگی میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جو موقع دیکھ کر خود پیچھے ہٹ جائیں اور اپنے سے جونیئر کو آگے کریں۔ مجھے پتہ تھا کہ میں لالہ کے سامنے کچھ بھی نہیں لیکن اتنا بڑا صحافی ایک جونئیر صحافی کی حوصلہ افزائی کی خاطر کہہ رہے تھے اسے مجھ سے زیادہ پتہ ہے۔
اور یوں لالہ نے خود پیچھے ہٹ کر مجھے وائس آف امریکہ میں متعارف کرایا۔یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں۔ ایک بار ہیرالڈ میگزین والے لالہ سے گزارش کی کہ وہ بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات پر ایک مضمون لکھیں۔ لالہ نے پھر وہی طریقہ اپنایا اور کہا کہ میں آپ کو ایک اور صحافی سے متعارف کرانا چاہتاہوں جو اس موضوع پر مجھ سے بھی بہتر لکھتا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ لالہ یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں تاکہ وہ مجھے آگے آنے کا موقع دیں۔ وہ کہتے تھے کہ نوجوان ہی مستقبل کے معمار ہیں اور انھیں پروموٹ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
یقیناً بلوچستان کے بہت سارے ایسے صحافی ہیں جو آپ کو لالہ سے جڑی اسی طرح کی کہانی سنائیں گے کہ انھوں نے کہیں نوکری کی آفر ٹھکرا کر جونئیر صحافی کو آگے کیا تو کبھی ملکی اور غیر ملکی ٹور کا موقع آیا تو خود پیچھے ہٹے اور نوجوانوں کوآگے بڑھنے کا موقع دیا۔ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی اشد کمی ہے جو نوجوانوں کو آگے جانے میں اس قدر مدد کرتے ہیں۔
ٹھکانہ
جس دن میں نے بلوچستان ایکسپریس میں پانچ ہزار کی تنخواہ پر نوکری شروع کی تو لالہ نے وارننگ دی۔ “دیکھو، صحافت میں پیسہ نہیں ہے۔ اگر پیسہ کمانا ہے تو جاؤ منشیات بیچو۔‘‘ پہلے تو ہمیں لالہ کی یہ بات ناگوار گزری لیکن ہم نے جلد ہی رب کا شکرادا کیا کہ انھیں صحافیوں کی مالی حالت کا پتہ تھا۔ ہم میں سے بیشتر لوگ تو صرف اس لئے صحافی بننا چاہتے تھے کہ ہمیں صحافت کا شوق تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد پتہ چلا کہ ہم چند نوجوان صحافی ایسے بھی تھے جن کا تعلق اندرون بلوچستان سے تھا اور کوئٹہ میں رہائش کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور ہم لوگ گاؤں بھی نہیں جاسکتے تھے۔
اس کے باوجود ہر حال میں صحافی بننے کا شوق بھی تھا۔ چنانچہ لالہ نے ہم سب کو اپنے گھر (یعنی اخبار کے دفتر ) میں جگہ دی۔ کہا ٹھکانہ اور کھانااللہ کے ہاتھ میں ہے باقی تم لوگ بس اپنے (صحافتی )کام پر توجہ دو۔ یوں ہم لوگ کئی مہینوں بلکہ سالوں تک مشکل حالات میں لالہ کے “مہمان” رہے۔ ان کے دروازے بلوچستان بھر کے صحافیوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہوتے تھے۔ یوں انھوں نے بلوچستان میں صحافیوں کی ایک نسل پیدا کی۔
مستقل مزاجی
بلوچستان میں صحافت کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔ اگرچہ لالہ کی حتی الوسع کوشش ہوتی کہ وہ حکومت اور حزب اختلاف کو برابر کوریج دیں لیکن حکومت ان سے راضی ہوئی اور نا ہی بلوچ قوم پرست۔ چند مہینے پہلے بلوچستان حکومت نے ان کے اشتہارات بند کرکے دونوں اخبارات کا معاشی قتل عام کرنا چاہا لیکن وہ لالہ کو ان کی دلیرانہ صحافت سے روک نہ سکے۔بدقسمتی سے بلوچ قوم پرستوں نے بھی “آزادی” اخبار پر حکومت نواز ہونے کا الزام لگایا جب کہ حقیقت تو یہ تھی”آزادی”اور “بلوچستان ایکسپریس” ایک نڈر ایڈیٹر کی قیادت میں حکومت اور حزب اختلاف کی جنگ میں سینڈوچ بن گئے تھے۔
عزم
لالہ صحافت کو ایک مشن سمجھتے تھے۔ کوئٹہ میں ان کا مقابلہ بڑے بڑے حکومت نواز اخباروں سے تھا۔حکومت مسلسل ان اخبارات کو اشتہارات دے کر انھیں ’’بلوچستان ایکسپریس‘‘ اور ’’آزادی‘‘ پر سبقت لے جانے میں مدد کرتی تھی، لیکن صدیق بلوچ واضح الفاظ میں کہتے تھے کہ بلوچ انگریز کے زمانے سے حالت جنگ میں ہیں اور انھیں جان بوجھ کر ان کے اپنے وسائل سے محروم رکھا گیا ہے۔
