یہ رات کا وقت تھا اور پورا خاندان ضروری سامان جمع کرنے کے بعد سریاب روڈ پر کوئٹہ کی پٹیل ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر کے باہر انتظار کر رہا تھا۔جبکہ صدیق بلوچ اپنے دفتر کے اندر اپنی زوجہ محترمہ کی رحلت سے متعلق خبروں کو ٹائپ کرنے میں مصروف تھے، ان کے شریک حیات کی عمر 50 سال سے زائد تھی،ہم سب رو رہے تھے اور اپنی ماں کو کھونے پر گہرے غم میں تھے لیکن وہ مضبوط رہے انہوں نے خبر فائل کی جسکے بعد ہم جنازے میں شرکت کیلئے کراچی کیلئے روانہ ہوئے۔
اخبار کے ایڈیٹر یا مالک کی موت کی صورت میں بھی اخبار شائع ضرور ہوناچاہیے’انہوں نے مجھے کہا جب میں ان کے پاس کھڑا تھا، ‘موت سب کو آنی ہے، اور جس دن مجھے موت آئے اس دن بھی اخبار ضرور شائع ہوناچاہیے’، ان کے یہ الفاظ میرے آنکھوں سے آنسوؤں کے قطروں کی رفتار کو مزید بڑھا دیا، اس دن مجھے احساس ہوا کہ وہ نہ صرف بہترین صحافی تھے بلکہ بہت مضبوط انسان بھی تھے۔
اپنی بیوی کی موت کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ پینکریٹک کینسر، ایک بہت مہلک بیماری سے متاثر تھے، لیکن انہوں نے بلوچستان پر ادارتی اور سیاسی تفسیر جاری رکھی، 2012 میں ان کی صحت خراب ہوگئی لیکن وہ مضبوط رہے اورروزانہ کئی گھنٹے کام کرتے رہے، ایک دن ہسپتال آتے وقت میں نے انہیں سہارا دینے کیلئے انکا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی تاکہ وہ آسانی سے چل سکیں مگر انہوں نے جھٹلادیا اور کہا کہ ”بلوچ اس طرح کی معمولی طبی انجکشن سے کبھی نہیں گر ے گا”انہوں نے مجھے بتایا کہ انکے دادا ، دادی نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا لیکن انہوں نے کبھی اس سے متعلق شکایت نہیں کی۔
میں ہمیشہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں صدیقی بلوچ کوہر کسی سے زیادہ جانتا ہوں کیونکہ میں ان کے ساتھ کام کرتے بڑا ہوا ہوں ،جہاں ان کے ساتھ کام کرنے اور انکے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا تھا، جب ہم رات گئے کام ختم کرتے تھے تو وہ ہمیشہ اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے۔ ایک عظیم شخصیت کے 52سالہ طویل صحافتی کیریئر پر لکھنا میرے لیئے ناممکن ساہے،
23 جنوری 2018 کو صدیق بلوچ کی طبیعت خراب ہونے تک ہم رابطے میں تھے، اور ان کا میرے لئے بھیجا گیا آخری پیغام یہ تھا ”میں اس موسم گرما میں تم سے امریکہ میں ملوں گا،ہم تمہیں ذرا بھی مس نہیں کرتے، گھر والے سب بہت خوش ہیں اور کسی کو تمہاری یاد نہیں آتی،یہ سچائی ہے، اپنے آپ کو پریشان نہ کرو اور خاندان کے بارے میں فکر مت کرو،تمہیں صرف اپنی تعلیم اور اپنے کیریئر پر توجہ دینا چاہئے” ۔
صدیق بلوچ 10 اگست1940کو لیاری میں پیدا ہوئے، انکے کے والد جنگا یان کا تعلق موجودہ ایرانی بلوچستان کے علاقے نسکند سے تھا۔
صدیق بلوچ نے بتایا تھا کہ ان کے سکول سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ 10اگست کو پیداہوئے، ”مجھے اتنا یاد ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرتا ہے جوبھارت سے آزاد ہونے والے حصے اور بلوچستان پر مشتمل ہوتاہے،یہ بات انہوں نے تب کہی جب وہ اپنی تیسری کتاب”صحافت میں میرے ماہ و سال” کے عنوان سے تحریر کررہے تھے، یہ کتاب تاحال شائع نہیں ہوئی ہے۔
