|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2018

گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں صدیق بلوچ ایک جان لیوا دھمکی سن کر آئے تھے تاکہ مجھے اپنے حصہ کی دھمکی پہنچائیں اس دن وہ بہت کرب میں تھے ان کا کہنا تھا کہ ایک دھمکی تو برداشت کی جاسکتی ہے لیکن اظہار رائے پر پابندی کی دھمکی ناقابل برداشت ہے۔

دو تین روز بعد تین اخبارات کے سرکاری اشتہارات بند کردیئے گئے نہ صرف یہ بلکہ بلوچ تنظیموں نے صوبہ بھر میں اخبارات کی ترسیل بھی روک دی، یہ قدم دو اخبارات پر ایسا قاتلانہ حملہ تھا جس سے جانبر ہونا تقریباً ناممکن تھا صدیق بلوچ نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کینسر جیسے موذی مرض کا نہایت بہادری اور ہمت سے مقابلہ کیا تھا ۔

اپنے اخبارات کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند ہوگئے تھے اور وہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تقریباً دو ماہ کی تگ و دو کے بعد جب وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری سے ملاقات کی کوشش کامیاب ہوئی تو ان کے سامنے تشریف فرما افسران اشتہارات کی بندش کے حق میں دیدہ دلیری کے ساتھ دلائل دے رہے تھے۔

حالانکہ وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ داغ مجھ پر ہمیشہ کے لئے لگ جائے گا کہ میرے دور میں بلوچستان کے مقامی اخبارات کے ساتھ یہ سلوک ہوا، افسران وزیراعلیٰ کو بتارہے تھے کہ اشتہارات کی بندش کا حکم اوپر سے آیا ہے اور وزیراعلیٰ نہایت بے بسی کے عالم میں یہ بات سن رہے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے اختیارات کھوچکا تھا ۔

جب ہم نے لالہ کو ان کے گھر پہنچایا تو وہ بے حد صدمے سے دوچار تھے اور گھر جاتے ہوئے اس باہمت انسان کے قدم لڑ کھڑا رہے تھے۔

اس دن ان کو دوسری مرتبہ ’’شاک‘‘ لگا تھا انہیں اپنی جان کی پروا نہیں تھی لیکن اپنے ادارے کی فکر تھی وہ ایک مرتبہ سندھ ایکسپریس کے حوالے سے ایک المیے سے دوچار ہوچکے تھے اور اب ایک اور ایسے المیے کے لئے تیار نہیں تھے ۔

کیونکہ انہوں نے اپنے ادارے کے قیام کے لئے بہت جدوجہد کی تھی شروع میں ان کا خیال تھا کہ بلوچستان میں ان کے ساتھ ٹھیک سلوک ہوگا، ایسا سلوک نہیں ہوگا ۔

جو ان سے سندھ میں روا رکھا گیا لیکن یہ لالہ کی خوش فہمی تھی ان جیسے جہاں دیدہ شخص کوزمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہئے تھا حالانکہ وہ خود کہتے تھے کہ کارپوریٹ اخبارات کی یلغار برٹش ایسٹ انڈیا کی یاد دلاتی ہے۔

جب ہندوستان کے اشتہارات لندن کے اخبارات میں شائع ہوتے تھے اور خود ہندوستان میں 1935ء تک اخبارات کے اجراء پر پابندی عائد تھی 1935ء کے بعد برصغیر کے دو عظیم انسان مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر بھی سخت امپیریل قوانین کی وجہ سے اپنے اخبارات کا وجود برقرار نہ رکھ سکے تھے۔

ان حقائق کے باوجود لالہ بلوچستان کو وفاق کا ایک آئینی وحدت سمجھ کر آئے تھے لیکن انہیں تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا یہ ایک لمبی تفصیل ہے جس میں سردست جانے کی ضرورت نہیں ہے،

اصل میں ہوا یہ کہ 1970ء میں اس وقت کے آمر جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر بلوچستان کو صوبہ بنایا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے حکمرانوں نے اسے کبھی صوبہ تسلیم نہیں کیا جو خوش فہمی لالہ کو تھی وہی۔

ہمارے دو قابل احترام ہستیوں میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کو بھی تھی اسی لئے انہوں نے 1972ء میں یہاں حکومت بنائی لیکن وہ صرف 9 ماہ کرسی پر رہے اس کے بعد مرکز نے بلوچستان کا انتظام براہ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

