یہ 1994 کی بات ہے جب میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے صحافت میں داخلہ لیا۔ میرے کزن اور یونیورسٹی میں میرے کلاس فیلو محمد پناہ بلوچ کے ذریعے میری پہلی ملاقات جناب صدیق بلوچ صاحب سے ان کے اخبار بلوچستان ایکسپریس واقع فیض محمد روڈ کوئٹہ میں ہوئی۔ میں نے ایم اے صحافت کی انٹرشپ بھی ان کے زیر نگرانی بلوچستان ایکسپریس میں کی۔
اور اپنے کیرئیر کی شروعات روزنامہ بلوچستان ایکسپریس میں بطور کرائم رپورٹر کی۔ تین ماہ کی انٹرشپ اور بطور کرائم رپورٹر کام کرتے ہوئے مجھے صدیق بلوچ صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اورسمجھنے کا موقع ملا۔ ان سے رہنمائی، محبت و شفقت پائی۔ میں پہلی ملاقات میں ہی ان کی شفیق شخصیت کا ایسا گرویدہ ہوا کہ پھر ان کے ساتھ محبت کا قائم ہونے والا رشتہ پچیس سال کے طویل عرصے پر معیط رہا۔
یہ تعلق ان کی وفات تک قائم رہا۔ لالا صدیق بلوچ ایک خوش شکل، خوش لباس ، خوش اخلاق ،خوش مزاج انسان تھے۔ وہ فٹبال کے اچھے کھلاڑی تھے اور کراچی یونیورسٹی کی فٹبال ٹیم کے کپتان بھی رہے۔
آپ ایک دانشور، بلوچستان کے حقوق کے لیے قلم کے ذریعے جہدوجہد کرنے والے صحافت کے میدان کے مرد مجاہد تھے۔ آپ نے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور اس سلسلے میں قید و بند کی صوبتیں اور اپنے صحافتی ادارے کا مالی نقصان برداشت کیا۔ نہایت نامساعد حالات میں بھی اخبارات کا اجراء اور ملازمین کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھی۔
صدیق بلوچ صاحب مالی مشکلات اور حکومتی دباؤ کو کبھی خاطر میں نہ لائے اور اپنے اصولوں پر چٹان کی طرح قائم رہے۔
بلوچستان کے سینکڑوں نوجوانوں ( بلا تفریق سیٹلرز، بلوچ، پشتون) کے شفیق استاد لالا صدیق بلوچ ( مجھ سمیت اخبار کا تمام عملہ انھیں ماما کہتے تھے ) آج ماما صدیق بلوچ ہم میں نہیں رہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فر مائے، انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے۔ آمین ثمٰ آمین۔میرے چھوٹے بھائیوں جیسے ان کے بیٹوں عارف بلوچ، آصف بلوچ ، طارق بلوچ، ظفر بلوچ اور ان کے سب سے لاڈلے بیٹے صادق بلوچ کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور اس عظیم صدمہ کو سہنے کی سکت دے اور اپنے عظیم والد کے مشن کو آگے لیکر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
* بیادِ لالا صدیق بلوچ *
وقتِ اشاعت : February 8 – 2018