معیشت میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے لیاری کے بلوچ انٹرمیڈیٹ کالج میں رضاکارانہ طور پر تعلیمی خدمات سرانجام دینا شروع کیں، ڈیڑھ سال تک رضاکارانہ طور پر تعلیمی خدمات دینے کے بعدانہوں نے روزنامہ ڈان میں تربیتی ذیلی ایڈیٹر کے طور پر قومی ڈیسک پر کام شروع کیا، انہوں نے ہمیشہ مرحوم میر غوث بخش بزنجو کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے صحافت کاشعبہ اختیار کرنے کیلئے انکی حوصلہ افزائی کی،وہ بے محنت کرتے اور ہمیشہ ڈیوٹی پر حاضر رہتے ۔
روزنامہ ڈان کے ساتھ شاندار28 سالہ رفاقت کے بعد انہوں نے روزانہ بلوچستان ایکسپریس کی بنیاد رکھی اوراپنی صحافی مہارت سے انگریزی پڑھنے والوں کو بلوچستان سے متعارف کرایا،ایک دہائی کے بعدانہوں نے اردو روزنامہ آزادی کوئٹہ کی بنیاد رکھی، وہ روزانہ ان اخباروں پر تقریباً 12 گھنٹے صرف کرتے تھے، ” میں روزانہ 1500الفاظ لکھتا ہوں” وہ یہ الفاظ دہراتے جب بھی کوئی ان سے انکے کام سے متعلق پوچھا کرتا،وہ باقاعدگی سے صبح کو اداریہ لکھتے اور رات میں اخبارات کی ایڈیٹنگ کرتے، ” میں اپنے دنوں کو تقسیم کرتا ہوں، ایک کامیاب شخص بننے کے لئے صبح کے وقت جلدی اٹھنا ضروری ہے”۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی وہ مجھے دوسرے بھائیوں اور کزنز کے ساتھ دوپہر تک سوتے پائیں گے وہ انہیں چلا کر جگائیں گے، ”میں جانتا ہوں کہ آپ سبھی مجھ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن میں آپ لوگوں کو صبح کے اوقات میں جگاتا رہوں گا،انہوں نے بارہا کہا۔
1970 کی دہائی میں صدیق بلوچ کو مرحوم گورنر میر غوث بخش بزنجو ،قوم پرست رہنماء مرحوم نواب خیر بخش مری، سابق وزیراعلیٰ سردارعطاء اللہ مینگل اور نیشنل عوامی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ جیل میں قید کردیا گیا،وہ گورنر میرغوث بخش بزنجو کے پریس سکریٹری تھے جن کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی قیادت میں بننے والی وفاقی حکومت کی طرف سے ختم کردیا گیا، صدیق بلوچ نے بتایا کہ وہ پانچ سال تک جیل میں رہے اس دوران جیل میں ان پر بدترین تشدد کیاگیا،” گارڈز کے پرتشدد رویے کی وجہ سے میں دل کے عارضے میں مبتلاہوگیاتھا” دل کے عارضے سے متعلق میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا۔
صدیق بلوچ نے 2کتابیں تحریر کیں، ”بلوچستان، اٹس پولیٹکس اینڈ اکنامکس” کے عنوان سے انکی کتاب 2013میں شائع ہوئی، اس سے قبل ”اے کریٹیکل کامینٹ آن پولیٹیکل اکانمی آف بلوچستان” کے عنوان سے انکی کتاب 2002میں شائع ہوئی،وہ اپنی تیسری کتاب ”مائی یئرز ان جرنلزم’ تحریر کررہے تھے جو انکے بچپن سے لیکر صحافتی کیرئیر پر مشتمل ہے، یہ کتاب جلد بک سٹالز پر دستیاب ہوگی۔
صدیق 160بلوچ نے بلوچستان کے اختیارات اور برابری کے حقوق کیلئے ہمیشہ مہم چلائی اور آواز بلند کی، ان کے موقف کو عالمی میڈیا بشمول بی بی سی، وائس آف امریکا، گارڈین، سی این این اور دیگر مغربی میڈیا ادارے زیر موضوع لایا کرتے تھے، پاکستان میں تمام قومی اور علاقائی ذرائع ابلاغ نے انہیں بلوچستان کے مسائل پر بہت اہمیت دی،تاہم حالیہ عرصے کے دوران انہوں نے خرابی صحت کی وجہ سے میڈیا پر اظہار خیال سے اجتناب کیا۔
148بلوچستان کی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی ناممکن ہے147، صدیق بلوچ نے مختلف مواقعوں پر انٹرویو میں کہا کہ آپ نصف پاکستان کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں،اداریوں کے ذریعے انہوں نے قومی سطح پر وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق تنقید کی، 148پنجابی استعمار کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، وہ غلط فہمی کا شکار ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچستان کو پس پشت ڈال کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں147۔