اس دن سے آج کا دن اسے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں حقائق بہت تلخ پیچیدہ اور ناقابل بیان ہیں۔ اگرچہ صوبہ کا نام برقرار رکھنا اور دیگر ادارے دنیا کو دکھانے کے لئے قائم ہیں ۔

لیکن دراصل یہاں کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو سیاستدان یا پارلیمنٹرین کہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا وزن کیا ہے ان کی وقعت کیا ہے ایک مرتبہ کچھ صحافی وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھے تھے اور وہ چیف سیکریٹری کے انتظار میں تھے اور بار بار پوچھ رہے تھے ۔

کہ سیکریٹری صاحب آئے نہیں آئے لیکن وہ اس دن نہیں آئے اس کی وجہ یہ ہے کہ چیف سیکریٹری مرکز کے نمائندے ہیں اور وہ چند سال قبل تک خود کو وائسرائے سمجھتے تھے لیکن اب یہ صورتحال بھی بدل گئی ہے۔

حکمرانوں نے بلوچستان میں ارتقائی عمل مصنوعی طریقے سے روک دیا ہے وہ اس صوبہ کے عوام کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں جس کی نظیر شائد ہی کہیں ہو ان کو انسان نہیں سمجھا جاتا انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے جان بوجھ کر محروم رکھا جارہا ہے حتیٰ کہ جینے کا آبرو مندانہ حق بھی تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔

اربوں روپے کے وسائل بیورو کریسی لوٹ کر کھارہی ہے اور تھوڑا سا حصہ عوامی نمائندوں کو بھی رحم کھاکر دیا جارہا ہے لیکن کرپشن اور بدنامی کا سارا داغ عوامی نمائندوں پر لگ جاتا ہے جب انگریز سرکار نے ہندوستان کا ڈائریکٹ کنٹرول سنبھالا تھا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے کئی اعلیٰ اہلکاروں کوراج سے غداری اور لوٹ مار کے الزام میں جیل میں ڈال دیا تھا۔

فاتحہ بنگال لارڈ کلائیو کو تو کمپنی کے دور میں ہی کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن یہاں ایک آدھ مقامی افسر اور ایک دو وزراء کو گرفتار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سرکار کارروائی کررہی ہے حالانکہ بلوچستان سے لوٹی ہوئی دولت کے انبار کراچی، لاہور، اسلام آباد، دبئی، ملائیشیا حتیٰ کہ انگلینڈ میں بھی واضح طور پر نظر آرہے ہیں ۔

اگر کہا جائے کہ استعمار نے اپنے وسیع اور دوررس مقاصد کی خاطر ایک نئی مخلوق تیار کی ہے تو بے جا نہ ہوگا ایسی مخلوق جو لگتا ہے کہ کسی اور سیارے سے وارد ہوئی ہو یاد رکھنے کی بات ہے کہ ارتقاء ایک قانون قدرت ہے اسے مصنوعی طریقے سے موخر کیا جاسکتا ہے لیکن روکا نہیں جاسکتا اور جب ارتقاء کو جبراً روکا جائے تو یہ پھٹ پڑتا ہے جو بہت تباہی لیکر آتا ہے۔

آج مرکز خوش ہے کہ اس نے اس خطے کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کے ساحل و وسائل ایک ہمسایہ کے حوالے کردیئے ہیں لیکن کل انہیں پچھتاوا ہوگا جن لوگوں میں اپنی حفاطت اور ترقی کی صلاحیت نہ ہو وہ آخر سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔

صدیق بلوچ کا قصور یہ تھا کہ وہ تاریخ کا ادراک رکھتے تھے اور ان کا پسندیدہ موضوع جغرافیہ تھا وہ بلوچستان کی حالت زار کا رونا روتے تھے اداریہ لکھتے تھے مضمون شائع کرتے تھے اگرچہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا لیکن وہ مزاحمتی جدوجہد کی علامت تھے اور اپنا کام کئے جارہے تھے۔

موت نے بلوچستان کو ایک مزاحمتی قلم زیرک اور قابل انسان سے محروم کردیا ہے لیکن بلوچستان بانجھ نہیں ہے وہ صدیق بلوچ جیسے اور فرزند پیدا کرے گا جو ہم سے بہتر کام کرکے دکھائیں گے۔ مشکلات کا بہتر طور پر سامنا کریں گے اور اگلی نسلوں کو ایک روشن اور تابناک مستقبل کی نوید سنائیں گے۔

