کسی محفل میں بیٹھے دوستوں سے سن رہا تھا کہ جب مری قبیلہ نواب مری کے ہمراہ افغانستان سے واپس آیا تو بی ایس او اور دیگر بلوچ سیاسی پارٹیوں کے کامریڈز ہفتے میں ایک بار ضرور مری کیمپ کا رخ کرتے تاکہ واپسی پر دوستوں کے ساتھ فخریہ انداز سے حال احوال میں مری کیمپ دورے کا ذکر کریں کیونکہ وہاں جانا ہر بلوچ نوجوان اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا۔
نوجوان اکثر یہ کہتیسنے جاسکتے تھے کہ آج میں نے مری کیمپ کا دورہ کیا، گویا وہ چوگویرہ، فیڈل کاسترو، لینن ، ماؤزے تنگ سے مل کر آئے ہوں۔ لیکن میں ان نوجوانوں کی باتیں سن کر حیران رہتا کہ ہمارے کالج اور یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے نوجوان ان انپڑھ ، مالی حالت میں بے حال، سخت ترین سردی میں ایک قمیص پر گزارا کرنے والے اور چھت سے محروم ان مریوں سے کیا سیکھنے جاتے ہیں؟ وقت گزرتا گیا، نیوکاہان میں وحشت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
آئے روز چھاپے، گرفتاریاں، اور تشدد روز کا معمول بن گیا۔مری قبیلے کو نیوکاہان سے بے دخل کرنے کیلئے ایڑی چوڑی کا زور لگایا گیالیکن اہلیان نیوکاہان کے مصمم ارادوں کے سامنے ناکام رہے۔ پھر سمجھ میں آنے لگا کہ کوئٹہ کے گرم ہیٹروں کے پاس بیٹھنے والوں سے ریاست کو سردی ، بھوک افلاس اور تعلیم سے محروم مریوں سے کیوں اتنا زیادہ چِڑ ہے۔جنرل مشرف کے دور حکومت میں ایک مری دوست نے اردو زبان میں تحریر ایک اشتہار چھاپنے کیلئے کہا ، جو ریاستی اداروں کے اس اشتہار کا جواب تھا جس میں اہلیان نیوکاہان کو علاقہ چھوڑنے کے لئے کہاگیاتھا۔
کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں ٹھٹھرتا ایک مری لڑکا ہاتھوں میں کچھ پمفلٹ لئے کوئٹہ کچہری میں، وکلا، اوردیگر لوگوں میں بانٹ رہا تھا، کوہ چلتن کے دامن میں آباد نیوکاہان المعروف مری کیمپ شہدا بلوچستان کی قبرستان اور بابا مری کی مزار کی وجہ سے بلوچوں کے لئے ایک اہم مقام تصور کیا جاتا ہے۔”آپ کی عدالت میں” کے عنوان سے لکھا گیا یہ اشتہار کافی دلخراش اور رونگٹے کھڑا کردینے والا تھا۔
ہم نے سوچا اسے کوئٹہ کے تمام مقامی اخبارات میں چھاپنے کیلئے دیں گے، روزنامہ آساپ، روزنامہ آزادی، روزنامہ توار کے علاوہ روزنامہ جنگ، مشرق وغیرہ اور دیگر نے اسے چھاپنے سے انکار کردیا۔ہم نے آساپ انتظامیہ سے بات کی انہوں نے فوراً اسے چھاپنے کی حامی بھری، اور اس کے بعد ہم روزنامہ آزادی کے آفس گئے ، جہاں دفتر کے بالائی حصے میں لالا صدیق بلوچ کی رہائش گاہ بھی ہے۔
صبح کے وقت لالا کے صاحبزادے آصف بلوچ ہم سے ملنے آئے، ہم نے اشتہار کی ایک کاپی ان کے سپرد کردی، اور اسے اگلے روز کے ایڈیشن میں چھاپنے کی درخواست کی۔ اس کے عیوض انہوں نے ہم سے سات ہزار روپے ادا کرنے کا کہا۔ ہم نے وہ رقم ان کے حوالے کردیا۔اگلے روز صبح اشتہار روزنامہ آزادی، روزنامہ توار اور روزنامہ آساپ میں چھپا، صبح ہی صبح آصف بلوچ کا کال آیا اور وہ ہمیں دفتر میں ملنے کو کہا۔
ہم وہاں پہنچے تو آصف صاحب آئے اور پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ لالا صدیق نے مجھ سے کہا کہ ہم مری دوستوں سے کیسے پیسے لے سکتے ہیں، آج وہ مشکل میں ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے بعد سے ہم سے جو کچھ ہوسکا ہم حاضر ہیں۔ اس دن کے بعد سے ہمارا متواتر لالا صدیق، آصف بلوچ اور دیگر دوستوں سے ملنے جلنے کا سلسلہ جاری رہا۔
لالا صدیق میں بلوچیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، انہوں نے تمام تر دباؤ اور اشتہارات سے محروم کردئیے جانے کے باوجود بلوچ اور بلوچستان بابت حق گوئی کا دامن نہیں چھوڑا۔
بلوچ قومی مسئلے پر بے باک تبصرے اور تجزیوں کی پاداش میں روزنامہ آزادی اور دیگر مقامی اخبارات و رسائل ہمیشہ زیر عتاب رہے۔ بی ایل ایف کی حالیہ ناکام بائیکاٹ پر بھی بلوچ صحافیوں اور اخبارات نے ذمہ دارنہ کردار ادا کیا، انہوں نے بلوچ تنظیم کی بچگانہ حرکتوں پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے گلہ کیا۔
لالا صدیق بلوچ نے بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بھی محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے بیلنس رپورٹنگ کی۔خوش آئند بات یہ ہے کہ بلوچ صحافت زیادہ تر ایک دوسرے سے تعاون کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ بلوچ میڈیا سے وابستہ ذمہ دار طبقہ نے ہمیشہ بلوچ قومی ورثے کی حفاظت کی ہے۔ بے شک لالا صدیق ان میں سے ایک بڑا قد آور نام ہیں۔
لالا صدیق بلوچ نواب خیربخش مری کے ساتھ حیدر آباد سازش کیس میں جیل میں بھی رہے ہیں وہ بلوچ رہنما بابا خیربخش مری سے کافی رابطے میں تھے۔ ان سے کئی بار نجی محفلوں میں بلوچستان کے حوالے سے بات چیت رہی۔لالہ صدیق اپنے جیل کے قصے، زندگی میں پیش آنے والے سخت حالات کی روداد سنایا کرتے تھے۔ لالا جیسا مدبر اور قوم دوست صحافی صدیوں بعدپیدا ہوتے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ لالا صدیق بلوچ کی زیر تربیت نوجوان صحافی ان کے صحافتی میراث کا لاج رکھیں گے اور قومی مسائل کو یونہی ذمہ دارانہ انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے بلوچ قوم کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ہم سب کو اچھی طرح علم ہے کہ اس وقت بلوچستان انتہائی کٹھن حالات سے گزررہا ہے،اس گھمبیر ترین صورتحال میں رپورٹنگ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہم بلوچ صحافیوں اور بلوچ میڈیا کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں ہم سب کو ان کٹھن حالات میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان سے متعلق شعور و آگاہی پھیلانے کے لئے متحرک میڈیا کی رہنمائی انتہائی ناگزیر ہے۔