صدیقی بلوچ کا ذاتی عمل ہمیشہ مثبت طور پر یاد رکھا جائے گا،کوئٹہ میں انکے ساتھی انہیں بے حد پسند کرتے تھے، بلوچستان کے صحافیوں کیلئے وہ انتہائی قابل احترام تھے جو انہیں لالا کہہ کر بلاتے تھے جو بلوچی زبان میں بڑے بھائی کو کہا جاتاہے۔ بلوچ صحافیوں کے لئے آواز بلند کرنے کے باوجود انہوں نے کبھی بھی ذات پات، زبان اور نظریے کی بنیاد پر تفریق نہیں کی اور یہی انکی شخصیت کا خاصہ تھا، ان کی تمام تر کوششوں کا مرکز بلوچستان کی ترقی و خوشحالی تھا۔
ان کی زندگی سیاسی جدوجہد اور دو اخبارات کو سنبھالنے میں گزرگئی جن کا تمام تر انحصار حکومتی اشتہارات پر تھا، انکی ادارتی پالیسی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 2بار چھاپہ مارا اور ساتھ ہی انکے اخبارات کے اشتہارات بند کردی گئیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار انہوں نے کہا کہ ”بلوچستان میں 17 گریڈ کا افسر بادشاہ ہے جو صحافیوں کو کچھ نہیں سمجھتا ”، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تمام مشکلات کا بہادری سے سامنا کیا۔
انہیں میں نے کبھی بھی کسی کی شکایت کرتے نہیں دیکھا،انہوں نے میری طرف مسکراتے ہوئے کہا کہ ” اچھے اور برے پلوں سے لطف اٹھاؤ ” وہ ہمیشہ اپنے بچوں سے کہتے کہ انکے والد ایک مزدور تھے لیکن ان کے بیٹوں کا باپ ایک صحافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”معاشرے میں نام بنانے کیلئے عمر بیت جاتی ہے ”۔
حکومتی اشتہارات پر انحصار اور محدود وسائل رکھنے کے باوجودصدیق بلوچ نے اس بات کو یقینی بنائے رکھا کہ انکے عملے کو دن میں کم از کم ایک بار کھانا ضرورفراہم کیا جائے، سریاب روڈ پر واقع انکے اخبار کے دفتر میں مختلف قومیتوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کام کرتے ہیں۔
سریاب روڈ پر امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باوجود انکے دفتر میں اردو اور پنجابی بولنے والے لوگ کام کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ دفتر کے عملے میں بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی اور اردو بولنے والے شامل ہوتے ہیں۔ وہ مذہبی آزادی پر بھی یقین رکھتے تھے ، ایڈیٹر ہونے کے باوجود وہ ملازمین کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے، وہ خواتین کی بے حد عزت کرتے اور خواتین کے آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔
صحافت کے علاوہ صدیق بلوچ ایک بہترین فٹ بالر بھی تھے،ہائی اسکول سے لیکر یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہنے کے دوران انہوں نے فٹ بال ٹیم کے ہمراہ باقاعدہ لاہور اور پاکستان کے دیگر حصوں کے دورے کئے، 1966 میں انہوں نے ڈھاکہ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے حکومت کی جانب سے لگائے تربیتی کیمپ میں 2ماہ گزارے اور فٹ بال کھیلا۔
صدیق بلوچ کو اس وقت کے مشرقی پاکستان کی جانب سے پروفیشنل فٹ بالر بننے کیلئے خصوصی پیکج کے تحت بھاری رقم کی پیشکش بھی کی گئی تاہم انہوں اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ” میں کبھی بھی پروفیشنل فٹ بالر نہیں بننا چاہتا ”۔
صدیق بلوچ اپنے پیچھے ایک قابل فخرصحافتی میراث چھوڑ گئے جو یقیناًان کی سوچ اور فکر کو آگے بڑھائیں گے۔