|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2018

سمجھ میں نہیں آ رہا ابتداء کہا ں سے کروں ،آنکھیں نم ہیں ،دل اداس ہے ،افسردگی نے اپنی باہوں میں ایسا لپیٹا ہے کہ نکل ہی نہیں پارہا۔لالا کی موت ایک فرد کی موت نہیں ،ایک تسلسل کا اختتام ہے۔

جس کی ابتداء 1940 ء میں ہوا تھا ،بی ایس او کی سیاست ،یونیورسٹی میں طلباء یونین کی نمائندگی،ڈان نیوز پیپر میں 29 سال کی خدمات ،روزنامہ سندھ ایکسپریس کی ابتداء ،بلوچستان ایکسپریس کی بنیاد ،روزنامہ آزادی کا آغاز ،روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کے بنیادی مسائل کو اپنے قلم سے اجا گر کرنا ،سیاست پر تجزیہ کرنا ،ملکی و بین الاقوامی معاملات پر قلم اٹھانا ،یہ کمال تو صرف لالا ہی کا تھا۔

آپ سب کو یہ بتاؤں کہ میرا محسن کتنا عظیم تھا میں ان خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ہوں جنہیں لالا کی قربت ،سرپرستی حاصل تھی ۔ہفتوں روزنامہ آزادی کے دفتر میں رہ کر لالا سے سیکھنے کا موقع ملا۔

یہ میری نالائقی ہے کہ میں سمندر سے صرف ایک قطرہ پانی حاصل کر سکا ،لالا ایک سمندر تھا موضوع بلوچستان ہو یا کہ ملکی صورتحال ،بین الاقوامی معاملات یا کہ سی پیک ،کچی کینال کا مسئلہ ہو یا سیندک و ریکوڈک ،جس مسئلے پر قلم اٹھاتا ڈیروں سفید پرچوں کو منٹوں میں رنگین کر کے میرے سامنے پھینکتا اور کہتا (یونس ایشابوان و چیک پیکن )یونس اس کو پڑھو چیک کرو مجھے بتاؤ ، لالا کو انکار کرنا ،نا ممکن ،جی لالا پڑھتا ہوں۔

لالا عظیم تھا میں تو جاہل نا سمجھ ،لالا یہاں اگر یہ لکھا ہوتا تو اچھا نہیں تھا ،،،میری جاہلیت پر ،میری گستاخی پر ،،میری بے ادبی پر مسکرہٹ اور سر سے اشار ہ کر کے کہتا ایڈ کرو جو کرنا ہے میں جانتا تھا کہ لالا کیوں مجھے یہ اجازت دے رہا ہے کہ ایڈ کرو جو کرنا ہے ۔

وہ مجھ میں خود اعتمادی بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا وگرنہ کہاں لالا کا مقام کہاں میری اوقات ،،، ہاں یونس بیدئے حال آچے خیر و خبر انت ،، ہاں یونس حال احوال دو کیا خیر و خبر ہے ؟،،،،،، لالا کچھ خاص نہیں ،،،،،ارے کیسے کچھ خاص نہیں صحافی کے پاس ہمیشہ کچھ نہ کچھ خاص ہوتا ہے تم کیسے صحافی ہو کہ تمارے پاس خاص کچھ نہیں ،،،،،، میں لا جواب ہوتا اور یوں لالا مجھے لاجواب کر کے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ مجھے سمجھاتے تھے کہ یونس یاد رکھنا وہ صحافی صحافی نہیں ہو سکتا ۔

جس کے پاس کوئی خاص خبر نہ ہو ،،،یونس کہا ہو، لالا میں خضدار میں ہوں ،ٹھیک میں آ رہا ہوں وڈھ جانا ہے ،،،، جی لالا ،،، حاضر وہ اپنے دوست مولوی صدیق کو بھی کہنا میں آ رہا ہوں ،،،واحد شاہوانی اور ایوب بلوچ کو بھی میری آمد کی اطلاع دینا ،،،جی لا لا ،،،اور ہاں چائے کے ساتھ خشک روٹی میرا خوراک ہے اس سے زیادہ تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،،،، جی لالا جو حکم ،،،،،لالا مسافر کوچ میں خضدار پہنچتے ،،

پریس کلب کے صحافیوں سے ملاقات کرنے کے علاوہ مختلف سیاسی کارکنان سے بھی ملاقات کرتے ،،،، علاقے کے مسائل پوچھتے اور پھر دوسرے دن کے اداریہ میں انہیں اجاگر کرتے ،،،خضدار میں ملاقاتوں سے فارغ ہونے کے بعد مجھے کہتے،،،،،یونس ،،،،،،جی لالا ،،،،،وڈھ جانا ہے ،،،، جی لالا میں گاڑی کا بندوبست کرتا ہوں ،،،،،،،گاڑی کیوں ؟؟؟ لالا آپ کو وڈھ لے جانا ہے ،،،،، یونس تمھارے پاس موٹر سائیکل نہیں ؟ لالا موٹر سائیکل ،،،،،،ہاں ،،،،،، نہیں لالا گاڈی کا بندوبست کرتے ہیں ،،،،،،، یونس کیا ضرورت ہے جو دستیاب ہے اسے استعمال میں لاؤ ،،،،،، نہیں لالا فیض ساسولی کے پاس گاڑی ہے اس کی گاڑی میں چلتے ہیں ،،،
میں فیض ساسولی ،لالا کو وڈھ پہنچاتے اور یوں وہاں دو دوستوں کی ،، دو بزرگوں ،،،، دو دانشوروں ،،،،،، دو عظیم انسانوں کے درمیان گھنٹوں ڈسکشن ہوتی اور ہم سنتے ،،،،، نیشنل عوامی پارٹی دور کی یادیں تازہ ہوتیں ،سردار عطاء اللہ مینگل کے اپنے وزارت اعلیٰ کی باتیں ہوتیں ،موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی باتیں ہوتی اور مستقبل کے بارے میں پیشنگوئیاں ہوتیں اور یوں گھنٹوں سردار عطاء اللہ مینگل اور لالا صدیق کے درمیان ٖڈسکشن جاری رہتا۔