صدیق بلوچ جو ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں اسے آگے لیکر جانا نئی نسل کا کام ہے نئی نسل کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ مستقبل قریب میں ان کی سرزمین میں کیا اہم اور محیّر العقول تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ساحل و وسائل بچانے کی بات کی گئی لیکن اب معاملہ کہیں آگے چلا گیا ہے۔

صرف دو دہائی قبل تک چین، امریکا، جاپان، روس اور جرمنی کے بعد ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت تھا لیکن اب یہ عددی اعتبار سے نمبر 2 لیکن دراصل نمبر ایک معاشی طاقت بن چکا ہے یہ کرّہ شمالی سے لیکر جنوبی تک اپنے خطرناک منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے دنیا پر ایک نت نئے انداز میں قابض ہونے کی کوشش کررہا ہے۔

زمانہ قدیم میں سلک روڈ پرمٹ منگولیا سے شروع ہوکر ہمالیہ کے اس طرف ہندوستان تک آیا تھا اور یہیں تک محدود تھا لیکن اب بحر ہند، ساؤتھ چائنا سی بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس تک پھیلتا جارہا ہے ہمارے خطے میں اس کا محور بلوچ ساحل ہے اگرچہ گوادر پورٹ چین کے حوالے کیا جاچکا ہے لیکن اس سے متعلق اور منسلک دیگر منصوبے ہنوز صیغہ راز میں ہیں۔

گوادر کا ماسٹر پلان بیجنگ میں بن رہا ہے جو اس سال اگست تک تیار ہوجائے گا۔ گوادر میں ایک جدید شہر بنانے کیلئے موجودہ آبادی کا انخلاء اس منصوبے کا حصہ ہے۔

معلوم نہیں کہ گوادر کی موجودہ آبادی کو کہاں بسایا جائے گا اور ضلع کا کتنا بڑا حصہ چین کے حوالے کیا جائے گا جب تعمیرات اور آبادکاری کا اتنا بڑا منصوبہ روبہ عمل ہو تو مقامی لوگوں کی حیثیت وہی ہوگی جو آج کراچی میں بلوچوں کی ہے۔

بلوچستان کے صوبائی حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ بار بار کے اعلانات کے باوجود مقامی لوگوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

غالباً ان میں نہ یہ صلاحیت ہے اور نہ اس کا ادراک ہوسکتا ہے کہ گوادر مستقبل میں جنوبی سنکیانگ بنے یا جنوبی پنجاب کی شکل اختیار کرلے یہ مقاملہ آئندہ کی نسلیں بھگتیں گی کیونکہ گوادر کی حقیقی شکل آئندہ ایک دو دہائیوں تک واضح ہوگی۔

اگر حالات پرامن رہے تو یہ منصوبے روبہ عمل آئیں گے اگر امریکا نے خلیج میں چین کو روکنے کی کوشش کی تو طویل جنگ کے بھیانک بادل بھی آسکتے ہیں ویسے بھی مشرق وسطیٰ کے حالات ایک قیامت خیز جنگ کی طرف جارہے ہیں ایک طرف سعودی عرب اور اسرائیل کا اتحاد ہے دوسری جانب ایران اور اس کے اتحادی ہیں ۔

چین لازمی طور پر امریکا مخالف اتحاد کا ساتھ دے گا اور ہندوستان بھی محض تماشائی بن کر نہیں رہے گا۔

ترقی کی لالچ میں اگر خلیجی بڑی طاقتوں کا قیام تصادم بن گیا تو ناقابل یقین تباہی آئے گی اور سب سے زیادہ تباہی اہل بلوچستان پر آئے گی۔

صدیق بلوچ چونکہ عمر کے آخری حصے میں بہت زیادہ حساس ہوگئے تھے اس لئے وہ مستقبل کا عکس دیکھ کر زیادہ افسردہ اور پریشان ہوا کرتے تھے وہ تو تابناک مستقبل کے سفیر تھے۔ تباہی ان کے اذہان میں نہیں تھی وہ ذہین اور اعلیٰ انسان اقدار پر یقین رکھتے تھے ۔

انہیں فورٹ منیرو سے لیکر گوادر تک معصوم بچوں کے رونے کی دلدوز آوازیں پسند نہیں تھیں وہ انہیں سننے کی تاب نہیں رکھتے تھے اس لئے وقت سے پہلے چلے گئے۔

بشکریہ انتخاب اور انور سا جدی