|

وقتِ اشاعت :   February 14 – 2018

یہ چھ فروری کا صبح تھا۔موبائیل آن کرنے کے بعد ایک درجن کے قریب وٹس ایپ گروپ سے آنے والے میسجز پر سرسری نگاہ دوڑاتا رہا۔ پہلی نظر ’’ساربان‘‘گروپ کے ایک میسج پر پڑا جہاں لالہ صدیق کے ناگہانی موت کی خبر دیکھ کر افسردگی ہوئی۔

اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر پھر افسردہ چہرے کے ساتھ اس خبر کو ماننا پڑا کہ یہ لالہ کے بیٹے عارف بلوچ کا پوسٹ تھا۔ اور میں معمول کی چیزوں سے ہٹ کر افسردہ نگاہوں سے اپنے باقی میسجز کی طرف بڑھ رہا تھا کہ لالہ کے بھائی اسلم جنگیان صاحب کی جانب سے بھیجے گئے اس افسردہ خبر پر ایک بار پھر نظر پڑی۔

میں اپنی دنیا سے کافی دور تھا اور پریشانی کے عالم میں لالہ اور طارق بلوچ کے وٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغامات پر نظر دوڑاتا رہا۔ اب مجھے معلوم ہورہا تھا کہ طارق مجھ سے پسنی آنے کا وعدہ کرکے کیوں پسنی نہ آئے۔ میں لالہ کی جانب سے آنے والے وٹس پیغامات کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور اسی سوچ میں مگن تھا کہ میں کتنے عظیم ہستی سے رابطے میں تھا۔

مجھے سریاب روڑ کے گلی میں موجود روزنامہ آزادی کا دفتر پھر یاد آرہا تھا اور لالہ سے فون پر ہونے والی گفتگو جو مجھے ہر وقت حوصلہ دیتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ میں ان کے صاحبزادے طارق بلوچ کا دوست تھا بلکہ میں بچپن سے روزنامہ آزادی کا ایک ادنی سا رپورٹر تھا۔ بلکہ اس لئے کہ لالہ اپنے ہر رپورٹر سے رابطے میں ہوتا تھا۔

مجھے وہ رات اب بھی یاد آتا ہے جب میں اپنے شہر میں ہونے والے ایک بڑے جلسے کے بعد خبرفیکس کرنے کے بعد اخبار کے آفس نمبر ڈائل کرچکا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم خبر فیکس کرتے تھے۔دوسری طرف آنے والی آواز کسی اور کی نہیں بلکہ لالہ بول رہا تھا۔میں نے کہا پسنی سے بات کررہا ہوں۔اپنا نام بتانے سے پہلے لالہ مجھے پہچان چکے تھے اور خبر ملنے کی تصدیق بھی کی۔

اگلے دو دن بعد جب گوادر سے روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کی کاپی مجھ تک پہنچ گئی توبلوچستان ایکسپریس میں مین پیج پر میرے نام کے ساتھ لگنے والا یہ خبرمیر ے لیے آگے بڑھنے کا موقع بنا۔ اور اب انٹرنیٹ کی آمد کے بعد روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس صبح اٹھنے کے بعد مجھے نیٹ پر پڑھنے کو ملتے ہیں ۔

لالہ کے اخبار نے بچپن سے لکھنے کا ہنر سکھایا۔ مجھے حوصلہ دیا۔ مجھے جینے کا سلیقہ دیا۔مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ بلوچستان کا واحد اخبار روزنامہ آزادی ہے جو میرے بلاگ کو ادارتی صفحہ پر جگہ دیتا ہے۔ اور یہ نوجوان رائٹرز کے لئے مشعل راہ ہے۔

لالہ صدیق بلوچستان کاایک نڈر اور سچ بولنے والا صحافی اور دانشور تھا۔ لالہ نے ہمیشہ حکمران وقت سے سمجھوتا کرنے کے بجائے بلوچستان کے مسائل کو اپنے اخبارات میں نمایاں شائع کرنے کو ترجیح دیا۔

لالہ کے صحافتی زندگی پر لکھنا میرے لئے بہت مشکل ہے کیونکہ لالہ کی جانب سے بھیجے گئے وٹس ایپ پیغامات دیکھ کر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اتنی بڑی شخصیت ،صحافی اور دانشور ہوتے ہوئے ایک عام سے نامہ نگار کو وہ کتنا اہم مقام دیتے تھے۔

میرا چونکہ لالہ سے بہت کم رابطہ ہوتا تھا مگر طارق بلوچ سے میں اکثر الجھ جاتا تھا کیونکہ وہ مجھے لالہ جیسے لگتا تھا۔روزنامہ آزادی سے میری وابستگی کی وجہ لالہ صدیق کے بیٹے اور اپنے بھائی نما دوست طارق بلوچ بنے۔طارق بلوچ بھی میرے مزاج کا نکلا جس سے وقتاً فوقتاً رابطوں کا سلسلہ چلتا رہا۔

آج سے 11سال پہلے جب سریاب روڈ کی ایک گلی میں روزنامہ آزادی کے دفتر میں جانا ہوا جہاں لالہ سے تو ملاقات نہ ہوسکی مگر طارق بلوچ کی زبانی روزنامہ آزادی کے ابتدائی ادوار تک کا سفر سننا نصیب ہوا۔طارق بلوچ سے میرا حال احوال پندرہ سال پہلے ہوا تھا جب میں نے روزنامہ آزادی کے لئے کام شروع کیا۔

مجھے یاد ہے اس وقت کوئٹہ کے اخبار گوادر بہت کم آتے تھے۔ مگر یہ لالہ اور طارق کی محبت تھی کہ ہم ان کے اخبار کے لئے رپورٹنگ کرتے تھے ۔یہ لالہ صدیق صاحب کی صحافت دوستی کا ثبوت تھا کہ محھ جیسے نوجوان کو انہوں نے اپنے اخبار کے لئے چنا۔

ان کی صحافت دوستی کا اندازہ اس بات پر لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہر وقت اپنے اخبار میں پسماندہ علاقوں کے خبروں کو ترجیح دی۔ اور جب روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس سے میں منسلک ہوا تو میں بہت کم عمر تھا مگر لالہ کی محبت اور طارق بلوچ کے خلوص اور پیار نے مجھے حوصلہ دیا۔


آج آزادی اور ایکسپریس میں کام کرنا ہر ایک کی خواہش ہے مگر یہ پیار شاید بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور ان میں، میں اپنے آپ کو ایک خوش نصیب تصور کرتا ہوں۔