وہ این ایف سی سے لے کر گوادر تک ، میرانی ڈیم سے لے کر ریکوڈک تک ان تمام منصوبوں پر بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف ڈٹے ہوتے۔ وہ اپنے قلم کے زور سے اقتدار کے ایوانوں کو للکارتے تھے۔ حکومت نے انھیں خاموش کرنے کے لئے ہر ممکن حربے استعمال کئے لیکن وہ اس کے باجود حکومت کی غلط پالیسوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔
سفر
بطور صحافی لالہ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بڑھاپے میں بھی مسلسل پاکستان کے بڑے اور بلوچستان کے چھوٹے شہروں کا باقاعدگی سے سفر کرتے تھے تاکہ انھیں وہاں کے تازہ ترین حالات کا پتہ ہو۔ سفر کی اس عادت کی وجہ سے انھیں بلوچستان بھر کے علاقوں کی ثقافت، زبانوں اور مقامی رسوم و رواج کا پتہ تھا۔ آج کل ٹیکنالوجی آنے کے بعد صحافی خبروں کے حصول کے لئے شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن صدیق بلوچ زندگی کے آخری دنوں تک مسلسل سفر کرتے رہے۔ وہ ایک اچھے صحافی کے ساتھ ایک اچھے سامع بھی تھے۔
وہ باقاعدگی سے سردار عطااللہ مینگل سمیت بلوچستان کی دیگر بڑی شخصیات سے ملتے تھے اور ان کی رائے سنتے تھے۔ لالہ آف دا ریکارڈ گفتگو کے بڑے حامی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ صحافی ہر میٹنگ میں اس نیت سے نہ جائیں کہ انھیں وہاں سے خبر ملے گی بلکہ کچھ چیزیں ان کی اپنی بیک گراؤنڈ نالج کے لئے ہوتی ہیں اور اسی لئے صحافیوں کو چائیے کہ وہ اپنے ذرائع سے باقاعدگی سے رابطے میں رہیں۔
مزاح
بلوچستان کے حالات کی وجہ سے کون رنجیدہ نہیں ہے؟ خوف اور غیر یقینی کے اس ماحول میں طنز و مزاح ان کا بڑا ہتھیار ہوتا تھا۔ وہ ہر وقت محفل میں اپنی زمانہ طالب علمی، جیل اور نیپ کے دنوں کی دلچسپ باتیں سنا کر سب کو ہنساتے تھے۔وہ اکثر کہتے تھے کہ میں بمشکل ایک سال گورنر غوث بخش بزنجو کا پریس سیکرٹری رہا لیکن اس کے عوض چار سال تک جیل کاٹنی پڑی۔ کبھی کبھار انجانے میں بھی ان کی باتیں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیردیتیں۔ ایک مرتبہ کوئٹہ میں جب ڈبل سواری پر پابندی تھی تو ایف سی نے انھیں انکے بیٹے کے ساتھ گھر جاتے ہوئے پکڑ لیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ آئندہ ڈبل سواری نہیں کرینگے لیکن ایف سی اہل کار تھے جو ماننے کو تیار نہیں تھے۔
لالہ کو غصہ آیا کہنے لگے چلو ٹھیک ہے ہم تینوں کو پھانسی پہ لٹکا دو۔ ایف سی کا جوان حیران و پریشان ہوگیا اور پوچھنے لگا۔ ” آپ تو دو لوگ ہیں یہ تیسرا کون ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ پھانسی پہ لٹکا دو؟” لالہ نے برجستہ جواب دیا۔ “دو ہم اور تیسرا یہ موٹر سائیکل ہے۔ اس کو بھی پھانسی پر لٹکا دو۔”
تاریخ
موت برحق ہے۔ صدیق بلوچ بھی بالآخر ایسے سفر پر روانہ ہوئے جس پر ہم سب کوایک نا ایک دن جانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تاریخ لالہ کو کیسے یاد رکھے گی۔ لالہ نے اپنی پچاس سالہ صحافتی زندگی میں بلوچستان کی جو خدمت کی ہے وہ شاید ہی کسی حکومت نے کی ہو۔ لالہ اور باقی اخبار مالکان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے اخبارات نے بلوچستان کے صحافیوں کے ایک نسل کے لئے نرسری کا کام کیا۔
جتنے صحافی’’ بلوچستان ایکسپریس‘‘ اور’’ آزادی‘‘ نے پیدا کئے ہیں اتنے کسی اور ادارے نے پیدا نہیں کئے۔ جب لالہ کے انتقال کی خبرپہنچی تو سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آیا کہ اہلیان بلوچستان مشترکہ طور پر ایک بڑے صحافی کی موت پر ماتم کناں ہیں۔ بلوچستان نے کبھی اتنا بڑا صحافی پیدا نہیں کیا ہے اور نہ ہی ملک کے سب سے بڑے صوبے نے ایک بڑے صحافی کی موت پر اتنے بڑے پیمانے پر سوگ منایا ہے۔
یقیناً لالہ نے جاتے جاتے بلوچستان کے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ایک شخص تنِ تنہا بڑے کام کرسکتا ہے،قلم کے ذریعے اپنی قوم کی خدمت کرسکتا ہے اور کئی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کرسکتا ہے۔لالہ کے انتقال سے بلوچستان کے صحافتی افق پر ایک بہت بڑا خلاپیدا ہوا ہے جسے بھرنا بلاشبہ بہت مشکل ہے۔