ان دونوں کے درمیان ہونے والے بحث و مباحثہ میں بلوچستان کو اولیت حاصل ہوتی تھی اور ہم کو سیکھنے کا بھر پور موقع ملتا تھا ،،، ٹوک ٹکار ،،،،، بھوگ شوگھ ،،،،طنز و مزاح کا دور بھی چلتا،،،،،لالا کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ لکھتے وقت بھی ساتھ بیٹھے لوگوں سے ڈسکشن کیا کرتے تھے مطلب ایک ساتھ وہ لکھتے بھی اور باتیں بھی کیا کرتے تھے۔

ایک دن میں روزنامہ آزادی کے دفتر میں بیٹھا تھا لالا کوئی آرٹیکل لکھ رہے تھے میں نے ان سے مخاطب ہو کر کہا ،،لالا،،،، خضدار کے کچھ مسائل ہیں ان پر اداریہ لکھیں ،،،، لالا خاموش ہوا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد مجھے کہا کہ کیوں آپ نہیں لکھ سکتے ؟ میں نے کہا لالا آپ اداریہ لکھیں میں تو بیان لکھ سکتا ہوں ،،،، یونس یہ اخبار ہم سب کا ہے ،،،،،

ہم سب مالک ہیں اور ہم سب اس میں ملازم بھی اور ہم سب فری بھی اس ادارے کے لئے کام کر رہے ہیں ہم سب ہی مل کر اسے چلاتے ہیں تب جا کر اس میں خوبصورتی آتی ہے ،،، آپ اداریہ لکھیں چھپ جائے گا ،آپ خصوصی رپورٹ لکھیں جگہ مل جائے گی ،،،، مجھے لکھنے کا نہ کہیں بلکہ خود لکھا کریں ،،، جی لالا میں لکھتا ہوں ،،،، ابھی لکھیں میں مزاج کو خود دیتاہوں (مزاج روزنامہ آزادی کے آرٹیکل پیج کا انچارج ہے )

میں دل میں سوچھتا کہ میں نے تو لالا کو لکھنے کا کہا اب خود پھنس گیا ،،،لالا کو کون انکار کر سکتا ہے ،،،،اس کے بعد جب مجھے کوئی اداریہ لکھنا ہوتا تو میں لکھ کر لالا کو پرسنل ای میل کرتااور وہ چھپ جاتا ،،،، مجھے یقین نہیں کہ کسی دوسرے اخبار میں ایک نمائندے کو یہ مقام حاصل ہو جس طرح کا مقام لالا ہم علاقائی نمائندوں کو دیتا تھا ،،،،،میری طرح لالا کو بھی کینسر کا عارضہ لاحق تھا ،،کینسر نے لالا کو ہم سے چھین لیا، میں الحمد اللہ صحت مند ہوں ،،،

روزانہ لالا مجھے کوئی نہ کوئی مسیج کرتے تھے جن میں کینسر سے بچاؤ کے متعلق بھی میسجز ہوا کرتے تھے ،، ،، جب مجھے یہ عارضہ لاحق ہوا تو لالا نے مجھے کافی سپورٹ کیا میرے لئے ایک خاص رقم کا بندوبست کیا ،روزنامہ آزادی کے ماہانہ بل سے بھی میرے لئے ماہانہ کی بنیاد پر کچھ رقم فکس کروایا۔

وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ،سیکرٹری انفارمیشن جہاں سے بھی ممکن ہوا لالا نے میرے لئے گرانٹ منظور کروالیتے اور مجھے تسلی دیتے کہ یہ مرض قابل علاج ہے تم ٹھیک ہو جاؤ گے ،،، لالا آپ ٹھیک فرماتے تھے میں آپ کی باتوں پر عمل کر کے میں نے کینسر کی مرض سے نجات پا لیا مگر کینسر نے آپ جیسے عظیم ہستی کو ہم سے چھین لیا ،،، ،کینسر تجھے کینسر لگ جائے تم نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیا ،،،، لالا اعظیم انسان تھے، لالا کی موت ہم سب کو سکتہ میں ڈال گیا ہے اور اس دکھ تکلیف سے ہم شاید ہی کبھی نکل پائیں ۔

ہاں ہم اس کے بتائے ہوئے اصولوں ،ان کے دئیے گئے اسباق سے جو کچھ حاصل کر سکیں ان پر عمل کریں عملی زندگی میں لالا کو اپنا آئیڈل بنا کر ان کے طے شدہ راستوں پرچلیں تب جا کر شاید سکون محسوس کریں وگرنہ لالا کے بغیر زندگی ادھوری محسوس ہونے لگی ہے۔ لالا کی موت حقیقتاً ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک سلسلہ کا اختتام ہے ۔
پھر بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے عارف بلوچ ،آصف بلوچ ،طارق بلوچ ،ظفر بلوچ ،صادق بلوچ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر ان کے نام کو روشن کریں گے اور ان کے لگائے ہوئے پودوں کو جو اب تناور درخت بن چکے ہیں ۔

یعنی روزنامہ آزادی ،روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور ہفت روزہ ایکسپریس کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قارئین ،نمائندوں ،عوام الناس کو ان کی کمی کو محسوس ہونے نہیں دینگے۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ لالا صدیق کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں(آمین )